جرمن شہر کولون میں پینتیس مربع میٹر رقبے کے ایک مکان میں آٹھ افراد پر مشتمل عراقی مہاجرین کا خاندان رہائش پذیر ہے۔ حکومت کی جانب سے اس مکان کا ’چھ ہزار آٹھ سو‘ یورو ماہانہ کرایہ ادا کیا جاتا ہے۔
اشتہار
جرمن نشریاتی ادارے ’ڈبلیو ڈی آر‘ کی جانب سے بدھ کے روز شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے شہر کولون میں عراقی مہاجرین کا ایک خاندان ’پینتیس مربع میٹر‘ کے ایک مکان میں عارضی طور پر رہائش پذیر ہے۔
بتایا گیا ہے کہ حکومت کی جانب سے اس مکان کا یومیہ 28 یورو فی فرد کرایہ ادا کیا جا رہا ہے۔ عراقی پناہ گزین کا یہ خاندان چھ بچوں اور دو بالغان پر مشتمل ہے، یوں مکان مالک کو یومیہ 224 یورو کے حساب سے ماہانہ تقریباﹰ 6800 یورو کرایہ ادا کیا جا رہا ہے۔
جرمنی کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا ’این آر ڈبلیو‘ کے بلدیاتی ادارے کے اہلکار مارٹن لیہرر نے جرمن نشریاتی ادارے ’ڈبلیو ڈی آر‘ کو بتایا ہے کہ سن 2015 میں مہاجرین کی ایک بڑی تعداد جرمنی پہنچی تھی، جس کی وجہ سے ہنگامی بنیادوں پر ایسے مہنگے مکان بطور ہوٹل استعمال کیے گئے تھے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ’ابتداء میں ان مہاجرین کی پناہ کی درخواست پر چھان بین کا عمل شروع ہونےکے بعد دوسرے گھروں میں منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔ تاہم جرمنی کے دیگر بڑے شہروں کی طرح کولون میں بھی خالی مکانوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے بہت سے مہاجرین عارضی طور پر ابھی تک ان ہوٹل نما گھروں میں رہائش پذیر ہیں۔ لیہرر کا کہنا ہے کہ بعض مالک مکان مہاجرین کے بحران کی آمد سے مستقل طور پر مستفید ہورہے ہیں۔
دوسری جانب مقامی میڈیا میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق جرمن شہر کولون کی ’راہناؤ سڑک‘ پر واقع ایک بورڈنگ ہوٹل میں 157 مہاجرین رہائش پذیر ہیں، جس کا حکومت کی جانب سے 1.6 ملین یورو سالانہ کرایہ ادا کیا جاتا ہے۔ حکومت اور اس بورڈنگ ہوٹل کے مابین سن دو ہزار بیس تک کا معاہدہ کیا گیا ہے۔
جب آسمان ہی جل اٹھا
اکتیس مئی 1942ء کو جب جرمنی کے شہر کولون میں کارپٹ بمبنگ شروع کی گئی تو برطانیہ نے اسے ’آپریشن ملینیم‘ کا نام دیا۔ کولون کے شہری اسے ’ہزار بموں کی رات‘ کا نام دیتے ہیں۔ دو گھنٹوں کے اندر ہی شہر کا چہرہ بدل گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/Hulton Archive
صرف تاریخی کولون کیتھیڈرل کو بخشا گیا
ہر طرف بمباری کی گئی لیکن یورپ کے دوسرے اور دنیا کے تیسرے بلند ترین گرجا گھر (کولون کیتھیڈرل یا کولون ڈوم) کو بخش دیا گیا۔ حقیقت میں اس کے دو بڑے مینار پائلٹوں کے لیے فوکس پوائںٹ بھی تھے۔ مذہبی طرز تعمیر نے بھی اس کیتھیڈرل کے بچاؤ میں مدد دی۔
