جرمنی میں اسلام سے خوف اور بداعتمادی میں ڈرامائی اضافہ
عاطف توقیر
16 مارچ 2018
ایک مطالعاتی رپورٹ کے مطابق جرمنی کا علاقہ رُوہر وادی جو کسی دور میں انضمام کا ستون سمجھا جاتا تھا، اب عدم برداشت کے واقعات دیکھ رہا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق یہ رجحان انتہائی دائیں بازو کی جماعت اے ایف ڈی کی کامیابی ہے۔
اشتہار
رُوہر وادی کو جرمنی کا صنعتی مرکز اور ’میلٹنگ پاٹ‘ قرار دیا جاتا ہے۔ اس علاقے میں غیرملکی خصوصاﹰ ترک نژاد افراد کی بڑی تعداد آباد ہے، جو ان صنعتوں میں کام کرتے ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد تارکین وطن کمیونٹیز ہی نے جرمنی کے کسی بھی دوسرے علاقے سے بڑھ کر یہاں کے صنعتی اداروں کا رخ کیا۔ یہاں کوئلے اور فولاد کی صنعتیں ترقی کی راہوں پر گامزن ہیں اور ہزاروں ترک نژاد افراد آباد ہیں۔ تاہم غیرملکیوں کی بڑی تعداد کے حامل اس علاقے میں اب اسلام سے خوف اور مختلف برادریوں کے درمیان عدم اعتماد کی فضا میں مسلسل اضافہ دیکھا گیا ہے۔ جمعرات کے روز بروسٹ فاؤنڈیشن کی جانب سے سامنے آنے والی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ دو برسوں میں اس رجحان میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
کس جرمن صوبے میں سیاسی پناہ ملنے کے امکانات زیادہ ہیں
بی اے ایم ایف کے مطابق پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے تارکین وطن کو پناہ ملنے یا نہ ملنے کا انحصار دیگر کئی پہلوؤں کے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی ہے کہ ان کی پناہ کی درخواستیں کس جرمن صوبے میں جمع کرائی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Karmann
برانڈنبرگ
گزشتہ برس جرمنی میں سیاسی پناہ کی سب سے کم درخواستیں جرمن صوبے برانڈنبرگ میں منظور کی گئیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Settnik
باویریا
وفاقی ریاست باویریا میں سی ایس یو برسراقتدار ہے جس کے سربراہ ہورسٹ زیہوفر نئی جرمن حکومت میں وزیر داخلہ کا عہدہ سنبھال رہے ہیں۔ زیہوفر جرمن بھر سے تارکین وطن کی ملک بدری میں اضافہ کرنے کا عندیہ بھی دے چکے ہیں۔ گزشتہ برس ان کے صوبے میں پناہ کی درخواستیں قبول کیے جانے کی شرح 31.8 فیصد رہی۔
جرمن صوبے باڈن ورٹمبرگ کا شمار بھی ان جرمن صوبوں میں ہوتا ہے جہاں تارکین وطن کو پناہ ملنے کے امکانات کم ہیں۔ گزشتہ برس اس صوبے میں پناہ کی 37.7 فیصد درخواستیں قبول کی گئیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Schuldt
تھیورنگیا
گزشتہ برس وفاقی جرمن ریاست تھیورنگیا میں سیاسی پناہ کے 44.1 فیصد درخواست گزاروں کو پناہ ملی جب کہ دیگر درخواستیں مسترد کر دی گئیں۔
تصویر: epd-bild/M. Schuck
برلن
جرمن دارالحکومت برلن وفاقی ریاست بھی ہے۔ برلن میں گزشتہ برس 44.3 فیصد پناہ گزینوں کی درخواستیں منظور کی گئیں۔
تصویر: Imago/C. Mang
رائن لینڈ پلاٹینیٹ
اس وفاقی ریاست میں بھی سن 2017 کے دوران صرف 44.6 فیصد تارکین وطن کی پناہ کی درخواستیں منظور ہوئیں۔
تصویر: Fotolia/Matthias Wilm
نارتھ رائن ویسٹ فیلیا
آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے حصے میں دیگر صوبوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ تارکین وطن آئے۔ یہاں سیاسی پناہ کی درخواستوں کی منظوری کی شرح پینتالیس فیصد سے کچھ زائد رہی۔
تصویر: picture alliance/dpa/H. Ossinger
ہیمبرگ
جرمنی کے ساحلی شہر اور وفاقی ریاست ہیمبرگ میں قریب اڑتالیس فیصد پناہ کے درخواست گزاروں کو گزشتہ برس قیام کی اجازت ملی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Bildagentur-online
زیریں سیکسنی
گزشتہ برس جرمن صوبے زیریں سیکسنی میں 52.4 فیصد تارکین وطن کی پناہ کی درخواستیں منظور کی گئیں۔
تصویر: Fotolia/Thorsten Schier
شلسویگ ہولسٹائن
اس صوبے میں بھی زیریں سیکسنی کی طرح پناہ کی درخواستوں کی منظوری کی شرح 52.4 فیصد رہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ہیسے
