جرمنی: مہاجرت مخالف تنظیم کا مہاجرین کے حق میں دھڑا
19 مارچ 2019
جرمن سیاسی جماعت (اے ایف ڈی) کو مہاجرین اور مسلمانوں کی مخالف جماعت سمجھا جاتا ہے۔ اے ایف ڈی کے چند سیاستدانوں کو امید ہے کہ آئندہ آنے والے اہم انتخابات سے قبل ’دا نیو جرمن‘ نامی دھڑے کے قیام سے ان کی ساکھ بہتر ہو گی۔
تصویر: picture-alliance/Geisler-Fotopress
اشتہار
’دا نیو جرمنز‘ نامی یہ گروپ ’اے ایف ڈی‘ سے تعلق رکھنے والے ان سیاستدانوں نے گزشتہ اختتام ہفتہ پر قائم کیا، جو خود بھی تارکین وطن کے پس منظر کے حامل ہیں۔ پیر کو برلن میں ایک پریس کانفرنس میں اس کا باقاعدہ اعلان کیا گیا۔ ریاست تھیورنگیا سے تعلق رکھنے والے ’اے ایف ڈی‘ کے رکن پارلیمان آنٹون فرائزن کی نظر میں ایسے ایک گروپ کا قیام بہت پہلے ہی عمل میں آ جانا چاہیے تھا۔
انہوں نے ڈی ڈبلیوسے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’جب سے’اے ایف ڈی‘ وجود میں آئی ہے، تارکین وطن کا پس منظر رکھنے والے بہت سے جرمن شہریوں نے ہمیں ووٹ دیے ہیں۔‘‘ ان کے بقول اب ان لوگوں کو شناخت دینے کا وقت آ گیا ہے۔
تصویر: Imago/reportandum
فرائزن کا اس پیش رفت میں کلیدی کردار رہا ہے۔ وہ قزاقستان میں پیدا ہوئے تھے اور نو سال کی عمر میں اپنے جرمن نژاد والدین کے ہمراہ آ کر جرمنی میں رہائش پذیر ہو گئے تھے۔
ان کے ساتھی اور جماعت کے ترجمان آلیگزانڈر تاسس کے والد کا تعلق یونان سے ہے اور وہ بطور مہمان کارکن جرمنی آئے تھے۔ تاسس ’اے ایف ڈی‘ میں ہم جنس پرستوں کی نمائندگی بھی کرتے ہیں۔
اسلام مخالف سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے بارے میں اہم حقائق
مہاجرت اور اسلام مخالف سیاسی پارٹی متبادل برائے جرمنی ملکی سیاست میں ایک نئی قوت قرار دی جا رہی ہے۔ اس پارٹی کے منشور پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Weigel
مہاجرت مخالف
اے ایف ڈی کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں کو بند کر دینا چاہیے تاکہ غیر قانونی مہاجرین اس بلاک میں داخل نہ ہو سکیں۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملکی سرحدوں کی نگرانی بھی سخت کر دی جائے۔ اس پارٹی کا اصرار ہے کہ ایسے سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کو فوری طور پر ملک بدر کر دیا جائے، جن کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Schmuelgen
یورپی یونین مخالف
متبادل برائے جرمنی کا قیام سن دو ہزار تیرہ میں عمل میں لایا گیا تھا۔ اس وقت اس پارٹی کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ یورپی یونین کے ایسے رکن ریاستوں کی مالیاتی مدد نہیں کی جانا چاہیے، جو قرضوں میں دھنسی ہوئی ہیں۔ تب اس پارٹی کے رہنما بیرنڈ لوکے نے اس پارٹی کو ایک نئی طاقت قرار دیا تھا لیکن سن دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں یہ پارٹی جرمن پارلیمان تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
دائیں بازو کی عوامیت پسندی
’جرمنی پہلے‘ کا نعرہ لگانے والی یہ پارٹی نہ صرف دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں ہے بلکہ یہ ایسے افراد کو بھی اپنی طرف راغب کرنے کی خاطر کوشاں ہے، جو موجودہ سیاسی نظام سے مطمئن نہیں ہیں۔ کچھ ماہرین کے مطابق اے ایف ڈی بالخصوص سابق کمیونسٹ مشرقی جرمنی میں زیادہ مقبول ہے۔ تاہم کچھ جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پارٹی جرمنی بھر میں پھیل چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
