جرمنی ميں بہت بڑی تعداد ميں مہاجرين کی آمد کے سبب کئی صوبوں اور بلديات نے کرائے پر جگہیں حاصل کر کے ان کے لیے رہائش گاہوں کے بندوبست کیا تھا لیکن ایسے کئی کیمپ خالی پڑے ہيں جب کہ ان کے اخراجات آسمان کو چھو رہے ہيں۔
اشتہار
جرمن صوبے نارتھ رائن ويسٹ فيليا ميں کرائے گئے ايک تازہ سروے کے نتائج ميں يہ بات سامنے آئی ہے کہ وہاں موجود دو تہائی مہاجر کيمپ تقريباً خالی ہيں۔ يہ امر بھی اہم ہے کہ شہری حکومتوں کو مہاجرين کے لیے سہوليات کی فراہمی کی مد میں وفاقی جرمن حکومت سے مالی مدد صرف ان مہاجرين کے ليے ملتی ہے، جو مراکز ميں رہائش پذير ہوں۔ اسی سبب جرمنی میں صوبائی اور مقامی حکومتوں کا اب مطالبہ ہے کہ وفاقی حکومت انہیں رہائش گاہوں پر اٹھنے والے اخراجات کے لیے الگ سے مالی امداد فراہم کرے۔
مثال کے طور پر اگر این آر ڈبلیو صوبے کے ايک شہر میونشن گلاڈباخ پر نظر ڈالی جائے، جہاں مقابلتاً کم تارکين وطن جاتے ہيں، تو وہاں 2300 افراد کی رہائش کا بندوبست کیا گیا تھا جب کہ اس کیمپ میں رہائش پذير مہاجرين کی حقيقی تعداد ساڑھے سات سو ہے۔ اس حساب سے میونشن گلاڈباخ میں قائم مہاجر کيمپ صرف بتيس فيصد بھرے ہوئے ہيں اور حکومت فی مہاجر طے شدہ امداد فراہم کر رہی ہے ليکن کیمپ پر اٹھنے والے کے اخراجات فراہم کردہ رقم سے کہیں زیادہ ہيں۔ میونشن گلاڈ باخ کے حکام کے مطابق مہاجر کیمپوں پر اٹھنے والے سالانہ اخراجات تقريباً دس ملين يورو کے لگ بھگ ہے۔
برلن میں نمائش: ’مہاجرین ایک بہت بڑا چیلنج‘
جرمن دارالحکومت میں ’مہاجرین ایک بہت بڑا چیلنج‘ کے عنوان سے تصویروں کی نمائش کا اہتمام کیا گیا۔ اس نمائش میں اس چیلنج کی مختلف جہتوں کا تصویری اظہاریہ شامل کیا گیا تھا۔
تصویر: Matthias Nold
مہاجرین کی زندگی
جرمن فوٹوگرافر ہیرلنڈے کوئلبل نے یہ دستاویزی تصاویر یونان، اٹلی اور جرمنی میں 50 سے زائد پناہ گزینوں کے مہاجر مراکز میں مہاجرین کی روز مرہ کی زندگی کو عکس بند کیا ہے۔
تصویر: Matthias Nold
مہاجرین کی خیمہ بستیاں
یونان اور اٹلی کے جزائر پر مہاجرین کی بڑی تعداد کی آمد کے بعد ان کی نقل و حرکت کو محدود رکھنے کے لیے انہیں ان جزائر پر ہی روکا جاتا ہے۔ مہاجرین کی عارضی رہائش کے لیے عمومی طور پر خیموں یا شیلٹرز کا بندوبست کیا جاتا ہے۔
تصویر: Matthias Nold
منفرد عکاسی
فوٹوگرافر ہیرلنڈے کوئلبل نے یورپ کے ساحلوں پر مہاجرین کی آمد کے بعد کے مناظر کو منفرد انداز میں پیش کیا ہے۔ اسی تناظر میں مشائل روتھ نے اپنی تقریر میں کہا کہ گزشتہ سال یورپی یونین اور ترقی کے درمیان مہاجرین کے سلسلے میں طے کیا جانے والا معاہدہ بہت اہم تھا۔
تصویر: Matthias Nold
تصاویر سے رہنمائی
