جرمنی میں اب ایئر کنڈیشنر بھی روزمرہ کی ضروریات کی فہرست میں شامل ہوتا جا رہا ہے۔ ملک میں ایئر کنڈیشنرز کی پیداوار اور درآمد میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہو چکا ہے۔
محکمہ موسمیات نے شہریوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ زیادہ پانی پیئں، سایہ دار جگہوں میں رہیں، جسمانی مشقت سے گریز کریںتصویر: Jan Eifert/IMAGO
اشتہار
یورپ میں جاری گرمی کی لہر جرمنی بھی نہ صرف پہنچ چکی ہے بلکہ اس کے تسلسل اور شدت دونوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ رواں ہفتے درجہ حرارت میں تیزی سے اضافہ متوقع ہے، جس کی وجہ سے ایئر کنڈیشنرز کی مانگ اور فروخت بھی تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔
جرمنی کے وفاقی دفتر شماریات نے بتایا کہ 2024 میں ایئر کنڈیشنرز کی مقامی پیداوار میں 92 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا، جو 2023 میں 1,64,000 یونٹوں سے بڑھ کر 2024 میں 3,17,000 یونٹس تک پہنچ گئی۔
گزشتہ پانچ برسوں میں جرمنی میں ایئر کنڈیشنرز کی مجموعی پیداوار میں 75 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
ملک میں ایئر کنڈیشنرز کی درآمدات بھی بلند سطح پر ہیں۔ 2024 میں جرمن عوام نے 1.1 بلین ڈالر مالیت کے ایئر کنڈیشننگ یونٹس خریدے، جو 2023 کے 1.2 بلین ڈالر کے ریکارڈ سے کچھ ہی کم ہے۔
درآمد کیے گئے ہر چار میں سے ایک ایئر کنڈیشنر اٹلی میں تیار کیا گیا تھا۔ اٹلی کے بعد اس حوالے سے چین اور سویڈن کے نام آتے ہیں۔
جرمن قومی محکمہ موسمیات نے پیش گوئی کی ہے کہ درجہ حرارت بدھ تک 38 ڈگری تک جا سکتا ہےتصویر: Wolfgang Rattay/REUTERS
درجہ حرارت 38 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچنے کی توقع
موجودہ ہیٹ ویو جو کئی ہفتوں سے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے تھی، اب جرمنی پہنچ چکی ہے، جہاں پیر کو درجہ حرارت 30 ڈگری سینٹی گریڈ (86 ڈگری فارن ہائیٹ) تک پہنچ گیا۔
قومی محکمہ موسمیات نے پیش گوئی کی ہے کہ یہ بدھ تک 38 ڈگری تک جا سکتا ہے۔ جرمنی کے شمالی ساحلی علاقوں میں درجہ حرارت کچھ ڈگری کم رہنے کا امکان ہے۔
زیادہ درجہ حرارت کے ساتھ بڑھتی ہوئی مرطوب ہوا بھی لوگوں کے لیے مزید پریشانی کا باعث ہے، اور جمعرات کو درجہ حرارت اور مرطوب ہوا کے عروج پر پہنچنے اور شدید گھن گرج اور چمک کے ساتھ طوفان کا خطرہ بڑھ جانے کی پیش گوئی بھی کی گئی ہے۔
محکمہ موسمیات نے شہریوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ''زیادہ پانی پیئں، سایہ دار جگہوں میں رہیں، جسمانی مشقت سے گریز کریں اور اپنے گھروں کو ٹھنڈا رکھیں۔‘‘
ماہرین موسمیات کا کہنا ہے کہ یہ واضح نہیں کہ موجودہ ہیٹ ویو کتنے دن جاری رہے گی، قبل اس کے کہ یہ مشرق کی طرف بڑھ جائے۔
