جرمنی میں آئین کے لیے پرخطر مسلم گروپوں کے خلاف کریک ڈاؤن
5 نومبر 2025
جرمن دارالحکومت برلن سے بدھ پانچ نومبر کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق وفاقی حکومت نے جس مسلم تنظیم کو قانونی طور پر ممنوع قرار دے دیا ہے، اس کا نام 'مسلم انٹرایکٹیو‘ ہے۔ اس پر قانونی پابندی کی وجہ اس کا خواتین اور جنسی اقلیتی گروپوں کے ساتھ امتیازی رویوں اور سامیت دشمنی کو ہوا دینے کے باعث جرمنی کے بنیادی آئین کی بالادستی کے لیے خطرناک ہونا بنا۔
جرمن وزارت داخلہ کا موقف
برلن میں وفاقی جرمن وزارت داخلہ نے بتایا کہ 'مسلم انٹرایکٹیو‘ نامی گروپ پر لگائی گئی پابندی کی وجہ اس کی یہ پرخطر سوچ بھی بنی کہ وہ یورپی یونین کے سب سے زیادہ آبادی والے اس ملک میں ایک مذہب کے طور پر اسلام کی ایک مخصوص پہلو سے ترویج کے لیے کام کر رہا تھا۔
جرمنی میں شدت پسندی کے واقعات کا سدباب کیسے ممکن؟
یہ سماجی اور نظریاتی ترویج اس طرح کی جا رہی تھی کہ معاشرتی نظم و ضبط کا واحد ماڈل اسلام ہے اور جرمنی میں مسلم برادری کی انفرادی اور اجتماعی روزمرہ زندگی میں ریاستی قوانین کے بجائے اسلامی قوانین کو ترجیح دی جانا چاہیے، خاص طور پر اس حوالے سے بھی کہ خواتین کے ساتھ کیسا سلوک کیا جانا چاہیے۔
جرمن وزیر داخلہ آلیکسانڈر ڈوبرنٹ نے برلن میں کہا، ''ہم ایسے ہر فرد کے خلاف قانون کی پوری طاقت کے ساتھ کارروائی کریں گے، جو جرمنی کی سڑکوں پر جارحانہ انداز میں بطور نظام خلافت کے نفاذ کا مطالبہ کرتا ہو، ناقابل برداشت انداز میں یہودیوں اور اسرئیلی ریاست کے خلاف نفرت انگیزی کرتا ہو، اور خواتین اور صنفی اقلیتوں کے بنیادی حقوق کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتا ہو۔‘‘
دو دیگر مسلم گروپوں کے خلاف بھی تحقیقات
جرمن وزارت داخلہ کے مطابق اس کے حکام ملک میں دو دیگر مسلم گروپوں کے خلاف بھی تحقیقات کر رہے ہیں۔ ان گروپوں کے نام 'جنریشن اسلام‘ اور 'ریئلیٹی اسلام‘ بتائے گئے ہیں۔
جرمنی میں اسلامو فوبیا کے واقعات میں نمایاں اضافہ
وفاقی وزیر داخلہ آلیکسانڈر ڈوبرنٹ نے کہا، ''ہم اس بات کی کبھی اجازت نہیں دیں گے کہ 'مسلم انٹرایکٹیو‘ جیسی تنظیمیں اپنے اندر پائی جانے والی نفرت کی بنیاد پر ہمارے آزاد معاشرے کو نیچا دکھا دیں، ہماری جمہوریت کو ناپسند کریں اور ہمارے ملک پر اس کے اندر سے حملہ کریں۔‘‘
جرمنی: اعزازی جج نے اسکارف پر پابندی کو عدالت میں چیلنج کر دیا
اسی دوران وفاقی وزارت داخلہ کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ یہ مسلم گروپ ''خاص طور پر صنفی مساوات، آزادانہ جنسی رجحان اور کسی بھی فرد کی اپنے لیے منتخب کردہ ذاتی صنفی شناخت کا مخالف ہے۔‘‘
وزارتی بیان کے مطابق اس گروپ کا ''یہ رویہ ایسی عدم برداشت کا مظہر ہے، جو جمہوریت اور بنیادی انسانی حقوق سے براہ راست متصادم ہے۔‘‘
متعدد جرمن شہروں میں چھاپے
جرمن حکام کے مطابق قانون نافذ کرنے والے ملکی اداروں کے ارکان نے بدھ پانچ نومبر کو مختلف شہروں میں دو دیگر مسلم گروپوں کے خلاف بھی چھاپے مارے۔
جرمنی: انتہا پسند مسلم حملہ آور کے خلاف مقدمہ شروع
اس دوران شمالی شہر ہیمبرگ میں سات مختلف مقامات کی تلاشی لی گئی جبکہ وفاقی دارالحکومت برلن اور وسطی جرمن صوبے ہیسے میں بھی 12 مقامات پر چھاپے مار کر تلاشیاں لی گئیں۔
جرمن سکیورٹی اداروں کی سخت گیر اسلام پسندوں پر کڑی نظر، وزیر داخلہ
حکام کے مطابق 'مسلم انٹرایکٹیو‘ نامی گروپ زیادہ سے زیادہ لوگوں کی ذہن سازی کر کے ''ایسے مستقل آئین دشمن تیار کرنا چاہتا تھا، جو جرمنی میں آئینی نظم و ضبط کو مسلسل خطرات کا شکار بنا دیں۔‘‘
دریں اثنا 'مسلم انٹرایکٹیو‘ کی آن لائن موجودگی بھی بدھ کے روز بظاہر آف لائن کر دی گئی، جس کے بعد اس تک رسائی ممکن نہیں۔ اس کے علاوہ اب کالعدم قرار دے دیے گئے اس مسلم گروپ سے اس کا موقف جاننے کے لیے کوئی رابطہ بھی نہ ہو سکا۔