علاقائی سیاست میں کامیابیاں
اے ایف ڈی جرمنی کی سولہ وفاقی ریاستوں میں سے چودہ صوبوں کے پارلیمانی اداروں میں نمائندگی کی حامل ہے۔ مشرقی جرمنی کے تمام صوبوں میں یہ پارٹی ایوانوں میں موجود ہے۔ ناقدین کے خیال میں اب یہ پارٹی گراس روٹ سطح پر لوگوں میں سرایت کرتی جا رہی ہے اور مستقبل میں اس کی مقبولیت میں مزید اضافہ ممکن ہے۔
تصویر: Reuters
نیو نازیوں کے لیے نیا گھر؟
اے ایف ڈی جمہوریت کی حامی ہے لیکن کئی سیاسی ناقدین الزام عائد کرتے ہیں کہ اس پارٹی کے کچھ ممبران نیو نازی ایجنڈے کو فروغ دے رہے ہیں۔ یہ پارٹی ایک ایسے وقت میں عوامی سطح پر مقبول ہوئی ہے، جب انتہائی دائیں بازو کے نظریات کی حامل پارٹیاں تاریکی میں گم ہوتی جا رہی ہیں۔ ان میں این پی ڈی جیسی نازی خیالات کی حامل پارٹی بھی شامل ہے۔
تصویر: picture alliance/AA/M. Kaman
طاقت کی جنگ
تقریبا پانچ برس قبل وجود میں آنے والی اس پارٹی کے اندر طاقت کی جنگ جاری ہے۔ ابتدائی طور پر اس پارٹی کی قیادت قدرے اعتدال پسندی کی طرف مائل تھی لیکن اب ایسے ارکان کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔ ناقدین کے مطابق اب اس پارٹی کے اہم عہدوں پر کٹر نظریات کے حامل افراد فائز ہوتے جا رہے ہیں۔ ان میں اس پارٹی کی موجودہ رہنما ایلس وائڈل بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler
پيگيڈا کے ساتھ ناخوشگوار تعلقات
اے ایف ڈی اور مہاجرت مخالف تحریک پیگیڈا کے باہمی تعلقات بہتر نہیں ہیں۔ پیگیڈا مشرقی جرمن شہر ڈریسڈن میں باقاعدہ بطور پر احتجاج کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ تاہم اے ایف ڈی نے پیگیڈا کے کئی حامیوں کی حمایت بھی حاصل کی ہے۔ تاہم یہ امر اہم ہے کہ پیگیڈا ایک سیاسی پارٹی نہیں بلکہ شہریوں کی ایک تحریک ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/S. Kahnert
میڈیا سے بے نیاز
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بریگزٹ رہنما نائیجل فاراژ کی طرح جرمن سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے رہنما بھی مرکزی میڈیا سے متنفر ہیں۔ اے ایف ڈی مرکزی میڈیا پلیٹ فارمز کے ساتھ دوستانہ تعلقات بنانے کے لیے کوشش بھی نہیں کرتی بلکہ زیادہ تر میڈیا سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات دینا بھی مناسب نہیں سمجھتی۔
تصویر: picture alliance/dpa/Aktivnews
8 تصاویر1 | 8
فرائزن نے بتایا کہ ’دا نیو جرمنز‘ نامی اس گروپ میں فی الحال بیس افراد ایسے جرمن شہری ہیں، جن کا تعلق پولینڈ، ایران اور کولمبیا سے ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اس کے علاوہ رومانیہ اور روس سے تعلق رکھنے والے جرمن شہری بھی اس کا حصہ ہیں۔
’دا نیو جرمنز‘ کو امید ہے کہ مئی میں ہونے والی یورپی پارلیمانی انتخابات میں ان کے حامی رائے دہندگان کی تعداد میں اضافہ ہو گا۔ اس کے علاوہ رواں برس جرمنی کے کئی مشرقی صوبوں میں بھی انتخابات ہونا ہیں اور یہ گروپ اپنے ووٹرز کی تعداد میں اضافے کے حوالے سے پر امید ہے۔
’جرمنی کی اسلام اور مہاجرین مخالف جماعت کا انتخابی منشور‘