جرمنی: مہاجرین سے متعلق اداروں میں ایک لاکھ ملازمین کم ہیں
شمشیر حیدر23 اپریل 2016
جرمنی میں سرکاری ملازمین کی ملکی تنظیم کا کہنا ہے کہ ملک میں تارکین وطن کے انضمام اور ان سے متعلق دیگر امور سے نمٹنے کے لیے سرکاری اداروں میں ایک لاکھ ملازمین کی کمی ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق جرمنی میں سرکاری ملازمین کی وفاقی تنظیم کے صدر کلاؤس ڈاؤڈرشٹیٹ کا کہنا ہے کہ جرمنی میں تارکین وطن کے انضمام اور دیگر مسائل سے نمٹنے کے لیے ملکی اداروں میں مزید ایک لاکھ ملازمین کی ضرورت ہے۔
آج ہفتہ تئیس اپریل کے روز ایک مقامی جرمن اخبار کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں ڈاؤڈرشٹیٹ کا کہنا تھا، ’’صرف تارکین وطن کے انضمام اور ان سے متعلق دیگر امور سے نبرد آزما ہونے کے لیے جرمنی میں پچاس ہزار سے ایک لاکھ تک سرکاری ملازمین کی کمی ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ تعلیم و تدریس، پولیس اور وفاقی دفتر برائے مہاجرین و تارکین وطن جیسے اداروں میں ملازمین کی کمی کو پورا کرنا فوری طور پر ممکن نہیں ہے کیوں کہ صرف ملازمین کی باقاعدہ تربیت کرنے کے لیے بھی کم از کم تین سال لگتے ہیں۔
مذکورہ انٹرویو میں جرمن سرکاری ملازمین کی تنظیم کے صدر نے ریاست کی جانب سے سرکاری ملازمین پر توجہ نہ دینے کی شکایت بھی کی۔ ان کا کہنا تھا، ’’سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ التوا کا شکار ہے اور ان کے کام کی قدر و قیمت کا احساس بھی نہیں کیا جا رہا۔ ہماری رائے میں یہ کام فوراﹰ کیے جانے چاہییں اور ہم منتظر ہیں کہ ریاست ان ہزاروں ملازمین کی عوامی خدمات، جو مثال کے طور پر مہاجرین کے بحران میں دن رات کام کر رہے ہیں، کا جلد ہی اعتراف کرے گی۔‘‘
ڈاؤڈرشٹیٹ نے چند محکموں میں ملازمین کی تنخواہیں نہ بڑھائے جانے کے خلاف کی جانے والی ہڑتال میں توسیع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا، ’’بلدیاتی سطح پر ہسپتالوں کے بعد ڈے کیئر سينٹرز، عوامی فلاح کے ادارے اور یوٹیلیٹی اداروں میں ہڑتال کی جا سکتی ہے۔‘‘ ڈاؤڈرشٹیٹ کے مطابق فی الحال علاقائی سطح پر ہڑتال کا اعلان نہیں کیا جا رہا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ تنخواہوں میں جلد ہی خاطر خواہ اضافہ کر دیا جائے گا۔
سرکاری محکموں کی جانب سے ملازمین کی تنخواہوں میں دو سال کے لیے تین فیصد اضافے کا اعلان کیا گیا ہے لیکن لیبر یونینز کا مطالبہ ہے کہ اس میں چھ فیصد مزید اضافہ کیا جائے۔
یونانی جزیرے لیسبوس پر موجود پاکستانی تارکین وطن کسی صورت واپس ترکی نہیں جانا چاہتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ترکی محفوظ ملک نہیں ہے اور انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح یورپ میں پناہ دی جائے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ماں کا زیور بیچ کر آیا ہوں‘
پاکستانی صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان تارک وطن کے مطابق وہ اپنی والدہ کا زیور بیچ کر اور اپنی جان خطرے میں ڈال کر یونان تک پہنچا ہے اور کسی صورت واپس نہیں جائے گا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
یونان بھی پناہ نہیں دے رہا
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق جو تارکین وطن یونان میں سیاسی پناہ کی درخواستیں نہیں دے رہے، انہیں واپس ترکی بھیجا جا رہا ہے۔ پاکستانی تارکین وطن کی اکثریت نے یونان میں پناہ کی درخواست اس لیے بھی نہیں دیں کہ انہیں خدشہ ہے کہ وہ مسترد کر دی جائیں گی۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’یورپی یونین ترکی کو پیسے نہ دے‘
