جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی جماعت سی ڈی یو اور اتحادی جماعت سی ایس یو نے ملک میں انسانی بنیادوں پر پناہ دیے جانے کی سالانہ حد مقرر کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ جرمنی میں مہاجرت کو منظم کرنے کے اس منصوبے کے اہم نکات کیا ہیں؟
اشتہار
آئندہ حکومت کے دوران حکمران جماعت سی ڈی یو اور سی ایس یو کے مابین مہاجرت کے نئے جرمن ضوابط سے متعلق اتفاق گزشتہ ہفتے کے اختتام پر اتوار آٹھ اکتوبر کو طے پایا تھا۔ دونوں جماعتوں کے مابین مہاجرت سے متعلق ان ضوابط پر اتفاق کے بعد گرین پارٹی اور فری ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ مخلوط حکومت کے قیام کے لیے مذاکرات کیے جائیں گے۔ ان ضوابط کے اہم نکات درج ذیل ہیں:
دو لاکھ تک سالانہ حد
آئندہ جرمنی میں انسانی بنیادوں پر سالانہ زیادہ سے زیادہ دو لاکھ غیر ملکیوں کو پناہ دی جائے گی۔ زیادہ سے زیادہ دو لاکھ افراد کی اس حد میں مہاجرین، پناہ کے متلاشی افراد، ثانوی سطح پر تحفظ پانے والے، مہاجرین کے اہل خانہ اور نقل مکانی کے پروگرام کے تحت جرمنی آنے والے افراد کو شمار کیا جائے گا۔ سالانہ شمار میں جرمنی سے ملک بدر کر دیے جانے والے افراد کی تعداد اس سے منفی بھی کی جائے گی۔
مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران ہزارہا پاکستانی بھی مغربی یورپ پہنچے ہیں۔ یونان سے ایک پاکستانی افتخار علی نے ہمیں کچھ تصاویر بھیجی ہیں، جو یورپ میں بہتر زندگی کے خواب اور اس کے برعکس حقیقت کے درمیان تضاد کی عکاس ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
بہتر مستقبل کے خواب کی تعبیر، بیت الخلا کی صفائی
جو ہزاروں پاکستانی تارکین وطن اپنے گھروں سے نکلے، ان کی منزل جرمنی و مغربی یورپی ممالک، اور خواہش ایک بہتر زندگی کا حصول تھی۔ شاید کسی نے سوچا بھی نہ ہو گا کہ خطرناک پہاڑی اور سمندری راستوں پر زندگی داؤ پر لگانے کے بعد انہیں ایتھنز میں پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں بیت الخلا صاف کرنا پڑیں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
ایجنٹوں کے وعدے اور حقیقت
زیادہ تر پاکستانی صوبہ پنجاب سے آنے والے تارکین وطن کو اچھے مستقبل کے خواب انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے ایجنٹوں نے دکھائے تھے۔ جرمنی تک پہنچانے کے ابتدائی اخراجات پانچ لاکھ فی کس بتائے گئے تھے اور تقریباﹰ ہر کسی سے یہ پوری رقم پیشگی وصول کی گئی تھی۔ جب یہ پاکستانی شہری یونان پہنچے تو مزید سفر کے تمام راستے بند ہو چکے تھے۔ اسی وقت ایجنٹوں کے تمام وعدے جھوٹے اور محض سبز باغ ثابت ہوئے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پاکستانیوں سے امتیازی سلوک کی شکایت
شام اور دیگر جنگ زدہ ممالک سے آنے والے تارکین وطن کو بلقان کی ریاستوں سے گزر کر جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک جانے کی اجازت ہے۔ یورپی حکومتوں کے خیال میں زیادہ تر پاکستانی شہری صرف اقتصادی وجوہات کی بنا پر ترک وطن کرتے ہیں۔ اسی لیے انہیں یورپ میں پناہ دیے جانے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔ لیکن اکثر پاکستانیوں کو شکایت ہے کہ یونان میں حکام ان سے نامناسب اور امتیازی سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
کیمپ میں رہنا ہے تو صفائی تم ہی کرو گے!
