1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی: مہاجرین کی نصف تعداد، صرف پانچ برس میں برسر روزگار

5 فروری 2020

ایک تازہ رپورٹ کے مطابق جرمن معاشرے میں انضمام اور زبان سکھانے کے کورسز سے مہاجرین کے لیے ملازمت تلاش کرنے کے مواقع بڑھ گئے ہیں۔ تاہم صنفی عدم توازن اور روزگار کا معیار اب بھی اہم مسائل ہیں۔

Deutschland 2016 | Hochschule für Grafik und Buchkunst in Leipzig | Flüchtlinge
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Willnow

منگل کے روز جرمنی میں ایک نئی رپورٹ شائع کی گئی ہے، جس کے مطابق سن دو ہزار تیرہ کے بعد سے جرمنی آنے والے تقریباً پچاس فیصد مہاجرین کو ملازمت مل چکی ہے۔ انسٹی ٹیوٹ برائے لیبر مارکیٹ اینڈ ووکیشنل ریسرچ (آئی اے بی) کی طرف سے شائع ہونے والی اس رپورٹ کے مطابق، ''ماضی کی نسبت روزگار کی منڈی میں مہاجرین کا انضمام تیزی سے ہو رہا ہے۔‘‘

جرمنی کا انسٹی ٹیوٹ برائے لیبر مارکیٹ اینڈ ووکیشنل ریسرچ  ملک کے وفاقی دفتر برائے مہاجرت اور تارکین وطن (بامف) کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے۔ اس نے نوے کی دہائی کے آغاز میں آنے والے مہاجرین کا موازنہ سن دو ہزار تیرہ کے بعد آنے والے مہاجرین سے کیا ہے۔ نوے کی دہائی میں جرمنی آنے والے مہاجرین کو ملازمت ملنے کی شرح چوالیس فیصد سے بھی کم تھی۔

تصویر: picture-alliance/dpa/S. Kahnert

اس رپورٹ میں جرمن حکومت کی ان کوششوں کی بھی تعریف کی گئی ہے، جو مہاجرین کے معاشرے میں انضمام اور انہیں جرمن زبان سکھانے کے لیے کی جا رہی ہیں۔ جرمن حکومت مہاجرین کو مفت کورسز کرواتی ہے تاکہ وہ ملک میں بولی جانے والی زبان سیکھیں اور انہیں ملازمت ڈھونڈنے میں آسانی ہو۔ جاری ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے، ''حکومت کی جانب سے مہاجرین کے انضمام کے لیے سن دو ہزار پندرہ کے بعد زیادہ پیسہ خرچ کیا جا رہا ہے۔‘‘

ملازمت میں عدم مساوات

اس رپورٹ کے مطابق اگر کل اور جز وقتی ملازمت کی بات کی جائے تو ملازمتیں حاصل کرنے والے مہاجرین کی یہ تعداد 68 فیصد بنتی ہے۔ ان میں سے 17 فیصد مہاجرین ایسے ہیں، جنہیں انٹرن شپ اور ٹریننگ اسکیموں کے لیے بھی ادائیگی کی جاتی ہے۔ لیکن یہ ملازمت کی ایک ایسی قسم ہے، جہاں زندگی گزارنے کے لیے کافی پیسے ادا نہیں کیے جاتے۔

اسی طرح 12 فیصد مہاجرین ایسے ہیں، جو جز وقتی کام کرتے ہیں۔ ایسی ملازمتوں کو 'منی جابز‘ کہا جاتا ہے اور ان کی زیادہ سے زیادہ آمدن 450 یورو ماہانہ ہوتی ہے۔ رپورٹ میں اس حوالے سے تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ ان میں سے صرف 29 فیصد ملازمتیں حاصل کرنے والی خواتین ہیں۔ روایتی طور پر مسلم ممالک سے آنے والے خواتین اور بچے گھر پر ہی رہتے ہیں۔

ا ا / ع ا (ڈی پی اے، کے این اے)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں