2015ء کے دوران ساڑھے آٹھ ہزار پاکستانی شہریوں نے جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواستیں دیں۔ جرمن حکام کی جانب سے جن درخواستوں پر فیصلے کیے گئے، ان میں سے صرف 9.8 فیصد پاکستانی تارکین وطن کو جرمنی میں پناہ مل سکی۔
اشتہار
جرمنی کے وفاقی ادارہ برائے تارکین وطن و مہاجرین (بی اے ایم ایف) کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس کے دوران پاکستانی تارکین وطن کو جرمنی میں سیاسی پناہ دیے جانے کا تناسب صرف نو اشاریہ آٹھ فیصد رہا جب کہ جنوری 2016ء میں یہ تناسب مزید کم ہو کر محض 4.5 فیصد رہ گیا۔
بی اے ایم ایف کے اعداد و شمار کے مطابق یورپ میں جاری پناہ گزینوں کے موجودہ بحران کے دوران گزشتہ برس ساڑھے آٹھ ہزار کے قریب پاکستانی شہریوں نے بھی جرمنی میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کے لیے درخواستیں جمع کرائی تھیں۔
پچھلے سال ان میں سے دو ہزار سے زائد درخواستوں پر ابتدائی فیصلے سامنے آئے اور صرف 197 پاکستانی مہاجرین کی درخواستوں پر مثبت فیصلہ سنایا گیا۔ اس کے برعکس اٹھارہ سو سے زائد پاکستانیوں کی درخواستیں مسترد کر دی گئیں۔ یوں نوّے فیصد سے زائد پاکستانیوں کو جرمنی میں پناہ کا حق دار نہیں سمجھا گیا۔
2016ء کا آغاز بھی پاکستانی مہاجرین کے لیے کچھ زیادہ امید افزا نہیں ہے۔ جنوری کے مہینے میں مزید 757 پاکستانیوں نے سیاسی پناہ حاصل کرنے کے لیے جرمن حکام کو درخواستیں دیں۔
جنوری میں 334 درخواستوں کو نمٹایا گیا جن میں سے صرف پندرہ پاکستانی پناہ گزینوں کے حق میں فیصلہ کیا گیا جب کہ باقی تمام کی تمام درخواستیں مسترد کر دی گئیں۔ یوں پاکستانی شہریوں کی سیاسی پناہ کی درخواستوں کی کامیابی کا تناسب پچھلے سال کے مقابلے میں نصف رہ گیا۔
یورپی یونین کے دفتر شماریات یوروسٹیٹ کے مطابق گزشتہ برس جرمنی آنے والے پاکستانی تارکین وطن کی اکثریت مردوں کی تھی۔ تاہم اس دوران چھ سو پچیس پاکستانی خواتین بھی پناہ کی تلاش میں جرمنی پہنچی تھیں۔ پاکستان سے تعلق رکھنے والے 790 درخواست گزار ایسے بھی ہیں جن کی عمریں سترہ برس سے کم ہیں۔
2010ء اور 2014ء کے درمیانی عرصے میں جرمنی میں قریب اڑتیس سو پاکستانی درخواست دہندگان میں سے بارہ سو کو پناہ کا مستحق تسلیم کیا گیا تھا۔ ان پانچ برسوں میں پاکستانیوں کی پناہ کی درخواستوں کی کامیابی کی شرح ایک تہائی رہی تھی۔
پچھلے سال افغانستان سے تعلق رکھنے والے مہاجرین کو جرمنی میں پناہ دیے جانے کا تناسب پاکستانیوں کی نسبت پانچ گنا زیادہ یعنی قریب اڑتالیس فیصد رہا۔ اس کے مقابلے میں شام، عراق اور اریٹیریا کے شہریوں کو ترجیحی بنیادوں پر جرمنی میں پناہ دی گئی۔
یورپ میں جاری مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران یورپ آنے والے زیادہ تر مہاجرین کا تعلق خانہ جنگی کے شکار ملک شام سے ہے۔جرمنی میں اب تک ایک لاکھ نوّے ہزار شامی باشندوں کی سیاسی پناہ کی درخواستوں پر فیصلے کیے جا چکے ہیں۔ شامی پناہ گزینوں کی درخواستیں مسترد کیے جانے کا تناسب نہایت کم ہے۔
پاکستانی تارک وطن، اکبر علی کی کہانی تصویروں کی زبانی
اکبر علی بھی ان ہزاروں پاکستانی تارکین وطن میں سے ایک ہے جو مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران جرمنی اور دیگر یورپی ممالک پہنچے۔ اس پرخطر سفر کے دوران علی نے چند مناظر اپنے موبائل فون میں محفوظ کر لیے۔