برلن میں دفترِ خارجہ کے دالان میں وفاقی وزیر برائے یورپ مشائیل روتھ نے’مہاجرین، ایک بڑا چیلنج‘ نمائش کا افتتاح کیا۔ اس موقع پر مشائل روتھ نے فوٹوگرافر ہیرلنڈے کوئلبل کے فن پاروں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ نمائش میں پیش کی جانے والی تصاویر یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہیں کہ ہزاروں کی تعداد میں آنے والے مہاجرین کی موجودہ صورت حال کو کیسے بہتر کیا جائے۔
تصویر: Matthias Nold
یونان، اٹلی اور جرمنی میں مہاجرین کے مراکز کی حالت
مجموعی طور پر کوئلبل نے ان فن پاروں میں پناہ گزینوں کو خیموں میں پیش آنے والے مسائل پر روشنی ڈالی ہے۔ کوئلبل نے شرکاء کو بتایا کہ یونان اور ااٹلی کے مقبالے میں جرمنی میں پناہ گزینوں کی رہائش گاہ کی صورت حال قدرے بہتر ہے۔
تصویر: Matthias Nold
ایک تصویر ایک کہانی
تصاویری نمائش ’مہاجرین ایک بہت بڑا چیلنج‘ میں کثیر تعداد میں سیاسی، سماجی، اور ذرائع ابلاغ کی طرح ہر سماجی حلقے سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔ اس موقعے پر شرکاء کا کہنا تھا کہ چند تصویریں صرف ایک لمحہ نہیں بلکہ پناہ گزینوں کی تمام زندگی کی کہانی پیش کرتی ہیں۔
تصویر: Matthias Nold
6 تصاویر1 | 6
یہاں یہ امر بھی اہم ہے کہ مہاجر کيمپوں ميں گنجائش سے کہيں کم پناہ گزينوں کی موجودگی کی وجہ سے اخراجات ميں کوئی کمی واقع نہيں ہوتی کيونکہ کرائے، سکيورٹی سروسز، بجلی، ہيٹنگ کے نظام وغيرہ جیسی سہولیات پر ایک خاص اور مستقل خرچہ ہوتا ہے۔
علاوہ ازیں جرمن حکام مہاجر کیمپوں کی تعداد میں کمی کا خطرہ بھی نہیں مول لے رہے کیوں کہ یہ بات بھی واضح نہیں ہے کہ مستقبل قریب میں مزید کتنے انسان پناہ کی تلاش میں جرمنی کا رخ کریں گے۔
میونشن گلاڈباخ کے محکمہ برائے سماجی امور سے وابستہ ایک آفيسر ڈورٹے شال بتاتی ہيں کہ سن 2015 میں مہاجرین کی بڑی تعداد میں آمد کے پیش نظر اس شہر ميں مہاجرين کو بسانے کے ليے اسکول يا ورزش کے سينٹر وغيرہ خالی نہيں کرائے گئے۔ انتظامیہ کو مجبوراﹰ اس مقصد کے ليے کافی خستہ حال عمارتوں کو کرائے پر لینا پڑا جنہیں مرمت کر کے رہائش کے قابل بنایا گیا۔
جرمنی سے افغان مہاجرین کی ملک بدری
سن دو ہزار سولہ کے وسط میں جرمن حکومت نے چونتیس افغان تارکین وطن کو ملک بدر کیا تھا۔ رواں برس مئی میں افغان مہاجرین کی ملک بدری عارضی طور پر روکے جانے کے بعد یہ سلسلہ اب دوبارہ شروع کر دیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C.F. Röhrs
کابل کی طرف پرواز
رواں برس مئی میں کابل میں جرمن سفارت خانے پر دہشت گردانہ حملے کے بعد پہلی مرتبہ بارہ ستمبر کو پندرہ ایسے افغان تارکین وطن کی ایک پرواز کابل روانہ ہوئی جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی تھیں۔ جرمن سیاسی جماعتوں ’دی لنکے‘ اور ’گرین‘ نے ملک بدری کے سلسلے کے دوبارہ آغاز پر حکومت کو تنقيد کا نشانہ بنايا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
مہلت حاصل کرنے کی جد وجہد
