جرمنی ميں پناہ کی کچھ درخواستوں پر فيصلے، غلطيوں کا ثبوت
عاصم سلیم
5 مئی 2017
جرمنی ميں ايک فوجی خود کو مہاجر بتانے کے بعد کسی دہشت گردانہ حملے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا کہ اسے حراست ميں لے ليا گيا۔ يہ کيس اس امر کی عکاسی کرتا ہے کہ مہاجرين کے بحران سے نمٹنے والے حکام سے کوتاہياں بھی ہوئی ہيں۔
اشتہار
جرمن فوج کے اہلکار اٹھائيس سالہ ليفٹيننٹ فرانکو البريشٹ نے خود کو شامی دارالحکومت دمشق ميں پھل فروخت کرنے والا بتاتے ہوئے اپنے ہی ملک ميں سياسی پناہ کی درخواست جمع کرائی تھی۔ حيران کن بات تو يہ ہے کہ عربی زبان کا ايک لفظ تک نہ آنے کے باوجود ان کی درخواست جمع ہو گئی اور اس پر کارروائی بھی جاری رہی۔
اسی دوران انہيں نہ صرف رہائش کے ليے ايک کيمپ ميں جگہ بلکہ ماہانہ قريب چار سو يورو بھی ديے جا رہے تھے۔ اس معاملے کی تفتيش کرنے والے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ البريشٹ دائيں بازو اور مہاجرين مخالف جذبات کے حامل ہيں اور وہ در اصل کسی دہشت گردانہ حملے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے، جس کا الزام وہ مہاجرين پر ڈالنا چاہتے تھے۔
ايک بالکل ہی مختلف واقعے ميں ایک شامی پناہ گزين محمد حماد کو گزشتہ سال اکتوبر ميں دو خط موصول ہوئے۔ پہلے سرکاری دستاويز ميں اسے بتايا گيا کہ اس کی سياسی پناہ کی درخواست منظور ہو گئی ہے اور اسے جرمنی میں تين سال قيام کی اجازت ہے اور اسے يہ حق بھی حاصل ہے کہ وہ اپنے اہل خانہ کو جرمنی بلا سکے۔
کچھ ہی روز بعد اسے ايک اور خط موصول ہوا، جس ميں اسے جزوی پناہ دی گئی اور يہ حق بھی نہيں دیا گیا کہ وہ اپنے اہل خانہ کو بلوا سکے۔ دريافت کرنے پر متعلقہ حکام نے اسے بتايا کہ پہلا خط صرف مسودہ تھا اور اس کی کوئی حيثيت نہيں۔
يہ دو مثاليں بنيادی طور پر اس بات کی عکاسی کرتی ہيں کہ اتنی بڑی تعداد ميں مہاجرين کی آمد اور پھر ان کی درخواستوں پر کارروائی کے دوران متعلقہ حکام سے غلطياں بھی سرزد ہوئی ہيں۔
سن 2015 ميں جب مہاجرين کا بحران اپنے عروج پر تھا تو ہر ہفتے ہزاروں کے تعداد ميں تارکين وطن جرمنی پہنچ رہے تھے۔ وفاقی جرمن دفتر برائے ہجرت و مہاجرين (BAMF) پر دباؤ اچانک بڑھ گيا۔ ادارے کو بڑی تعداد ميں مہاجرين کے انٹرويو لينے اور پھر ان کی درخواستوں پر کارروائی کے ليے اضافی عملہ رکھنا پڑا۔ BAMF کی افرادی قوت تين ہزار سے سات ہزار تين سو تک جا پہنچی۔ ضرورت پوری کرنے کے ليے جغرافيہ کے ماہرين، اکاؤنٹنٹس حتیٰ کہ سابقہ فوجيوں تک کو اس کام کے ليے رکھا گيا۔ عملے کی تربيت کے عرصے کو بھی چودہ ہفتوں سے گھٹا کر صرف دس دن کر ديا گيا۔ يوں نا تجربہ کار اور کم عرصے ميں تربيت حاصل کرنے والے عملے سے غلطياں قابل فہم بات ہے۔