لیسبوس میں موجود یورپ میں پناہ کے خواہش مند ان پاکستانیوں کا دعویٰ ہے کہ ترکی یورپ سے پیسے لے کر مہاجرین کو واپس ترکی آنے کی اجازت دے رہا ہے۔ انہیں نے الزام عائد کیا کہ ترکی اپنے ہاں پناہ گزینوں کو کوئی سہولیات نہیں دیتا اور وہاں انہیں پہلے بھی کھلے آسمان تلے سونا پڑتا تھا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
صرف شامی مہاجرین ہی پناہ کے مستحق؟
یورپ میں زیادہ تر صرف خانہ جنگی سے بچ کر آنے والے شامی مہاجرین ہی کو پناہ دی جا رہی ہے۔ پاکستان اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ بھی اپنی جانوں کے تحفظ کے لیے یورپ میں پناہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
خیمے عارضی، سفر مسلسل
لیسبوس کے جزیرے پر سمندر کے کنارے عارضی خیموں میں شب و روز گزارنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا۔ یورپ اور ترکی کے مابین معاہدے کے بعد انہیں بھی واپس ترکی جانا پڑے گا لیکن انہیں پھر بھی امید ہے کہ وہ مغربی یورپ کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سفر بےسود
خستہ حال کشتیوں کے ذریعے بحیرہ ایجیئن عبور کر کے ترکی سے بحفاظت یونان پہنچ جانے والے یہ تارکین وطن دراصل خوش قسمت ہیں۔ یورپ میں مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران اب تک ہزاروں انسان سمندر میں ڈوب چکے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
کھانے کے لیے قطار
لیسبوس نامی اس یونانی جزیرے پر موجود ان تارکین وطن کو کافی کھانا بھی دستیاب نہیں ہوتا۔ کھانے کے حصول کے لیے انہیں طویل قطاروں میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’خواب ایسا تو نہیں تھا‘
اچھے مستقبل کی خواہش دل میں لیے اور خطرناک راستے عبور کر کے یونان پہنچنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کو اپنے شب و روز ایسی خستہ حالی میں گزارنا پڑ رہے ہیں کہ وہ ان حالات کو اپنے مستقبل کے خوابوں اور ان کی ممکنہ تعبیر کے بالکل برعکس قرار دیتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ہمیں بھی پناہ دو!‘
پاکستان، افغانستان اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے ان تارکین وطن کو یورپ میں پناہ ملنے کے امکانات نہایت کم ہیں۔ پناہ کے متلاشی ان غیر ملکیوں کا احتجاج کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یورپی یونین انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پناہ دے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’مر جائیں گے، واپس نہیں جائیں گے‘
ترکی سے یونان پہنچنے والے اور اب وہاں سے ملک بدری کے تقریباﹰ یقینی خطرے کا سامنا کرنے والے ان تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ ترکی واپسی کے بجائے موت کو ترجیح دیں گے۔ اس موقف کے ساتھ اب وہ احتجاجی مظاہرے بھی کرنے لگے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
جب پریشانی بےحال کردے
ان تارکین وطن کو ان کے احتجاج کے باوجود ابھی تک یہی ’ناپسندیدہ امکان‘ دکھائی دے رہا ہے کہ انہیں زبردستی واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ انسانی حقوق کی کئی تنظیموں کی رائے میں ترکی خود بھی کوئی ’محفوظ ملک‘ نہیں ہے۔