جرمنی: مہاجرین کی سالانہ حد دو لاکھ مقرر کرنے پر اتفاق
صائمہ حیدر
13 جنوری 2018
جرمنی کی دو بڑی سیاسی جماعتوں نے اس بات پر اتفاق کر لیا ہے کہ ملک میں مہاجرین کی سالانہ آمد کی حد دو لاکھ تک محدود کر دی جائے گی۔ یہ نکتہ ممکنہ مخلوط حکومت بنانے والی جماعتوں کی پالیسی دستاویز میں شامل کیا گیا ہے۔
اشتہار
چانسلر میرکل کے قدامت پسند سیاسی اتحاد اور نو منتخب پارلیمان میں دوسری سب سے بڑی جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے درمیان مخلوط حکومت کے قیام کے لیے طویل مذاکرات کے بعد طے پانے والے نکات پر مشتمل دستاویز کی ایک کاپی خبر رساں ادارے اے ایف پی نے حاصل کی ہے۔
اس دستاویز کے مطابق جرمنی میں پناہ گزینوں کی سالانہ آمد کی زیادہ سے زیادہ حد ایک لاکھ اسّی ہزار سے دو لاکھ بیس ہزار تک محدود کر دی جائے گی۔ اس کے علاوہ ایسے مہاجرین کے خاندانوں کی ری یونین کے قوانین کو بھی نرم کیا جائے گا جنہیں عارضی پناہ گزین کی حیثیت دے دی گئی ہے تاکہ ان منقسم خاندانوں کا ملاپ آسان ہو سکے۔
معاہدے کے مطابق جرمن پارلیمنٹ سے ایک قانون پاس کرنے کا مطالبہ کیا جائے گا جس کی رُو سے مہاجرین کے خاندانوں کے ایک ہزار افراد کو ماہانہ جرمنی آنے کی اجازت دی جائے گی۔
جرمن چانسلر میرکل ایک طویل عرصے تک اپنی سیاسی جماعت سی ڈی یو کی اتحادی جماعت سی ایس یو کے اس مطالبے کے سامنے مزاحم رہی ہیں کہ جرمنی آنے والے مہاجرین کے لیے کوئی بالائی حد مقرر کی جائے۔
تاہم گزشتہ برس ستمبر میں جرمنی میں منعقدہ پارلیمانی انتخابات میں چانسلر میرکل کی جماعت واضح اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی تھی اور اسے ماضی کے انتخابات کے مقابلے میں خاصی نشستوں سے محرومی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
اسی تناظر میں میرکل نے ابتدا میں دو چھوٹی جماعتوں گرین پارٹی اور فری ڈیموکریٹک پارٹی کو ساتھ ملا کر حکومت سازی کی کوشش کی تھی، تاہم اس بابت مذاکرات ناکام رہے تھے۔ لہذا اب چانسلر میرکل کو مہاجرین کے حوالے اپنی پالیسی میں بھی لچک دکھانا پڑ رہی ہے۔
خوش آمدید: جرمنی میں مہاجرین کے لیے منفرد رہائش گاہیں
مہاجرین کی رہائش کے لیے روایتی طور پر خیمے، کنٹینرز اور متروکہ ہارڈ ویئر اسٹورز استعمال کیے جاتے ہیں۔ تاہم جرمنی میں مہاجرین کی رہائش کے لیے اچھوتے منصوبوں پر غور جاری ہے تاکہ وہ جرمنی میں آرام دہ زندگی بسر کر سکیں۔
تصویر: Leibnitz Universität in Hannover
چھتوں کے اوپر
جرمن شہر ہینوور کی یونیورسٹی میں آرکیٹیکچر کے طالب علموں نے ایک منصوبے کے تحت مہاجرین کی رہائش کے لیے متعدد ماڈل تیار کیے ہیں۔ اس منصوبے کا مقصد شہر میں ایسی رہائش گاہیں تعمیر کرنا ہے، جہاں کھلا ماحول دستیاب ہو۔ تصویر میں نظر آنے والے اس ماڈل میں عمارتوں کے اوپر رہائش گاہیں تعمیر کرنے کا خیال پیش کیا گیا ہے، جس پر عملدرآمد کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔ دیگر ماڈل فی الوقت خیالی قرار دیے جا رہے ہیں۔
تصویر: Leibnitz Universität in Hannover