اضافی عملے کے باوجود پچھلے سال تک BAMF کے پاس ساڑھے چار لاکھ درخواستوں پر کارروائی ہونا باقی تھی۔ نتيجتاً کسی پناہ گزين کو اپنی درخواست کے جواب کے ليے ايک ايک سال يا اس سے بھی زيادہ عرصے تک انتظار کرنا پڑا۔ جرمنی ميں پروٹيسٹنٹ چرچ کی سماجی تنظيم ’ڈياکونی‘ کے سباستيان لڈوگ کا کہنا ہے کہ پناہ کی درخواستوں پر کارروائی ميں کواليٹی يا معيار کی کوئی اہميت نہيں، تعداد کی اہميت ہے۔
اس سلسلے ميں ايک اور مسئلہ مترجموں کا ہے۔ کئی ايسے کيسز بھی سامنے آئے کہ جب پناہ گزينوں کا انٹرويو لينے والے مترجم کو زبان پر عبور اس معيار کا نہيں تھا، جيسا کہ اس پيچيدہ قانونی کام کے ليے درکار ہوتا ہے۔ ميونخ کے ايک وکيل ہوبرٹ ہائن ہولڈ کے مطابق کئی مرتبہ پناہ کی درخواستوں پر فيصلہ ايسے لوگ کرتے ہيں، جنہيں متعلقہ قانون کے بارے ميں کچھ پتہ نہيں ہوتا۔
مہاجرين کے حقوق کے ليے سرگرم ايک گروپ ’پرو ازيل‘ نے بھی انتظامی مسائل پر کڑی تنقيد کی ہے۔
ایسی مشہور شخصیات جو کبھی پناہ گزیں بھی رہیں
اپنے ملک سے فرار ہونے والے اور در در بھٹکنے والے لوگوں کو پناہ گزین کہا جاتا ہے۔ آئیے ملتے ہیں دس ایسی شخصیات سے جو پناہ گزین تو تھیں لیکن موسیقی، اداکاری، سائنس اور سیاست کے میدان میں وہ بلندیوں تک پہنچیں۔
تصویر: Imago/United Archives International
مارلینے ڈیٹريش
خوابیدہ آنکھوں اور دل لبھانے والی آواز کی مالک جرمن گلوکارہ اور اداکارہ مارلینے ڈیٹريش نازی جرمنی کو چھوڑ کرامریکا چلی گئی تھیں۔ سن 1939 میں انہوں نے امریکا کی شہریت اختیار کر لی تھی۔ وہ ایک اہم پناہ گزین پروفائل تھیں، جس نے ہٹلر کے خلاف کھل کر آواز بلند کی۔ نازی جرمنی میں ان کی فلموں کی نمائش پر پابندی لگا دی گئی تھی لیکن انہوں نے کہا تھا، ’’وہ جرمنی میں پیدا ہوئی ہیں اور ہمیشہ جرمن ہی رہیں گی۔‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa
ہنری کسنجر
بین الاقوامی امور کے عالم اور امریکا کے 56 ویں وزیر خارجہ کی پیدائش جرمن ریاست باویریا میں ہوئی تھی۔ انہیں بھی نازی مظالم سے بچنے کے لیے 1938 میں جرمنی چھوڑنا پڑا تھا۔ امریکی خارجہ پالیسی کو ایک نیا رنگ دینے والے کسنجر کا کہنا تھا کہ انہوں نے کبھی خود کو جرمنی سے جدا محسوس نہیں کیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Schiefelbein
میڈلين البرائٹ
میڈلين البرائٹ امریکی وزیر خارجہ بننے والی پہلی خاتون ہیں۔ وہ سن 1997 سے 2001 تک اس عہدے پر فائز رہیں۔ ان کی پیدائش جدید دور کے چیک جمہوریہ میں ہوئی تھی۔ سن 1948 میں جب وہاں حکومت پر کمیونسٹوں کا کنٹرول ہو گیا تو میڈلين کے خاندان کو بھاگ کر امریکا جانا پڑا۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Loeb
البرٹ آئن سٹائن
