جرمنی: مہاجرين کے انضمام کی کوششيں: کتنی ناکام، کتنی کامياب
عاصم سلیم
6 جون 2017
سن 2015 اور 2016ء ميں تقريباً 1.2 ملين تارکين وطن پناہ کی تلاش ميں جرمنی آئے۔ بڑی تعداد ميں مہاجرين کی آمد کے سبب ابتداء ميں کئی مسائل سامنے آئے تاہم اب صورتحال کافی مختلف ہے اور مہاجرين کے انضمام کا عمل آگے بڑھ رہا ہے۔
اشتہار
جرمن حکومت نے مہاجرين کو معاشرے ميں ضم کرنے کے مقصد سے گزشتہ برس چودہ بلين سے زيادہ يورو خرچ کيے تھے۔ پناہ گزينوں کے ليے رہائش کے انتظامات، زبان سکھانے کی کلاسز، ملازمت کے مواقع اور ديگر سہوليات کی فراہمی کے ليے حکومت کی کوششيں آخر کيا رنگ لائی ہيں؟
رہائش کے انتظامات
جرمنی ميں موجود اکثريتی مہاجرين کو ہاسٹلز، اسکولوں کی عمارات اور ايسے ديگر ہنگامی مراکز سے باقاعدہ مہاجر کيمپوں ميں منتقل کر ديا گيا ہے۔ مہاجرين کے بحران کے عروج پر ستمبر سن 2015 ميں جرمن دارالحکومت برلن کے تريسٹھ جمز کو عارضی رہائش گاہوں ميں منتقل کر ديا گيا تھا۔ اس وقت ان جمز ميں دس ہزار سے زائد افراد رہائش پذير تھے۔ رواں سال مارچ ميں ايسے مراکز ميں رہائش پذير آخری 78 تارکين وطن کو بھی باقاعدہ رہائش گاہوں ميں منتقل کر ديا گيا۔ مجموعی طور پر برلن ميں اب بھی تقريباً ساڑھے تيرہ ہزار مہاجرين ايسے مراکز ميں گزر بسر کر رہے ہيں جنہيں ہنگامی مراکز کا درجہ حاصل ہے۔ ان ميں سے اکيس سو کو عنقريب ايسے مقامات پر منتقل کيا جائے گا، جہاں انہيں زيادہ پرائيویسی حاصل نہيں ہو گی يعنی کہ جن گھروں يا بڑے بڑے حالوں ميں وہ رہيں گے، وہاں کئی ديگر افراد بھی ان کے ہمراہ رہ رہے ہوں گے۔ باقاعدہ رہائش گاہ کی فراہمی کے حوالے سے باقی تمام جرمن صوبوں ميں صورت حال بہت اچھی ہے۔ صرف ہيمبرگ ميں چھ سو اور نارتھ رائن ويسٹ فیليا ميں سولہ سو تارکين وطن اب بھی ہنگامی مراکز ميں رہ رہے ہيں۔
جرمن زبان کے کورسز
سن 2015 اور 2016ء کے دوران ملک بھر ميں جرمن زبان سکھانے کے قريب پندرہ ہزار پروگرام شروع کيے گئے۔ جرمن حکومت نئے آنے والوں کو ’انٹگريشن کورس‘ کی سہولت فراہم کرتی ہے، جس ميں زبان کے ساتھ ساتھ اس ملک کے بارے ميں بنيادی معلومات بھی فراہم کی جاتی ہيں۔ پچھلے ايک سال کے دوران 317,000 مہاجرين نے ايسے کورسز مکمل کيے۔
يہاں يہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ گرچہ جرمن حکومت نے اس سلسلے ميں کئی اقدامات اٹھائے ہيں اور زبان سيکھنے کے کئی مواقع موجود ہيں تاہم چند تارکين وطن کو مشکلات بھی درپيش ہيں۔ کچھ دن پہلے تک افغان تارکين وطن کو جرمنی ميں سياسی پناہ ملنے کے امکانات کم مانے جاتے تھے۔ يہی وجہ ہے کہ انہيں جرمن زبان سيکھنے کی سہولت اس وقت تک نہيں دی جاتی تھی، جب تک کہ ان کی پناہ کی درخواست منظور نہ ہو جائے۔ تاحال يہ واضح نہيں کہ افغانستان ميں حاليہ دہشت گردانہ کارروائيوں اور ان کے نتيجے ميں اعلیٰ جرمن قيادت کے اس اعتراف کے بعد کہ افغانستان ملک بدريوں کے ليے محفوظ ملک نہيں، اس ضمن ميں کيا تبديلی آئے گی۔
مہاجرین اور جرمن باشندوں کو قریب لانے کا نیا طریقہ
03:10
ملازمت کے مواقع
جرمنی کے ’انسٹيٹيوٹ فار امپلوئمنٹ ريسرچ‘ کی پيشن گوئی کے مطابق آئندہ پانچ برسوں ميں جرمنی ميں موجود ہر پناہ گزين ملازمت کر رہا ہو گا۔ اس مثبت اندازے کی وجہ موجودہ اعداد و شمار ہيں۔ تقريباً پانچ ہزار مہاجرين کے ساتھ مکمل کيے جانے والے ايک مطالعے ميں يہ بات سامنے آئی ہے کہ سن 2014 ميں جرمنی آنے والے مہاجرين کی بائيس فيصد تعداد اور سن 2013 ميں آنے والوں کی اکتيس فيصد تعداد ملازمت کر رہی ہے۔ ملازمت کے مواقع کی دستيابی ممکن بنانے کے ليے جرمن چيمبر آف کامرس نے پچھلے سال بيس ملين کی سرمايہ کاری کی تھی اور اس سال بھی پندرہ ملين کی سرمايہ کاری جاری ہے۔ گيارہ فيصد جرمن کمپنيوں ميں اس وقت پناہ گزين کام کر رہے ہيں جبکہ دس فيصد مزيد کمپنيوں کا کہنا ہے کہ وہ آئندہ دو برسوں ميں تارکين وطن کو اپنی اپنی کمپنيوں ميں ملازمتيں فراہم کريں گے۔
ترکی میں شامی مہاجرین کے لیے انضمام کے مسائل