ایسے درجنوں پاکستانی تارکین وطن کا کہنا ہے کہ یونانی حکام نے مہاجر کیمپوں میں صفائی کا کام صرف انہی کو سونپ رکھا ہے۔ ان سے کہا گیا ہے کہ پاکستانی شہریوں کو بالعموم مہاجر کیمپوں میں رکھنے کی اجازت نہیں ہے تاہم انہیں وہاں عارضی قیام کی اجازت صرف اس شرط پر دی گئی ہے کہ وہاں صفائی کا کام صرف وہی کریں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پردیس میں تنہائی، مایوسی اور بیماری
سینکڑوں پاکستانی تارکین وطن اپنے یونان سے آگے کے سفر کے بارے میں قطعی مایوس ہو چکے ہیں اور واپس اپنے وطن جانا چاہتے ہیں۔ ان میں سے متعدد مختلف ذہنی اور جسمانی بیماریوں میں بھی مبتلا ہو چکے ہیں۔ ایک یونانی نیوز ویب سائٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے دو پاکستانی پناہ گزینوں نے خودکشی کی کوشش بھی کی تھی۔
تصویر: Iftikhar Ali
کم اور نامناسب خوراک کا نتیجہ
یونان میں پناہ کے متلاشی زیادہ تر پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ مہاجر کیمپوں میں انہیں ملنے والی خوراک بہت کم ہوتی ہے اور اس کا معیار بھی ناقص ۔ ایسے کئی تارکین وطن نے بتایا کہ انہیں زندہ رہنے کے لیے روزانہ صرف ایک وقت کا کھانا ہی میسر ہوتا ہے۔ ان حالات میں اکثر افراد ذہنی پریشانیوں کے ساتھ ساتھ جسمانی طور پر لاغر اور بیماریوں کا شکار ہو چکے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
وطن واپسی کے لیے بھی طویل انتظار
بہت سے مایوس پاکستانی پناہ گزینوں کے لیے سب سے اذیت ناک مرحلہ یہ ہے کہ وہ اپنے پاس کوئی بھی سفری دستاویزات نہ ہونے کے باعث اب فوراﹰ وطن واپس بھی نہیں جا سکتے۔ ان کے بقول ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے لازمی جانچ پڑتال کے بعد انہیں عبوری سفری دستاویزات جاری کیے جانے کا عمل انتہائی طویل اور صبر آزما ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
غریب الوطنی میں بچوں کی یاد
پاکستان کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والا اکتالیس سالہ سجاد شاہ بھی اب واپس وطن لوٹنا چاہتا ہے۔ تین بچوں کے والد سجاد شاہ کے مطابق اسے اپنے اہل خانہ سے جدا ہوئے کئی مہینے ہو چکے ہیں اور آج اس کے مالی مسائل پہلے سے شدید تر ہیں۔ سجاد کے بقول مہاجر کیمپوں میں کھیلتے بچے دیکھ کر اسے اپنے بچے بہت یاد آتے ہیں اور اسی لیے اب وہ جلد از جلد واپس گھر جانا چاہتا ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
اجتماعی رہائش گاہ محض ایک خیمہ
دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے مہاجرین اور پناہ گزینوں کو یونانی حکام نے پختہ عمارات میں رہائش فراہم کی ہے جب کہ پاکستانیوں کو زیادہ تر عارضی قیام گاہوں کے طور پر زیر استعمال اجتماعی خیموں میں رکھا گیا ہے۔ یہ صورت حال ان کے لیے اس وجہ سے بھی پریشان کن ہے کہ وہ یورپ کی سخت سردیوں کے عادی نہیں ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
جب انتظار کے علاوہ کچھ نہ کیا جا سکے
یونان میں ان پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ وہ پاکستانی سفارت خانے کو اپنے لیے سفری دستاویزات کے اجراء کی درخواستیں دے چکے ہیں اور کئی مہینے گزر جانے کے بعد بھی اب تک انتظار ہی کر رہے ہیں۔ ایسے ایک پاکستانی شہری کے مطابق چند افراد نے بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت سے بھی اپنی وطن واپسی میں مدد کی درخواست کی لیکن جواب ملا کہ واپسی کے لیے درکار سفری دستاویزات صرف پاکستانی سفارتی مراکز ہی جاری کر سکتے ہیں