یورپ: موسمیاتی شدت اور سیاحت
یورپ میں گرمی کی شدید لہر مسلسل جاری ہے جب کہ جنگلاتی آگ، سوکھتے دریا اور پانی کی قلت جیسے مسائل دیکھے جا رہے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے واضح اثرات یورپ کے سیاحتی مقامات پرخاص دیکھے جا سکتے ہیں۔
تصویر: Beata Zawrzel/NurPhoto/picture alliance
اسپین
تیرین کا جنگلاتی علاقہ اتنا خشک ہے کہ ماچس کی ایک تیلی اسے جلا کر خاکستر کر سکتی ہے۔ اسپین میں بدترین جنگلاتی آگ دیکھی جا رہی ہے۔ ویلینسیا، ایلیکانتے اور مُرسیا میں مختلف ٹیمیں آگ کے خلاف مسلسل فعال ہیں۔ ہزاروں رہائشیوں اور سیاحوں کو متاثرہ علاقوں سے نکالا گیا ہے۔ سیاحتی علاقے اندلس اور کاتالونیا اس سے شدید متاثرہ خطے ہیں۔
تصویر: Europa Press/picture alliance
فرانس
فرانس میں بھی خشک سالی نے تاریخی شکل اختیار کر لی ہے۔ ملک کے کئی مقامات میں جنگلاتی آگ بھڑکی ہوئی ہے، جس میں بحراوقیانوس کے قریب واقع مشہور سیاحتی ساحل گیروند کا علاقہ بھی شامل ہے۔ اس علاقے سے ہزاروں سیاحوں کو نکالا جا چکا ہے، جب کہ قریبی ہائی ویز بند ہیں۔ ڈیون دے پیلا نامی ایک ہزار سال پرانا جنگل اس آگ کی نذر ہو چکا ہے۔
الگاروے ایک مشہور سیاحتی علاقہ ہے، جہاں آنے والے سیاحوں کو ہوٹل پولز اور لاتعداد شاورز کی سہولت دستیاب ہوتی ہے۔ پرتگال کی معیشت سیاحت پر انحصار کرتی ہے۔ مشکل معاملہ یہ ہے کہ شدید خشک سالی نے اس ملک میں پانی کی قلت پیدا کر دی ہے۔ الگاروے کے علاقے کے ہوٹلوں سے توقع کی جا رہی ہے کہ وہ پانی کا استعمال کم کریں۔ تاہم یہ ہو گا کیسے، کوئی نہیں جانتا۔
تصویر: Pedro Fiuza/ Xinhua News Agency/picture alliance
آسٹریا
ویانا جہاں درجہ حرارت 39 ڈگری سینٹی گریڈ تک دیکھا گیا، وہاں سیاح پانی کی پھوار کے ذریعے گرمی کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ ویانا یورپ کے سب سے سرسبز شہروں میں سے ایک ہے، تاہم اسے ماحولیاتی تبدیلیوں نے بدترین انداز سے نشانہ بنایا ہے۔ اسی تناظر میں اس شہر نے گرمی کا مقابلہ کرنے کے لیے پانی کے شاور جگہ جگہ نصب کر کے ’کولنگ زونز‘، پینے کے پانی کے فوارے بنائے ہیں جب کہ مزید درخت لگائے جا رہے ہیں۔
تصویر: Georg Hochmuth/APA/picture alliance
یونان
یونان میں شدید گرمی کا اثر جابہ جا ہے۔ دارالحکومت ایتھنز کے نواح میں، کریٹے اور لیسبوس جیسے جزائر پر بھی۔ لیسبوس جزیرے پر پھیلی جنگلاتی آگ جولائی کے آخر تک پھیلتے ہوئے وتیریا کے سیاحتی مقام تک پہنچ گئی تھی، جہاں سیاحوں کو پناہ ڈھونڈنا پڑی جب کہ کوسٹ گارڈز کی مدد سے ان افراد کو متاثرہ علاقوں سے نکالا گیا۔ یونان میں اب بھی کئی مقامات پر جنگلاتی آگ لگی ہوئی ہے۔
تصویر: Eurokinissi/ZUMA Wire/picture alliance