وفاقی جرمن ریاست ہیسے میں بھی تارکین وطن کو پناہ دیے جانے کے امکانات کئی دیگر صوبوں کی نسبت زیادہ ہیں۔ گزشتہ برس اس صوبے نے پناہ کے 53.2 فیصد درخواست گزاروں کو پناہ دی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Rumpenhorst
بریمن
جرمنی کے شمال میں واقع شہر بریمن بھی برلن اور ہیمبرگ کی طرح وفاقی جرمن صوبہ بھی ہے۔ اس شمالی ریاست نے گزشتہ برس قریب ساٹھ فیصد تارکین وطن کی پناہ کی درخواستیں منظور کیں۔
تصویر: picture-alliance/K. Nowottnick
زارلینڈ
زارلینڈ جرمنی کے جنوب مغرب میں فرانسیسی سرحد کے قریب واقع ہے۔ گزشتہ برس یہاں تارکین وطن کو پناہ دیے جانے کی شرح تہتر فیصد رہی جو جرمنی کی دیگر ریاستوں کی نسبت سب سے زیاد ہے۔
اس وادی کے ڈوئس برگ شہر میں اس کی ایک مثال یہ ہے کہ یہ شہر جسے A40 موٹر وے دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے، یہاں شہر کا جنوبی حصہ صاف ستھرا اور عمدہ دکھائی دیتے ہیں اور ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز ہے، جب کہ شمالی حصے گندہ ہے اور وہاں پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام بھی نسبتا ناقص ہے۔
ایک ترک نژاد خاتون دکان دار گومیز کے مطابق، ’’ہماری اس صورت حال کو ایک طرح کے جرم کی علامت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، کیوں کہ ہم دیکھنے میں جرمن شہریوں کی طرح نہیں۔ ہمارے علاقے کو نوگو ایریا سمجھا جاتا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’میں یہاں پیدا ہوئی ہوں، میرے بچے یہاں پیدا ہوئے ہیں۔ میں جرمن ہوں۔‘‘
مگر یہ بداعتمادی بہت گہری ہے۔ اس شہر کا شمالی حصہ غیرملکیوں پس منظر کے حامل شہریوں اور جنوبی حصہ جرمنوں کی اکثریت کا حامل ہے۔ تاہم معاملہ یہیں تک محدود نہیں۔ ترکوں کی نگاہ میں، رومانیہ اور بلغاریہ سے تعلق رکھنے والے خطرہ ہیں، رومانیہ سے تعلق رکھنے والے کچھ افراد کے لیے شامی مہاجرین سے خطرات ہیں، جب کہ اس شہر کے باسی کے مطابق یہ سب امریکیوں کی وجہ سے شروع ہوا۔ اس علاقے میں انتہائی دائیں بازو کی جماعت الٹرنیٹیو فار جرمنی ’نفرت انگیزی سے متعلق بیانیوں کو اسلام کا چہرہ‘ بنا کر پیش کر رہی ہے۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رُوہر وادی کے صرف 37 فیصد باشندوں کی نگاہ میں اسلام کا جرمنی سے کوئی تعلق ہے۔ سن 2015ء میں اس علاقے میں اب بہت کم لوگ مسلمانوں کو دوست سمجھتے ہیں یا ’اسلام کو دیگر مذاہب کی طرح کا ایک مذہب‘ سمجھتے ہیں۔ یہاں کے باسیوں کی بڑی تعداد یہ سمجھتی ہے کہ ’اسلام خواتین کے ساتھ عدم مساوات‘ کا سبق دیتا ہے۔
غیر ملکیوں کو پُرکشش تنخواہ دیتے شہر
کیا آپ جاننا چاہتے ہیں کہ وہ کون سے شہر ہیں جو ہنر مند غیر ملکیوں کو سب سے زیادہ تنخواہ دیتے ہیں؟ HSBC Expat Explorer کی جانب سے دیئے گئے اعداد و شمار کی بنیاد پر مرتب کردہ دیکھئے یہ تصویری گیلری۔
تصویر: picture alliance/Robert Harding World Imagery
03۔ زیورخ، سوئٹزرلینڈ
سالانہ تنخواہ: 2,06,875 ڈالر
تصویر: AP
02۔ سان فرانسسکو۔ امریکا
سالانہ تنخواہ: 2,07,227 ڈالر
تصویر: picture-alliance/Global Travel Images
01 ۔ ممبئی، بھارت
سالانہ تنخواہ: 2,17,165
تصویر: picture alliance/prisma/R. Jose Fuste
13 تصاویر1 | 13
اس مطالعاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایسے جرمن باشندوں کی تعداد میں بہت بڑی کمی ریکارڈ کی گئی ہے، جو یہ سمجھتے ہیں کہ جرمنی پہنچنے والے تارکین وطن کی جرمن معاشرے میں انضمام کی کوششوں میں تیزی لانا چاہیے۔ یہ تعداد دو برس قبل 33 فیصد تھی جو اب کم ہر کر فقط 18 فیصد رہ گئی ہے۔
اس علاقے میں رہنے والے 49 فیصد افراد کا ماننا ہے کہ جرمن شہریوں اور مسلمانوں کا مل جل کر رہنا ’کسی حد تک مشکل‘ ہے جب کہ ماضی میں یہاں کے رہائشیوں کی بڑی تعداد یہ سمجھتی تھی کہ مسلمانوں اور جرمنوں کا ساتھ رہنا کوئی ’پیچیدہ معاملہ‘ نہیں۔