تیرتے ہوئے گھر
جرمنی میں تقریباﹰ 870 بڑے کارگو بحری جہاز استعمال میں نہیں لائے جا رہے۔ انہیں مہاجرین کی پناہ گاہوں میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ دریاؤں کا پانی فلٹر کرنے کے بعد ان جہازوں میں بنے مکانات کے آئندہ رہائشیوں کے لیے استعمال میں لایا جا سکتا ہے جبکہ مکینوں کے لیے بجلی کا انتظام شمسی توانائی اور ہوا کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: Leibnitz Universität in Hannover
رہائش کا شاندار خیال
ہینوور شہر میں واقع ڈچ پویلین، جہاں ایکسپو 2000ء نامی عالمی نمائش منعقد کی گئی تھی، اب خالی پڑی ہے۔ ممکنہ طور پر اس کو بھی مہاجر کیمپ بنایا جا سکتا ہے۔ اس عمارت کی تیسری منزل پر ایک بڑا گارڈن بھی ہے، جو مہاجرین کی رہائش اور آپس میں میل ملاپ کی خاطر ایک سینٹر کے طور پر اچھا متبادل ثابت ہو سکتا ہے۔
تصویر: Leibnitz Universität in Hannover
بنے بنائے گھر
لکڑی کے بنے بنائے گھروں کے ماڈل کسی بھی خالی مقام پر نصب کیے جا سکتے ہیں۔ بالخصوص دو عمارتوں کے درمیان واقع خالی جگہوں میں ان گھروں کو ضرورت کے مطابق کاٹ کر تعمیر کیا جا سکتا ہے۔ ایسے مکانات محض دو تین دنوں میں تعمیر کیے جا سکتے ہیں اور ضرورت پوری ہونے پر انہیں سہولت کے ساتھ وہاں سے کہیں بھی منتقل کیا جا سکتا ہے۔ یہ گھر آسانی سے دفاتر میں بھی تبدیل کیے جا سکتے ہیں۔
تصویر: Leibnitz Universität in Hannover
باغوں میں تعمیر کردہ گھر
جرمنی میں کئی چھوٹے چھوٹے مکانات باغیوں میں بھی تعمیر کیے گئے ہیں۔ ان کے مالکان انہیں باغبانی سے دلچسپی رکھنے والے افراد کو کرائے پر بھی دیتے ہیں۔ ان گھروں میں بنیادی ضروریات کی تمام چیزیں ہوتی ہیں۔ لائپزگ یونیورسٹی کے طالب علموں نے تجویز کیا ہے کہ ایسے گھروں کو مہاجرین کے حوالے کیا جا سکتا ہے۔ خوبصورت باغیچوں میں قائم یہ رہائش گاہیں بے گھر افراد کی اداسی دور کرنے میں بھی مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔
تصویر: Leibnitz Universität in Hannover
کار پارکنگ کی عمارتوں میں رہائش
جرمن شہروں میں پبلک پارکنگ کے کئی ایسے مقامات بھی ہیں، جو مکمل طور پر استعمال میں نہیں لائے جا رہے۔ شہروں کے وسط میں قائم کردہ پارکنگ کے لیے بنائی گئی یہ عمارتیں مہاجرین کے سینٹرز میں تبدیل کی جا سکتی ہیں۔ زیر زمین واقع ان عمارتوں کی کچھ منزلوں کو مہاجر سینٹر بنا دینے کے باوجود انتہائی نچلی منزلوں کو پھر بھی پارکنگ کے لیے استعمال میں لایا جا سکے گا۔
تصویر: Leibnitz Universität in Hannover
منفرد طرز کے موبائل گھر
ہینوور کے شمال میں واقع ایک پرانا کارگو اسٹیشن کئی برسوں سے بند پڑا ہے۔ وہاں بھی مہاجروں کے قیام اور آرام کے لیے عارضی رہائش گاہیں بنائی جا سکتی ہے۔ آرکیٹیکچر کے طالب علموں نے اس اسٹیشن پر استعمال میں نہ لائی جانے والی بوگیوں کی مدد سے گھروں کا ڈیزائن تیار کیا ہے۔ جرمنی کے تقریباﹰ ہر شہر میں ایسے پرانے بے آباد اسٹیشن اب بھی قائم ہیں، جنہیں مہاجرین کی رہائش گاہوں کے طور پر کارآمد بنایا جا سکتا ہے۔