کروشیا
سیاح جنہوں نے ڈوبرووینِک کا انتخاب کیا، انہوں نے یہاں 43 ڈگری سینٹی گریڈ تک درجہ حرارت دیکھا۔ یورپ میں گرمی کی چھٹیوں کے موسم میں سیاحتی خدمات فراہم کرنے والی کمپنیاں سیاحوں کی خوش کرنے کی کوشش میں ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ سیاح گرمی پر توجہ نہ دیں اور سیاحت کا لطف لیں۔
تصویر: Grgo Jelavic/Pixsell/picture alliance
نیدرلینڈز
ایمسٹرڈیم میں لوگ گرمی سے بچنے کے لیے سمندر کا رخ کر رہے ہیں۔ اسی طرح دریائے ایمسٹل کے کنارے بھی لوگوں کا غیرعمومی رش ہے۔ لیکن نیدرلینڈز میں خشک سالی دریاؤں کے لیے بھی مسئلہ بن رہی ہے۔ پانی کی سطح ہر جگہ گر رہی ہے اور نمکین پانی مختلف آبی راستوں میں داخل ہو رہا ہے۔ اس سے بھی بڑا مسئلہ سیلاب سے بچانے والا نظام بھی شدید گرمی اور خشکی کی وجہ سے خطرے کی زد میں ہے۔
تصویر: Ramon van Flymen/ANP/picture alliance
اٹلی
شدید گرمی مناظر تبدیل کر رہی ہے۔ اٹلی کے شمال میں سیاحوں کی ایک اہم منزل یعنی جھیل گاردا میں پانی پندرہ برسوں کے کم ترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔ جزیرہ نما سیمیونے میں چٹانیں دیکھی جا رہی ہے اور سیاح اب ان ساحلوں کو پہچان تک نہیں پا رہے ہیں۔ سیاحتی شعبے کے حکام کا تاہم اصرار ہے کہ اس جھیل پر چھٹیاں اب بھی منائی جا سکتی ہیں۔
تصویر: Antonio Calanni/AP/picture alliance
سوئٹزرلینڈ
موسم سرما میں یہاں پڑنے والی برف کے آس پاس حفاظتی شیٹس نصب کی گئی ہیں۔ تاہم دو ہزار برسوں میں پہلی بار تین ہزار میٹر اونچا گلیشیئر کول ڈے زنفلیورں کا ایک حصہ برف سے مکمل طور پر خالی ہو چکا ہے۔ ماہرین ارضیات کے مطابق ستمبر کے آخر تک یہاں فقط چٹانیں دکھائی دیں گی۔ ماہرین کے مطابق اس مقام پر سن 2012 میں پندرہ میٹر موٹی برف کی تہہ تھی۔
کیا یہ لندن ہے؟ یہاں سبز کی بجائے پارکس خشک اور پیلے ہیں۔ عام حالات میں ان پارکس میں ہجوم ہوتا تھا، مگر گرمی شدید ہے اور اب یہ ویران ہیں۔ جولائی میں لندن میں چالیس درجے سیٹی گریڈ تک درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا تھا۔ اسی تناظر میں برطانیہ میں موسمی ہنگامی حالت نافذ کر دی گئی ہیں۔ اگست میں بھی برطانیہ میں کئی مقامات پر بارشیں نہ ہونے سے متاثر ہوئے ہیں۔
تصویر: Dominic Lipinski/PA wire/picture alliance
جرمنی
بالائے وسطی وادیء رائن، اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ثقافت یونیسکو کے تاریخی ورثے میں شامل ہے اور سیاحوں کے لیے ایک پرکشش مقام ہے۔ تاہم دریائے رائن میں یہاں بعض مقامات پر پانی کی سطح چالیس سینٹی میٹر تک گر چکی ہے۔ ایسی صورت میں سامان بردار کشتیاں کم سامان کے ساتھ ہی دریائے رائن کا استعمال کر سکتی ہیں جب کہ فیری سروس معطل کی جا چکی ہے۔