جرمن شہر بریمن میں پناہ گزینوں کی ایک رہائش گاہ میں آگ لگنے سے دس بچوں سمیت 37 افراد زخمی ہو گئے ہیں۔ مقامی پولیس نے آگ لگنے کی وجوہات جاننے کے لیے تحقیقات شروع کر دی ہیں۔
اشتہار
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق جرمنی کے شمال میں واقع وفاقی جرمن ریاست بریمن میں قائم مہاجرین اور تارکین وطن کی رہائش گاہ میں آگ لگنے کا یہ واقعہ آج گیارہ جون بروز اتوار کی صبح پیش آیا۔ رپورٹوں کے مطابق اس رہائش گاہ میں سو سے زائد تارکین وطن رہائش پذیر تھے۔
مقامی پولیس اور فائر بریگیڈ اہلکاروں کے مطابق رہائش گاہ کے تہہ خانے میں رکھے کوڑے کرکٹ کے ڈرموں میں آگ لگی، جس نے تیزی سے عمارت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ابھی تک آگ لگنے کی وجوہات معلوم نہیں ہیں اور اس واقعے کی تحقیقات دائیں بازو کے شدت پسندوں کی جانب سے کسی ’ممکنہ مہاجر مخالف‘ حملے سمیت تمام پہلوؤں کو پیش نظر رکھتے ہوئے کی کی جا رہی ہیں۔
بریمن کے فائر ڈیپارٹمنٹ کا کہنا ہے کہ آتش زدگی کے باعث زخمی ہونے والے دس بچوں سمیت چودہ افراد کو شہر کے مختلف ہسپتالوں میں پہنچا دیا گیا ہے جہاں ان کا علاج کیا جا رہا ہے۔ جب کہ حادثے میں معمولی زخمی ہونے والے دیگر تارکین وطن کو موقع پر ہی ابتدائی طبی امداد فراہم کر دی گئی تھی۔
آگ کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ اب یہ عمارت رہائش کے قابل نہیں رہی۔ امدادی کارروائیوں میں فائر برگیڈ کی 27 گاڑیوں اور 70 امدادی اہلکاروں نے حصہ لیا۔
جرمن سکیورٹی اداروں کی رپورٹوں کے مطابق جرمنی میں گزشتہ دو برسوں کے دوران لاکھوں مہاجرین اور تارکین وطن کی آمد کے بعد دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے انتہا پسندوں کی جانب سے مہاجرین کے خلاف جرائم کے ارتکاب میں بھی کافی اضافہ ہوا ہے۔
سن 2015 میں ایسے حملوں میں بیالیس فیصد اضافہ ہوا تھا اور اسی برس مہاجر مخالف حملوں کی مجموعی تعداد ایک ہزار سے بھی زائد رہی تھی۔ مہاجرین کی رہائش گاہوں پر بھی اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں کئی گنا اضافہ ہوا تھا۔ ملکی خفیہ ادارہ سن 2016 میں ایسے جرائم سے متعلق اپنی رپورٹ اس برس جولائی کے مہینے میں جاری کرے گا۔
بہت سے دیگر مہاجرین کی طرح شازیہ لطفی بھی جیل خانے میں ہیں۔ انیس سالہ شازیہ نے کوئی جرم نہیں کیا لیکن وہ خانہ جنگی سے فرار ضرور ہوئی ہے۔ ہالینڈ میں بہت سے مہاجرین سابقہ جیل خانوں میں عارضی پناہ حاصل کیے ہوئے ہیں۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
ایک بستر، دو کرسیاں اور ایک کی بورڈ
ستائیس سالہ حامد کرمی اور اس کی پچیس سالہ اہلیہ فرشتے مورحیمی افغانستان سے فرار ہو کر یورپ پہنچے۔ انہیں ہارلیم کی ایک سابقہ جیل میں رہائش ملی ہے۔ حامد کی بورڈ بجاتا ہے جبکہ اس کی اہلیہ سر دھنتی ہے۔ معلوم نہیں کہ آیا یہ شادی شدہ جوڑا یورپ رہ سکے گا یا نہیں۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
’ڈی کوپل‘ میں زندگی
ہارلیم کا سابقہ قید خانہ ’ڈی کوپل‘ کچھ یوں دکھتا ہے۔ سینکڑوں مہاجرین کو یہاں رہائش فراہم کی گئی ہے۔ ان میں سے ایک پچیس سالہ رعد احسان بھی ہے، جو ایران سے یورپ پہنچا ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
جیل تو جیل ہی ہوتی ہے
اگرچہ ڈچ حکام نے ان سابقہ جیل خانوں کی تعمیر نو کرتے ہوئے انہیں آرام دہ بنانے کی کوشش کی ہے تاکہ یہاں قیام پذیر مہاجرین کا خیال رکھا جا سکے۔ تاہم جیل تو جیل ہی ہوتی ہے۔ اونچی دیواریں اور حفاظتی باڑیں حقیقی کہانی بیان کرتی ہیں۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
چائے کا کپ
حیات اللہ کا تعلق افغانستان سے ہے۔ وہ اس عارضی رہائش گاہ میں اپنے کمرے کے باہر بیٹھا چائے سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ تئیس سالہ یہ افغان مہاجر اس سابقہ جیل خانے میں خوش ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
صومالیہ سے ہارلیم تک
صومالی خاتون کو ایک علیحدہ کمرہ دیا گیا ہے۔ اجاوا محمد کی عمر اکتالیس سال ہے۔ وہ بھی یہاں دیگر مہاجرین کی طرح اپنی پناہ کی درخواست پر فیصلے کی منتظر ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
افغانستان، صومالیہ اور عراق۔۔۔
دنیا کے مختلف ممالک سے لوگ یورپ پہنچے ہیں۔ وہ یہاں امن اور سکون کی زندگی بسر کرنے کے خواہاں ہیں۔ چوبیس سالہ یاسر حجی اور اس کی اٹھارہ سالہ اہلیہ گربیا کا تعلق عراق سے ہے۔ یہ خاتون یہاں کسی باربر یا بیوٹی سیلون نہیں جاتی بلکہ اس کا شوہر ہی اس کا خیال رکھتا ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
کپڑے دھونے کا انتظام
مہاجرین کو اس سابقہ جیل خانے میں تمام سہولیات حاصل ہیں۔ یہاں ان کے لیے واشنگ مشینیں بھی ہیں تاکہ وہ اپنے میلے کپڑوں کو دھو سکیں۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
ہم جنس پرستی کی سزا نہیں
یہ نوجوان مراکش سے آیا ہے۔ وہاں اس ہم جنس پرست نوجوان کو جان کا خطرہ تھا۔ سکیورٹی وجوہات کی بنا پر اس کی شناخت ظاہر نہیں کی جا رہی ہے۔ لیکن یورپ میں اسے اپنے جسنی میلانات کے باعث اب کوئی خطرہ نہیں ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
عبادت کا وقت
فاطمہ حسین کا تعلق عراق سے ہے۔ پینسٹھ سالہ یہ خاتون بھی شورش سے فرار ہو کر ہالینڈ پہنچی ہے۔ اس نے ایسوسی ایٹڈ پریس کے فوٹو گرافر محمد محسین کو حالت نماز میں تصویر بنانے کی اجازت دی۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
آزادی سلب نہ کی جائے
چالیس سالہ ناران باتار کا تعلق منگولیا سے ہے۔ وہ ہارلیم کی سابقہ جیل کے باسکٹ بال کورٹ میں کھیل کر لطف اندوز ہوتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اگر اسے واپس روانہ نہیں کیا جاتا تو آزاد رہے گا۔