نظریہ اضافیت کے لیے مشہور جرمن یہودی نوبل یافتہ ماہر طبعیات البرٹ آئن سٹائن سن 1933 میں امریکا کے دورے پر تھے، جب ان پر یہ واضح ہو گیا کہ وہ واپس نازی جرمنی نہیں لوٹ سکتے ہیں۔ چودہ مارچ سن 1879 کو جرمن شہر اُلم میں پیدا ہونے والے ممتاز طبیعات دان آئن سٹائن اٹھارہ اپریل 1955 میں امریکی ریاست نیو جرسی کے شہر پرنسٹن میں انتقال کر گئے تھے۔
تصویر: Imago/United Archives International
جارج وائڈنفلڈ
برطانوی یہودی مصنف وائڈنفلڈ کی پیدائش سن 1919 میں ویانا میں ہوئی تھی۔ جب نازیوں نے آسٹریا کو اپنا حصہ بنا لیا تو وہ لندن چلے گئے۔ انہوں نے اپنی ایک پبلشنگ کمپنی بھی کھولی اور اسرائیل کے پہلے صدر کے چیف آف اسٹاف بھی رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N.Bachmann
بیلا بارتوک
20 ویں صدی کے ہنگرئین موسیقار بیلا بارتوک یہودی نہیں تھے لیکن وہ نازی جرمنی اور یہودیوں پر ہونے والے مظالم کے مخالف تھے۔ سن 1940 میں انہیں امریکا جانا پڑا۔ وہ خود کو تمام تر تنازعات و اختلافات سے ماوراء قرار دیتے ہوئے امن و سلامتی کا پرچار کرتے رہے۔
تصویر: Getty Images
مِلوس فورمین
مشہور فلم ڈائریکٹر ملوس فورمین سن 1968 میں پراگ میں پیدا ہوئے۔ انقلاب کے بعد انہیں اس وقت کے چیكوسلوواكيا چھوڑ کر امریکا میں پناہ حاصل کرنا پڑی۔ مِیلوس کو ان کی دو عالمی شہرت یافتہ فلموں کی وجہ سے بہت زیادہ شہرت ملی۔ One Flew Over the Cuckoo's Nest اور Amadeus پر انہیں آسکر ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/abaca/V. Dargent
ازابیل ایندے
سن انیس سو تہتر میں چلی کے صدر سلواڈور ایندے کا تختہ الٹ دیا گیا تھا اور اسی دوران وہ ہلاک ہو گئے تھے۔ تب ان کی بھتیجی ازابیل کو وینزویلا میں پناہ حاصل کرنا پڑ گئی تھی۔ بعدازاں انہوں نے امریکا سکونت اختیار کر لی تھی۔ مصنفہ کے طور پر انہیں بہت شہرت ملی۔ اس طلسمی حقیقت نگار مصننفہ کے دو ناولوں House of the Spirits اور Eva Luna کو عالمی شہرت حاصل ہوئی۔
تصویر: Koen van Weel/AFP/Getty Images
مريم مکیبا
مريم مكیبا جنہیں ’ماما افریقہ‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، امریکا کے دورے پر تھی جب جنوبی افریقہ کی حکومت نے نسلی عصبیت پر مبنی اس وقت کی ملکی حکومت کے خلاف مہم چلانے پر ان کا پاسپورٹ منسوخ کر دیا۔ جنوبی افریقہ میں اس حکومت کے اختتام تک مکیبا نے کئی برسوں تک امریکا اور جمہوریہ گنی میں زندگی بسر کی۔
تصویر: Getty Images
سِٹنگ بُل
ٹاٹانكا ايوٹیک یعنی سِٹنگ بُل امریکی تاریخ میں سب سے زیادہ مشہور مقامی رہنماؤں میں سے ایک تھے۔ امریکی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف لڑنے والے سٹنگ بل کو سن 1877 سے سن 1881 تک پناہ گزین کے طور پر کینیڈا میں رہنا پڑا تھا۔