امسال مارچ میں جرمن شہر کوٹبس کے ایک اسکول کے طلبہ نے اپنے تین افغان ساتھیوں کی ملک بدری کے احکامات جاری ہونے کے بعد مظاہرے کیے اور ان کی ملک بدری رکوانے کے لیے چندہ جمع کرتے ہوئے ایک مہم بھی شروع کی تاکہ کسی طرح ان افغان مہاجر ساتھیوں کو جرمنی ہی میں رکھا جا سکے۔
تصویر: DW/S.Petersmann
’کابل محفوظ نہیں‘
’جان لیوا خطرے کی جانب روانگی‘ یہ پوسٹر افغان مہاجرین کی جرمنی بدری کے خلاف فروری میں میونخ کے ہوائی اڈے پر ایک مظاہرے کے دوران استعمال کیا گیا۔ تارکین وطن ایسے مظاہرے عموماﹰ اُن ہوائی اڈوں پر کرتے ہیں جہاں سے ملک بدر مہاجرین کے جہاز نے پرواز کرنا ہوتا ہے۔ جنوری سے مئی سن دو ہزار سترہ تک ایسی کئی پروازیں کابل روانہ کی گئیں۔ امسال اب تک برلن حکومت دو سو اکسٹھ مہاجرین افغانستان واپس بھیج چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Balk
وورزبرگ سے کابل تک
تیس سالہ بادام حیدری نے رواں برس جنوری میں ملک بدر ہونے سے پہلے جرمنی میں سات سال کا عرصہ گزارا۔ حیدری نے افغانستان میں امریکی ادارے یو ایس ایڈ کے ساتھ کام کیا تھا اور وہ طالبان کے خوف سے جرمنی فرار ہوئے تھے۔ اُنہیں اب بھی امید ہے کہ وہ کسی طرح دوبارہ جرمنی پہنچنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C.F. Röhrs
اقلیتوں پر مظالم
جنوری ہی میں جرمن حکومت نے افغان ہندو سمیر نارنگ کو بھی افغانستان واپس بھیج دیا تھا۔ نارنگ اپنے خاندان کے ساتھ جرمن شہر ہیمبرگ میں چار سال سے پناہ گزین تھا۔ نارنگ نے ایک جرمن پبلک ریڈیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مسلم اکثریت والا ملک افغانستان مذہبی اقلیتوں کے لیے محفوظ نہیں۔ سمیر کے مطابق یہ ملک بدریاں زندگی کے لیے خطرہ ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Wiedl
نہ چاہتے ہوئے بھی جانا ہو گا
ملک بدر کیے جانے والے افغان تارکین وطن کو بیس یورو فی کس دیے جاتے ہیں۔ بعد میں وہ عالمی ادارہ مہاجرت سے معاونت حاصل کرنے کے لیے رجوع کر سکتے ہیں۔ بین الاقوامی سائیکولوجیکل تنظیم کے ارکان واپس جانے والے مہاجرین کو مشورے دیتے ہیں۔ آئی پی ایس او نامی اس تنظیم کو جرمن وزارت خارجہ فنڈز فراہم کرتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dap/M. Jawad
6 تصاویر1 | 6
وفاقی جرمن حکومت اس وقت مختلف بلديات کو فی مہاجر تقريباً ساڑھے دس ہزار يورو سالانہ فراہم کرتی ہے۔ کیمپوں میں مہاجرین کی تعداد کم ہونے کا ایک براہ راست مطلب یہ ہے کہ وفاقی حکومت سے رقم بھی کم ملے گی۔
اس صورت حال کے پیش نظر نارتھ رائن ويسٹ فيليا کی سٹی اينڈ ميونسپل ايسوسی ايشن سے وابستہ آندريس وولانڈ کہتے ہيں کہ ان نظام کا از سر نو جائزہ ليے جانے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فی مہاجر ملنے والی رقم کو رہائش گاہوں پر بحیثیت مجموعی اخراجات کے مطابق بنایا جانا چاہیے۔