شام میں جاری خانہ جنگی کے باعث اپنے آبائی وطن کو ترک کر کے تُرکی آنے والے شامی مہاجرین کے لیے یہاں ایک طویل عرصہ گزارنے کے باوجود ترک زبان میں مہارت اور مناسب ملازمتیں حاصل کرنا بڑے مسائل ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
اسکول سے باہر جھانکتا شامی بچہ
ایک بچہ جنوبی ترکی میں قائم نزپ 2 نامی مہاجر کیمپ میں ایک اسکول سے باہر جھانک رہا ہے۔ یہ کیمپ رہائش کے بین الاقوامی معیار کا حامل ہے تاہم کچھ شامی مہاجرین اب بھی سماج سے کٹ کر ہی رہنا چاہتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
توقع سے زیادہ بہتر
سن 2012 میں دریائے فرات کے کنارے تعمیر کیے گئے نزپ2 کیمپ میں صحت اور مفت تعلیم کی سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔ علاوہ ازیں یہاں رہنے والوں کے لیے سپر مارکیٹیں بھی بنائی گئی ہیں۔ نزپ2 میں فی الحال 4.500 شامی مہاجرین قیام پذیر ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
چالیس فیصد شامی مہاجر بچے تعلیم سے محروم
ترکی کی نیشنل ایجوکیشن کی وزارت کے مطابق اسکول جانے کی عمر کے قریب 40 فیصد بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ نزپ2 جیسے مہاجر کیمپوں میں ہر عمر کے طالبعلم بچوں کو عربی، انگریزی اور ترک زبانوں میں مفت تعلیم دی جاتی ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
برادری کے ساتھ زیادہ محفوظ
نزپ2 میں انگریزی کے استاد مصطفی عمر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ شامی بچوں کے لیے کیمپ سے باہر نکلنا اچھا ہے کیونکہ اُن کی ترکی زبان سیکھنے کی رفتار بہت آہستہ ہے۔ تاہم وہ کیمپ میں اپنی برادری کے ساتھ خود کو محفوظ تصور کرتے ہیں اور یہ ہمارے لیے اہم ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
ترکی اور شامی مہاجر بچوں کی دوستی
اقتصادی اور سماجی پناہ گزین انضمام کے ماہر عمر کادکوے کا کہنا ہے کہ شامی اور ترک بچوں کے درمیان بات چیت سماجی تناؤ کو دور کرنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
’ترک زبان سیکھنا اتنا بھی مشکل نہیں‘
ترک معاشرے میں شامی مہاجرین کے لیے زبان کی مشکلات اپنی جگہ، لیکن اس کے باجود اس مقصد میں کامیاب ہونے والوں کی کہانیاں بھی ہیں۔ سترہ سالہ ماہر اسماعیل کا کہنا ہے کہ وہ ایک ایک سال سے ترکی سیکھ رہا ہے اور یہ اتنا مشکل بھی نہیں۔ اسماعیل ستر فیصد ترکی سمجھ سکتا ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
مناسب روز گار کی تلاش
ترکی میں رہنے والے شامی مہاجرین عمومی طور پر بے روز گار ہیں۔ زیادہ تر کو سخت محنت والے شعبوں میں کم درجے کی ملازمتیں مل جاتی ہیں باقی ماندہ اپنی ذاتی کاروباری کمپنیاں کھول لیتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
12 گھنٹے روزانہ کی شفٹ
چوبیس سالہ قہر من مارش ہفتے میں سات دن روزانہ 12 گھنٹے کی شفٹ پر ایک کباب شاپ پر ملازمت کرتا ہے، جہاں سے اسے مہینے میں ایک ہزار لیرا ملتے ہیں۔ مارش کا کہنا ہے کہ وہ اسکول جانا چاہتا ہے لیکن اُس کے پاس وقت نہیں ہے کیونکہ اُس کے والدین اُس کی کمائی پر انحصار کرتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
گھر جانے کو بیتاب
نزپ2 مہاجر کیمپ کے باسیوں کے ذہن میں ایک خیال ہر وقت رہتا ہے کہ گھر کب جائیں گے۔
سترہ سالہ محمد حاجی(بائیں) جو 35 لیرا یومیہ پر پھل اور سبزیاں چنتا ہے، کا کہنا ہے کہ اسکول جانے کا تو سوال ہی نہیں کیونکہ وہ اپنے گھر شام جانا چاہتا ہے۔ ستاون سالہ زکریا ارید( دائیں) شام میں اپنے شہر رقہ کے جہادی گروپ ’اسلامک اسٹیٹ‘ سے آزاد ہونے کا انتظار کر رہا ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
شہریت کا سوال
شامی مہاجر خاتون آیوش احمد جو تصویر میں نظر نہیں آرہی ہیں، نے اپنی دو پوتیوں میں سے ایک کو گود میں لیا ہوا ہے۔ آیوش احمد کیمپ میں قریب 5 برس سے مقیم ہیں۔ اُن کی دونوں پوتیاں اسی کیمپ میں رہائش کے دوران پیدا ہوئی ہیں۔ آیوش احمد کا کہنا ہے،’’ اگر ہم ترکی میں رہے تو میری پوتیوں کی شہریت ترک ہو جائے گی اور اگر شام چلے گئے تو وہ شامی شہریت کی حامل ہوں گی۔