تصویر: Getty Images/Keystone/Hulton Archive
کولون کی دوبارہ تعمیر
سن 1945ء کے بعد سب کچھ تاریخی انداز میں تعمیر نہیں کیا گیا۔ گھروں کی شدید ضرورت تھی۔ 3330 گھر اور 41 ہزار اپارٹمنٹس تباہ ہو چکے تھے۔ تیزی میں سستے گھر تعمیر کیے گئے لیکن تصویر میں نظر آنے والا کولون کا یہ حصہ تاریخی طرز تعمیر کا حامل ہے۔
تصویر: Imago/H. Galuschka
جب جنگ گھر پہنچی
جب اکتیس مئی کی رات بارہ بج کر سینتالیس منٹ پر بمباری شروع ہوئی تو ڈوم کے قریب 469 شہری ہلاک ہوئے۔ برطانیہ کی شدید بمباری کی وجہ سے ہر طرف باردو کی بو تھی اور پینتالیس ہزار سے زائد شہری بے گھر ہو گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/Keystone/Hulton Archive
پرانے کولون کا خاتمہ
اکتیس مئی کی بمباری نے پرانی رومن نوآبادی کے چہرے، قرون وسطیٰ کے عظیم تجارتی روٹ اور اس یونیورسٹی شہر کے چہرے پر ایسے داغ ڈالے، جنہیں آج بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ آج بھی کہا جاتا ہے کہ کولون اپنے ڈوم اور دریائے رائن کے بغیر بدصورت شہر ہوتا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
برطانیہ میں بھی متنازعہ
آرتھر ہیرس، جنہیں بمبار ہیرس بھی کہا جاتا ہے، کو جرمن شہروں پر ’کارپٹ بمباری کا باپ‘ کہا جاتا ہے۔ ان کی شہروں کو ہدف بنانے اور عوامی ارادوں کو کمزور کرنے کی حکمت عملی کو برطانیہ میں بھی متنازعہ سمجھا جاتا ہے۔ بعد ازاں ان کا ایک مجسمہ بھی انتہائی خاموشی کے ساتھ نصب کر دیا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/Fox Photos/M. McNeill
بمباری کرنے والے برطانوی پائلٹ
ونسٹن چرچل ہر صبح حملہ آور کمان کو فون کر کے جرمنی کے خلاف ملنے والی کامیابیوں کے بارے میں پوچھتے تھے۔ فضائیہ کے جنرل آرتھر کی کولون پر بمباری خود چرچل کے لیے بھی بہت زیادہ تھی۔ انہوں نے آرتھر سے کہا تھا، ’’کولون پر بہت بمباری ہو چکی۔‘‘
تصویر: Getty Images/Keystone
’کولون کے لیے بم‘
جرمنی میں رات کے وقت بمباری کرنے کے لیے ایک لنکاسٹر بمبار کو تیار کیا جا رہا ہے۔ کیا پوری جنگ فضائی حملوں سے جیتی جا سکتی تھی؟ اس بارے میں مؤرخین کی آراء مختلف ہیں۔ برطانیہ کی رائل ایئر فورس کے لیے بھی نقصان کم نہیں تھا۔ کسی بھی جنگی ہوائی جہاز میں سوار ہر دوسرا شخص دوبارہ گھر نہیں پہنچا تھا۔
تصویر: Getty Images/Fox Photos
’بمبر ہیرس کی مردہ یادیں‘
ہیرس کی یادیں آج تک بارود سے جڑی ہوئی ہیں۔ ابھی تک کولون میں کھدائی کے دوران اس رات کے بم ملتے ہیں اور بعض اوقات پورے کے پورے علاقے خالی کرانا پڑتے ہیں۔ ابھی تک کولون کی زمین میں ایسے کتنے بم چھپے ہیں، کوئی بھی نہیں جانتا۔ ہیرس کے بقول، ’’وہ مکمل جنگ چاہتے تھے، ہم نے انہیں وہی کچھ دیا، جس کی انہوں نے بھیک مانگی تھی۔‘‘