جرمنی میں انتہائی دائیں بازو کے دہشت پھیلانے والے ایک گروپ کے بعض اراکین کے خلاف مقدمے کی کارروائی ایک عدالت میں آج سے شروع ہو رہی ہے۔ اس موقع پر فرائیٹال قصبے کے شہریوں کو تشویش لاحق ہے۔
اشتہار
فرائیٹال کا قصبہ جرمن شہر ڈریسڈن کے نواح میں ہے۔ اس قصبے سے تعلق رکھنے والے انتہائی دائیں بازو کے ایک گروپ کے چند اراکین کے خلاف عدالتی کارروائی سات ستمبر بروز پیر سے شروع ہو رہی ہے۔ یہ گروپ خاص طور پر مہاجرین مخالف ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ فرائیٹال کی بلدیاتی یا شہری کونسل میں سب سے طاقتور سیاسی پارٹی آلٹرنیٹو فار ڈوئچ لینڈ (اے ایف ڈی) ہے۔
فرائیٹال کے انتہائی دائیں بازو کے انتہا پسندوں کے خلاف یہ دوسرا مقدمہ ہے۔ قبل ازیں سن 2018 میں اس گروپ سے منسلک چند افراد کو دہشت گردانہ تنظیم قائم کرنے اور خوف و ہراس پھیلانے والی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں عدالت طویل المدتی سزائیں سنا چکی ہے۔
جن افراد کو سزائیں سنائی گئی ہیں ان پر مہاجرین کی پناہ گاہوں، اپارٹمنٹس اور ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔ ان افراد پر استغاثہ نے مخالفین کے دفاتر اور ان کی موٹر کاروں کو بارودی مواد سے اڑانے کے الزامات کو بھی ثابت کر دیا تھا۔ عدالت کو بتایا گیا تھا کہ ملزمان خوف اور جبر کی فضا پیدا کرنے کی کوشش میں تھے۔
سات ستمبر سن 2020 کو چالیس ہزار آبادی والا فرائیٹال منقسم ہو چکا ہے۔ اس کی ایک وجہ خوف پیدا کرنے والے حالات ہیں۔ سن 2015 کو سیاسی پارٹی آلٹرنیٹو فار ڈوئچ لینڈ کے مقامی سربراہ رینے زے فریڈ نے قصبے میں بنائی گئی مہاجرین کی رہائش گاہوں کے باہر مظاہرہ کرنے کی منصوبہ بندی کی تھی۔ اس کا انکشاف ان کی انتہائی دائیں بازو کے افراد کے ساتھ ہونے والی آن لائن گفتگو سے ہوا تھا۔
جرمنی: انتہائی دائیں بازو کی ’رائشس بُرگر تحریک‘
یہ تحریک نہ صرف کورونا وائرس کے حوالے سے عائد پابندیوں کو نہیں مانتی بلکہ جرمن حکومت کے آئینی جواز کو بھی مسترد کرتی ہے۔ یہ تحریک کیا ہے اور جرمن حکومت اس کے خلاف کیا اقدامات کر رہی ہے؟
تصویر: picture-alliance/chromorange/C. Ohde
یہ تحریک کرتی کیا ہے؟
یہ تحریک ٹیکس اور جرمانے ادا کرنے سے انکار کرتی ہے۔ اس میں شامل افرد اپنی ذاتی املاک کو جرمن حکومت کے عمل دخل سے باہر تصور کرتے ہیں۔ نہ تو جرمن آئین کو مانتے ہیں اور نہ ہی ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ یہ اپنے پاسپورٹ اور ڈرائیونگ لائسنس تک خود بناتے ہیں۔ عدالتوں میں مسلسل کیس دائر کرتے رہتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/SULUPRESS/MV
یہ کتنا بڑا خطرہ ہیں؟
اس تحریک کا آغاز اسی کی دہائی میں ہوا تھا اور اس کا کوئی رہنما نہیں۔ جرمن خفیہ ادارے کے مطابق اس تحریک کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے اور تقریباً انیس ہزار تک پہنچ چکی ہے۔ ان میں سے 950 انتہائی دائیں بازو کے انتہاپسندوں کی لسٹ میں شامل ہیں جبکہ ایک ہزار کے پاس اسلحہ رکھنے کا لائسنس ہے۔ ان میں سے بہت سے لوگ یہودی اور مسلمان مخالف نظریات کی پیروی کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Bildagentur-online/Ohde