تصویر: Iftikhar Ali
پناہ نہیں، بس گھر جانے دو
یونان میں بہت سے پاکستانی تارکین وطن نے اسلام آباد حکومت سے درخواست کی ہے کہ ان کی جلد از جلد وطن واپسی کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ ان افراد کا دعویٰ ہے کہ ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانہ ’بار بار کے وعدوں کے باوجود کوئی مناسب مدد نہیں کر رہا‘۔ احسان نامی ایک پاکستانی تارک وطن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’نہ ہم واپس جا سکتے ہیں اور نہ آگے، پس پچھتاوا ہے اور یہاں ٹائلٹس کی صفائی کا کام۔‘‘
تصویر: Iftikhar Ali
11 تصاویر1 | 11
اس فیصلے کو ’مہاجرین کی زیادہ سے زیادہ سالانہ حد‘ کا نام نہیں دیا گیا تاہم در حقیقت عملی طور پر یہ مہاجرین کی حد مقرر کرنے کے ہی مترادف ہے۔ سی ایس یو ایسے مطالبات انتخابات سے قبل بھی کرتی رہی تھی تاہم چانسلر میرکل ہر مرتبہ اس قسم کے کسی اقدام کی مخالفت کرتی رہی تھیں۔
بحرانی صورت میں استثنا
کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے سیاست دان تھوماس کروئیزر نے اپنے ایک ریڈیو انٹرویو میں بتایا کہ ہنگامی صورت حال میں مہاجرین کی زیادہ سے زیادہ حد کا قانون لاگو نہیں ہو گا۔ اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر جرمنی کے کسی ہمسایہ ملک میں جنگ چھڑ جاتی ہے تو ایسی صورت میں سالانہ دو لاکھ مہاجرین کی حد مقرر نہیں کی جائے گی۔
جرمنی میں سیاسی پناہ کے حصول کے حق کے قانون میں کوئی رد و بدل نہیں کیا گیا۔ بنیادی جرمن قانون کے آرٹیکل سولہ میں سیاسی پناہ کے حصول کے حق کو یقینی بنایا گیا ہے اور چانسلر میرکل کا کہنا تھا کہ یہ ہر انسان کا بنیادی حق ہے اور ایسے افراد سے، جن کی جانوں کو اپنے وطن میں خطرات لاحق ہوں، یہ بنیادی حق نہیں چھینا جا سکتا۔
ملک بدری سے قبل حراستی مراکز کا قیام
جرمنی میں مزید ایسے مراکز کا قیام عمل میں لایا جائے گا جہاں پناہ کی درخواستوں پر فیصلہ ہونے تک پناہ کے متلاشی افراد کو رہائش فراہم کی جائے گی۔ درخواست کی منظوری کی صورت میں انہیں جرمنی میں کہیں بھی جانے کی اجازت ہو گی۔ تاہم پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کو خصوصی حراستی مراکز منتقل کر دیا جائے گا، ایسے افراد ان حراستی مراکز سے یا تو رضاکارانہ طور پر وطن واپس جا سکیں گے، یا پھر انہیں جبری طور پر ملک بدر کر دیا جائے گا۔
جرمنی: افغان مہاجرین کی اجتماعی ملک بدری پھر سے شروع
پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کے آبائی وطنوں اور ٹرانزٹ ممالک کے ساتھ باہمی تعاون میں اضافہ کیا جائے گا۔ ٹرانزٹ ممالک کے اشتراک کے ساتھ پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کی آبائی وطنوں کی جانب واپسی یقینی بنائی جائے گی۔ اس ضمن میں مہاجرین سے متعلق یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے شدہ معاہدے کو بطور ماڈل اپنایا جائے گا۔
ہنر مند تارکین وطن کو ترجیح
جرمنی میں ایسے ہنرمند تارکین وطن کو، جن کے روزگار کی منڈی تک رسائی کے امکانات زیادہ ہوں، ترجیحی بنیادوں پر پناہ دی جائے گی۔ اس ضمن میں تاہم یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ تارکین وطن کے ہنرمند ہونے کو کس معیار پر پرکھا جائے گا۔
ان نکات کے علاوہ ’محفوظ ممالک‘ کی فہرست میں مزید ممالک کی شمولیت، مہاجرت کی وجوہات کا خاتمہ اور یورپی سطح پر پناہ کے مشترکہ قوانین کے لیے مزید اقدامات کیے جانے پر بھی اتفاق کر لیا گیا ہے۔