وفاقی جرمن حکومت کے مطابق سن 2017 کے اختتام تک ملک میں سیاسی پناہ حاصل کرنے والے غیر ملکیوں کی تعداد چھ لاکھ سے زائد ہو چکی تھی۔ زیادہ تر پناہ گزینوں کا تعلق شام، عراق اور افغانستان سے ہے۔
اشتہار
بدھ چودہ فروری کے روز جرمن دارالحکومت برلن میں بائیں بازو کی سیاسی جماعت ’دی لنکے‘ کی درخواست پر وفاقی جرمن حکومت نے ملک میں بسنے والے پناہ گزینوں کی مجموعی تعداد کے حوالے سے اعداد و شمار جاری کیے ہیں۔
برلن حکومت کے مطابق سن 2017 کے آخر تک جرمنی میں سیاسی پناہ حاصل کرنے والے غیر ملکیوں کی مجموعی تعداد چھ لاکھ سے تجاوز کر چکی تھی۔ ان میں سے تین لاکھ چھبیس ہزار سے زائد کا تعلق جنگ زدہ ملک شام کے شہری، ایک لاکھ سے زائد عراقی جب کہ چالیس ہزار سے زائد افغان باشندے بھی شامل ہیں۔
2017ء: کس ملک کے کتنے شہری پناہ کی تلاش میں جرمنی پہنچے؟
جرمنی میں سن 2017 کے دوران مہاجرین اور تارکین وطن کی آمد میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔ 2017 میں ایک لاکھ اسی ہزار، 2016 میں دو لاکھ اسی ہزار جب کہ سن 2015 میں قریب ایک ملین افراد پناہ کی تلاش میں جرمنی آئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
۱۔ شام
2017ء میں بھی جرمنی میں سب سے زیاد مہاجرین خانہ جنگی کے شکار ملک شام سے آئے۔ بی اے ایم ایف کے مطابق سن 2017ء میں شام کے پچاس ہزار سے زائد شہریوں نے جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ قریب 92 فیصد شامیوں کو پناہ دی گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
۲۔ عراق
عراقی مہاجرین دوسرے نمبر پر رہے اور گزشتہ برس تئیس ہزار چھ سو سے زائد عراقیوں نے جرمنی میں حکام کو پناہ کی درخواستیں دیں۔ چھپن فیصد سے زائد عراقی شہریوں کو پناہ کا حقدار سمجھا گیا۔
۳۔ افغانستان
گزشتہ برس افغان شہریوں کی جرمنی آمد اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں آٹھ فیصد کم ہونے کے باوجود افغان تارکین وطن اٹھارہ ہزار سے زائد درخواستوں کے ساتھ تعداد کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر رہے۔ چوالیس فیصد افغان درخواست گزار پناہ کے حقدار قرار پائے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Thissen
۴۔ اریٹریا
افریقی ملک اریٹریا کے دس ہزار سے زائد شہریوں نے بھی جرمنی میں پناہ کی درخواستیں دیں۔ اریٹرین باشندوں کو جرمنی میں پناہ ملنے کی شرح 83 فیصد رہی۔
تصویر: picture alliance/dpa/U. Zucchi
۵۔ ایران
2017ء میں اسلامی جمہوریہ ایران کے نو ہزار سے زائد شہری پناہ کی تلاش میں جرمنی پہنچے اور ان کی درخواستوں کی کامیابی کا تناسب پچاس فیصد کے لگ بھگ رہا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
۶۔ ترکی
ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد حکومتی کریک ڈاؤن کے بعد ساڑھے آٹھ ہزار ترک شہریوں نے جرمنی میں پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ ترک شہریوں کو پناہ ملنے کا تناسب اٹھائیس فیصد رہا۔
تصویر: Imago/Chromeorange/M. Schroeder
۷۔ نائجیریا
افریقی ملک نائجیریا سے بھی مزید آٹھ ہزار تین سو تارکین وطن گزشتہ برس جرمنی پہنچے۔ اس برس محض 17 فیصد نائجیرین باشندوں کو جرمنی میں پناہ ملی۔
تصویر: A.T. Schaefer
۸۔ صومالیہ
ساتویں نمبر پر ایک اور افریقی ملک صومالہ رہا، جہاں سے ساڑھے سات ہزار سے زائد نئے تارکین وطن گزشتہ برس پناہ کی تلاش میں جرمنی پہنچے۔ دیگر افریقی ممالک کے مقابلے میں صومالیہ کے شہریوں کو پناہ ملنے کا تناسب بھی زیادہ (اسی فیصد سے زائد) رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Skolimowska
۹۔ روس
سن 2017 میں روس سے تعلق رکھنے والے چھ ہزار شہری پناہ کی تلاش میں جرمنی آئے۔ تاہم روسی شہریوں کو پناہ ملنے کی شرح محض نو فیصد رہی۔
تصویر: Dimitriy Chunosov
۱۰۔ جن کی قومیت معلوم نہیں
اس برس دسویں نمبر پر ایسے تارکین وطن رہے جن کی قومیت شناخت کے بارے میں جرمن حکام کو علم نہیں۔ بی اے ایم ایف کے مطابق ایسے افراد کی تعداد قریب ساڑھے چار ہزار سے کچھ رہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Deck
۱۱۔ پاکستان
سن 2011 کے بعد اس برس پاکستانی تارکین وطن تعداد کے اعتبار سے پہلی مرتبہ ٹاپ ٹین ممالک میں شامل نہیں تھے۔ سن 2017 میں قریب ساڑھے چار ہزار پاکستانیوں نے جرمنی میں حکام کو پناہ کی درخواستیں دیں۔
تصویر: Privat
11 تصاویر1 | 11
ان اعداد و شمار کے مطابق ایسے غیر ملکیوں کی تعداد، جنہیں بین الاقوامی قوانین کے مطابق باقاعدہ مہاجر تسلیم کیا گیا، قریب بیالیس ہزار ہے جب کہ قریب دو لاکھ سیاسی پناہ کے درخواست گزار غیر ملکیوں کو ثانوی حیثیت میں پناہ دی گئی۔ ایسے تارکین وطن کی زیادہ تر تعداد بھی شام، عراق اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے باشندوں کی تھی۔
وفاقی جرمن حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ تہتر ہزار سے زائد تارکین وطن کو انسانی بنیادوں پر جرمنی میں عارضی قیام کی اجازت دی گئی ہے۔ ان میں پناہ کے ایسے درخواست گزار بھی شامل ہیں جنہیں مختلف وجوہات کی بنا پر جرمنی سے ملک بدر نہیں کیا جا سکتا۔ انسانی بنیادوں پر جرمنی میں قیام کی اجازت کے حامل ان 73 ہزار غیر ملکیوں میں سے ساڑھے بیالیس ہزار کا تعلق افغانستان سے ہے۔
جرمن معاشرے و روزگار کی منڈی ميں 'مہاجرين کا انضمام کیسے بہتر بنایا جائے؟'
02:27
دوسری جانب ایک لاکھ 66 ہزار سے زائد تارکین وطن کی سیاسی پناہ کی درخواستوں پر ابھی تک فیصلے نہیں کیے گئے۔ اپنے آبائی وطنوں میں سلامتی کی صورت حال یا پھر تارک وطن کی خراب صحت کے باعث ایسے تارکین وطن کو جرمنی میں قیام کی ایسی عبوری عارضی اجازت کو ’ڈلڈنگ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ جرمنی میں اس درجے کے تحت مقیم غیر ملکیوں کی اکثریت کا تعلق افغانستان، کوسوو اور سربیا سے تعلق رکھنے والے افراد کی ہے۔