جرمنی: مہاجرین سے متعلق نیا ’ماسٹر پلان‘ فی الحال ملتوی
12 جون 2018
جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر کا تیار کردہ مہاجرین سے متعلق نیا منصوبہ آج جاری کیا جانا تھا تاہم زیہوفر اور چانسلر میرکل کے مابین اختلافات کے باعث اسے آخری لمحات میں موخر کر دیا گیا ہے۔
اشتہار
جرمنی میں قدامت پسندوں کی جانب سے تیار کردہ نیا ’مائیگریشن ماسٹر پلان‘ فی الحال موخر کر دیا گیا ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر نے اس تاخیر کی کوئی ٹھوس وجہ تو بیان نہیں کی لیکن ان کا کہنا تھا کہ نئے قوانین میں ابھی کچھ نکات پر اتفاق رائے ہونا باقی ہے۔
باویریا میں چانسلر میرکل کی اتحادی جماعت سی ایس یو سے تعلق رکھنے والے ملکی وزیر داخلہ زیہوفر نے یہ منصوبہ آج بارہ جون بروز پیر جاری کرنا تھا۔ جرمنی میں سیاسی پناہ کے بارے میں تریسٹھ نکات پر مبنی اس نئے منصوبے کو چانسلر میرکل کی منظوری حاصل کیے جانے کے بعد دیگر پارلیمانی سیاسی جماعتوں کے سامنے پیش کیا جانا تھا۔
جرمنی کے کثیر الاشاعتی روزنامے ’بلڈ‘ کے مطابق چانسلر میرکل اور وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر کے مابین جس نکتے پر اختلاف پایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر کسی تارک وطن نے کسی دوسرے یورپی ملک میں سیاسی پناہ کی درخواست جمع کرا رکھی ہو تو کیا اسے ملکی حدود میں داخل ہونے کی اجازت دے دی جائے یا اسے جرمن سرحد ہی سے لوٹا دیا جائے۔
پیر گیارہ جون کے روز نئے منصوبے میں تاخیر سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے وزیر داخلہ کا کہنا تھا، ’’اس ملک کی ذمہ داری مجھ پر ہے۔ مجھے جرمنی میں امن و امان کی صورت حال برقرار رکھنا ہے۔ میں اس معاملے کو تاقیامت موخر نہیں کر سکتا۔‘‘ انہوں نے اس بات پر بھی اصرار کیا کہ عوام کا ’کھویا ہوا اعتماد بحال کرنے کے لیے‘ سیاسی پناہ سے متعلق جرمن قوانین کو از سر نو ترتیب دینے کی شدید ضرورت ہے۔
چانسلر میرکل کی جماعت سی ڈی یو، اتحادی جماعت سی ایس یو اس وقت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنائے ہوئے ہے۔ ہورسٹ زیہوفر مہاجرین سے متعلق سخت قوانین بنانا چاہتے ہیں تاہم ایس پی ڈی اس حوالے سے مختلف رائے رکھتی ہے۔ ایس پی ڈی نے ہورسٹ زیہوفر کے تیار کردہ منصوبے کو ’تباہ کن‘ قرار دیتے ہوئے اس کے مقابلے میں اپنی جماعت کا تیار کردہ منصوبہ پیش کرنے کا اعلان کیا ہے۔
ش ح / ع ب (Ben Knight)
جرمنی میں ملازمتیں، کس ملک کے تارکین وطن سر فہرست رہے؟
سن 2015 سے اب تک جرمنی آنے والے مہاجرین اور تارکین وطن میں سے اب ہر چوتھا شخص برسرروزگار ہے۔ پکچر گیلری میں دیکھیے کہ کس ملک کے شہری روزگار کے حصول میں نمایاں رہے۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
شامی مہاجرین
گزشتہ تین برسوں کے دوران پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے شامی مہاجرین کی تعداد سوا پانچ لاکھ سے زائد رہی۔ شامیوں کو جرمنی میں بطور مہاجر تسلیم کرتے ہوئے پناہ دیے جانے کی شرح بھی سب سے زیادہ ہے۔ تاہم جرمنی میں روزگار کے حصول میں اب تک صرف بیس فیصد شامی شہری ہی کامیاب رہے ہیں۔
تصویر: Delchad Heji
افغان مہاجرین
سن 2015 کے بعد سے اب تک جرمنی میں پناہ کی درخواستیں جمع کرانے والے افغان باشندوں کی تعداد ایک لاکھ نوے ہزار بنتی ہے۔ اب تک ہر چوتھا افغان تارک وطن جرمنی میں ملازمت حاصل کر چکا ہے۔
تصویر: DW/M. Hassani
اریٹرین تارکین وطن
افریقی ملک اریٹریا سے تعلق رکھنے والے چھپن ہزار سے زائد مہاجرین اس دوران جرمنی آئے، جن میں سے اب پچیس فیصد کے پاس روزگار ہے۔
تصویر: Imago/Rainer Weisflog
عراقی مہاجرین
اسی عرصے میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد عراقی بھی جرمنی آئے اور ان کی درخواستیں منظور کیے جانے کی شرح بھی شامی مہاجرین کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ تاہم اب تک ایک چوتھائی عراقی تارکین وطن جرمنی میں ملازمتیں حاصل کر پائے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/W. Kastl
صومالیہ کے مہاجرین
افریقی ملک صومالیہ کے قریب سترہ ہزار باشندوں نے اس دورانیے میں جرمن حکام کو اپنی سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ اب تک صومالیہ سے تعلق رکھنے والے پچیس فیصد تارکین وطن جرمنی میں نوکریاں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Pleul
ایرانی تارکین وطن
ان تین برسوں میں قریب چالیس ہزار ایرانی شہری بھی بطور پناہ گزین جرمنی آئے۔ جرمنی کے وفاقی دفتر روزگار کی رپورٹ کے مطابق اب تک ان ایرانی شہریوں میں سے قریب ایک تہائی جرمنی میں ملازمتیں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
نائجیرین تارکین وطن
افریقی ملک نائجیریا سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں کو بھی جرمنی میں روزگار ملنے کی شرح نمایاں رہی۔ جرمنی میں پناہ گزین پچیس ہزار نائجیرین باشندوں میں سے تینتیس فیصد افراد کے پاس روزگار ہے۔
تصویر: DW/A. Peltner
پاکستانی تارکین وطن
جرمنی میں ملازمتوں کے حصول میں پاکستانی تارکین وطن سر فہرست رہے۔ سن 2015 کے بعد سیاسی پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے قریب بتیس ہزار پاکستانی شہریوں میں سے چالیس فیصد افراد مختلف شعبوں میں نوکریاں حاصل کر چکے ہیں۔