تصویر: DW/S. Haider
ایران کا ویزہ لیکن منزل ترکی
علی نے پاکستان سے مقدس مقامات کی زیارت کے لیے ایران کا ویزہ لیا۔ ایران سے انسانوں کے اسمگلروں نے اسے سنگلاخ پہاڑوں کے ایک طویل پیدل راستے کے ذریعے ترکی پہچا دیا۔ تین مہینے ترکی کے مختلف شہروں میں گزارنے کے بعد علی نے یونان کے سفر کا ارادہ کیا اور اسی غرض سے وہ ترکی کے ساحلی شہر بودرم پہنچ گیا۔
تصویر: Akbar Ali
میدانوں کا باسی اور سمندر کا سفر
بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سمندری سفر سینکڑوں تارکین وطن کو نگل چکا ہے۔ یہ بات علی کو بھی معلوم تھی۔ پنجاب کے میدانی علاقے میں زندگی گزارنے والے علی نے کبھی سمندری لہروں کا سامنا نہیں کیا تھا۔ علی نے اپنے دل سے سمندر کا خوف ختم کرنے کے لیے پہلے سیاحوں کے ساتھ سمندر کی سیر کی۔ پھر درجنوں تارکین وطن کے ہمراہ ایک چھوٹی کشتی کے ذریعے یونانی جزیرے لیسبوس کے سفر پر روانہ ہو گیا۔
تصویر: Akbar Ali
دیکھتا جاتا ہوں میں اور بھولتا جاتا ہوں میں
سمندر کی خونخوار موجوں سے بچ کر جب علی یونان پہنچا تو اسے ایک اور سمندر کا سامنا تھا۔ موسم گرما میں یونان سے مغربی یورپ کی جانب رواں مہاجرین کا سمندر۔ علی کو یہ سفر بسوں اور ٹرینوں کے علاوہ پیدل بھی طے کرنا تھا۔ یونان سے مقدونیا اور پھر وہاں سے سربیا تک پہنچتے پہنچتے علی کے اعصاب شل ہو چکے تھے۔ لیکن منزل ابھی بھی بہت دور تھی۔
تصویر: Akbar Ali
کھنچی ہے جیل کی صورت ہر ایک سمت فصیل
ہزاروں مہاجرین کی روزانہ آمد کے باعث یورپ میں ایک بحرانی کیفیت پیدا ہو چکی تھی۔ علی جب سربیا سے ہنگری کے سفر پر نکلا تو ہنگری خاردار تاریں لگا کر اپنی سرحد بند کر چکا تھا۔ وہ کئی دنوں تک سرحد کے ساتھ ساتھ چلتے ہنگری میں داخل ہونے کا راستہ تلاشتے رہے لیکن ہزاروں دیگر تارکین وطن کی طرح علی کو بھی سفر جاری رکھنا ناممکن لگ رہا تھا۔
تصویر: Akbar Ali
متبادل راستہ: ہنگری براستہ کروشیا
کروشیا اور ہنگری کے مابین سرحد ابھی بند نہیں ہوئی تھی۔ علی دیگر مہاجرین کے ہمراہ بس کے ذریعے سربیا سے کروشیا کے سفر پر روانہ ہو گیا، جہاں سے وہ لوگ ہنگری میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ ہنگری سے بذریعہ ٹرین علی آسٹریا پہنچا، جہاں کچھ دن رکنے کے بعد وہ اپنی آخری منزل جرمنی کی جانب روانہ ہو گیا۔
تصویر: Akbar Ali
جرمنی آمد اور بطور پناہ گزین رجسٹریشن
اکبر علی جب جرمنی کی حدود میں داخل ہوا تو اسے پناہ گزینوں کی رجسٹریشن کے مرکز لے جایا گیا۔ علی نے جرمنی میں پناہ کی باقاعدہ درخواست دی، جس کے بعد اسے جرمنی کے شہر بون میں قائم ایک شیلٹر ہاؤس پہنچا دیا گیا۔ علی کو اب اپنی درخواست پر فیصلہ آنے تک یہاں رہنا ہے۔ اس دوران جرمن حکومت اسے رہائش کے علاوہ ماہانہ خرچہ بھی دیتی ہے۔ لیکن علی کا کہنا ہے کہ سارا دن فارغ بیٹھنا بہت مشکل کام ہے۔
تصویر: DW/S. Haider
تنہائی، فراغت اور بیوی بچوں کی یاد
علی جرمن زبان سے نابلد ہے۔ کیمپ میں کئی ممالک سے آئے ہوئے مہاجرین رہ رہے ہیں۔ لیکن علی ان کی زبان بھی نہیں جانتا۔ اسے اپنے بچوں اور بیوی سے بچھڑے ہوئے سات ماہ گزر چکے ہیں۔ اپنے خاندان کا واحد کفیل ہونے کے ناطے اسے ان کی فکر لاحق رہتی ہے۔ اس کا کہنا ہے، ’’غریب مزدور آدمی ہوں، جان بچا کر بھاگ تو آیا ہوں، اب پچھتاتا بھی ہوں، بیوی بچوں کے بغیر کیا زندگی ہے؟ لیکن انہی کی خاطر تو سب کچھ کر رہا ہوں۔‘‘