اس کے اراکین اور مسٹر جرمنی کون ہیں؟
جرمن حکام کے مطابق اس تحریک کے اراکین کی اوسطا عمر پچاس سال ہے جبکہ یہ معاشرتی اور مالی طور پر پسماندہ ہیں۔ زیادہ تر اراکین جرمنی کے مشرقی اور جنوبی علاقوں سے ہیں۔ آدریان اورزاخے سابق مسٹر جرمنی ہیں اور اس تحریک کا ہی حصہ ہیں۔ انہیں سن دو ہزار انیس میں ایک پولیس اہلکار کو فائرنگ سے زخمی کرنے کے جرم میں سات سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Schmidt
فیصلہ کن موڑ
وولفگانگ پی کا کیس جرمن حکام کے لیے فیصلہ کن ثابت ہوا۔ انہیں سن 2017 میں ایک پولیس اہلکار کو قتل کرنے کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ مبینہ طور پر اس تحریک کے اس ہلکار نے اس پولیس اہلکار پر فائرنگ کی، جس نے اسلحہ برآمد کرنے کے لیے اس مجرم کے گھر پر چھاپہ مارا تھا۔ اس واقعے کے بعد جرمن حکام چوکنا ہو گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Karmann
جرمن حکام کیا کر رہے ہیں؟
جرمن حکام پر تنقید کی جاتی ہے کہ انہوں نے طویل عرصے تک اس خطرے کو نظرانداز کیا۔ سن 2017ء میں پہلی مرتبہ خفیہ ایجنسی نے اس تحریک کے خطرناک اراکین کی فہرست تیار کی۔ تب سے متعدد اراکین اور اس تحریک کے ذیلی کالعدم گروپوں کے خلاف چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ پولیس اور جرمن فوج میں بھی اس تحریک کے ممکنہ اراکین کی موجودگی کی چھان بین کی جا چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Zinken
بین الاقوامی سیاست اور سازشی نظریات
اس تحریک کے کئی اراکین روسی پرچم لہراتے نظر آتے ہیں۔ ان کے خلاف سب سے بڑا الزام بھی یہی ہے کہ انہیں روس کی مالی معاونت حاصل ہے اور یہ جرمن حکومت کو کمزور بنانا چاہتے ہیں۔ ان کا موازنہ امریکی گروپ ’فری مین آن دا لینڈ‘ سے بھی کیا جاتا ہے۔ اس تحریک کے اراکین کا موقف بھی یہی ہے کہ وہ صرف ان قوانین کے پابند ہیں، جن پر وہ رضامند ہیں۔
تصویر: DW/D. Vachedin
6 تصاویر1 | 6
اس دوران فرائیٹال کے میئر اور دوسرے مقامی اہلکاروں نے قصبے میں پرتشدد صورت حال کو غیر اہم خیال کیا اور ان اخباری سرخیوں اور رپورٹوں پر پریشانی کا اظہار کیا، جن میں قصبے کے تشویشناک حالات کو بیان کیا گیا تھا۔ انہوں نے الزامات لگانے والوں کو 'شرپسند اور بدمعاش‘ قرار دیا۔
ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے فرائیٹال کے میئر کے دفتر نے واضح کیا کہ ایسی کارروائیوں میں ملوث افراد چھوٹے چھوٹے گروپوں سے تعلق رکھتے تھے اور ان کا نشانہ قصبے کے افراد یا جرمن شہری یا کوئی منتخب بلدیاتی اہلکار نہیں تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ اب اس قصبے میں بیس مہاجرین آباد ہیں۔ یہ عام تاثر ہے کہ فرائیٹال کے شہری امن پسند ہیں۔
ایسی خوف کی صورت حال پیدا کرنے والوں کے مخالفین کا کہنا ہے کہ دوسرے مقدمے کے کارروائی سے بقیہ مشتبہ افراد کے خلاف استغاثہ یقینی طور پر الزامات ثابت کرنے میں کامیاب ہو گا اور انہیں مناسب سزائیں سنائی جائیں گی۔ ان کے مطابق اس عدالتی کارروائی کی تکمیل پر قصبے میں بوجھل صورت حال کی جگہ سکون اور محبت کو حاصل ہو گی۔