جرمنی میں اسلام کیسا ہے اور کیسا ہونا چاہیے: نئی بحث
مقبول ملک رچرڈ فُکس
16 جولائی 2018
جرمنی میں ایک نئی بحث زور پکڑتی جا رہی ہے کہ اس ملک میں بطور مذہب اسلام کیسا ہے اور کیسا ہونا چاہیے؟ جرمن وزارت داخلہ بڑی قدامت پسند مسلم تنظیموں کے اثر و رسوخ میں کمی چاہتی ہے جو کئی حلقوں کے مطابق اچھی بات نہیں ہو گی۔
اشتہار
جرمنی، جو یورپی یونین کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے، یورپ کی ان ریاستوں میں بھی شمار ہوتا ہے، جہاں مقامی آبادی میں مسلمانوں کی تعداد کئی ملین بنتی ہے اور اسلام مسیحیت کے بعد دوسرا بڑا مذہب بھی ہے۔ یہ بڑی تعداد بھی ایک وجہ ہے کہ جرمنی میں حکومت نے مسلم اقلیت کے بہتر سماجی انضمام اور مختلف معاشرتی امور پر مشاورت کے لیے اپنی میزبانی میں ایک ایسا پلیٹ فارم بھی قائم کر رکھا ہے، جو ’اسلام کانفرنس‘ کہلاتا ہے اور جس میں مقامی مسلمانوں کی نمائندہ کئی بڑی اور قدامت پسند تنظیمیں بھی شامل ہیں۔
اب برلن میں وفاقی وزارت داخلہ کی سوچ یہ ہے کہ اس ’اسلام کانفرنس‘ میں بہت منظم اور زیادہ تر قدامت پسند مسلم تنظیموں کا اثر و رسوخ بہت زیادہ ہے، جسے کم کیا جانا چاہیے۔ مقصد بظاہر یہ ہے کہ ترقی پسند اور لبرل سوچ کے حامل مسلمانوں اور ان کی نمائندہ تنظیموں کو بھی اس پلیٹ فارم پر مناسب نمائندگی ملنا چاہیے۔
لیکن اس سوچ کی مخالفت کرنے والے کئی حلقوں کے مطابق یہ نہ تو کوئی اچھا خیال ہے اور نہ ہی ایسا کرتے ہوئے جرمنی میں اسلام اور مسلمانوں کے لیے صورت حال کو مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
جرمنی کے موجودہ وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر ہیں، جو چانسلر میرکل کی پارٹی سی ڈی یو کی ہم خیال جماعت اور صوبے باویریا کی قدامت پسند پارٹی کرسچین سوشل یونین یا سی ایس یو کے سربراہ بھی ہیں۔ ہورسٹ زیہوفر کا خیال ہے کہ موسم گرما کے موجودہ وقفے کے بعد ’جرمن اسلام کانفرنس‘ کی ہیئت مختلف ہونا چاہیے۔ ’اسلام کانفرنس‘ کی میزبانی جرمن وزارت داخلہ اور ذاتی طور پر وفاقی وزیر داخلہ ہی کرتے ہیں۔
اس پس منظر میں وفاقی وزارت داخلہ میں ریاستی امور کے سیکرٹری مارکوس کَیربر نے جرمن اخبار ’بِلڈ‘ کو دیے گئے اپنے ایک حالیہ انٹرویو کے ساتھ اس وقت کافی ہلچل پیدا کر دی، جب انہوں نے کہا، ’’ہمیں ان مسلمانوں کو، جو مسلمانوں کی منظم ملکی تنظیموں کا حصہ نہیں ہیں، اور جرمنی میں مقامی شہریوں یا طویل عرصے سے مقیم تارکین وطن کے طور پر رہتے ہیں، اب تک کے مقابلے میں زیادہ تعداد میں ’اسلام کانفرنس‘ کے پلیٹ فارم پر لانا ہو گا۔‘‘
یورپ میں سب سے زیادہ مسلم آبادی والے ممالک
امریکی ریسرچ سنٹر PEW کے مطابق یورپ میں مسلم آبادی بڑھ رہی ہے۔ اس وقت یورپ میں مسلمانوں کی آبادی کی شرح 4.9 فیصد ہے جبکہ 2050ء تک یہ 7.5 فی صد تک پہنچ سکتی ہے۔ یورپ کے کن ممالک میں مسلمانوں کی کتنی تعداد آباد ہے؟
تصویر: Nikolay Doychinov/AFP/Getty Images
فرانس: 57.2 لاکھ
تصویر: AP
جرمنی: 49.5 لاکھ
تصویر: Getty Images/S. Gallup
برطانیہ: 41.3 لاکھ
تصویر: picture-alliance/empics/D. Dawson
اٹلی: 28.7 لاکھ
تصویر: Getty Images for Les Benjamins/S. Alemdar
ہالینڈ: 12.1 لاکھ
تصویر: AP
اسپین: 11.8 لاکھ
تصویر: picture-alliance/AA/E. Aydin
بیلجیم: 8.7 لاکھ
تصویر: picture-alliance/dpa/F.Sadones
سویڈن: 8.1 لاکھ
تصویر: Getty Images/AFP/A. Wiklund
بلغاریہ: 7.9 لاکھ
تصویر: Nikolay Doychinov/AFP/Getty Images
یونان: 6.2 لاکھ
تصویر: Getty Images/S. Gallup
10 تصاویر1 | 10
’اسلام کانفرنس‘ میں مرکزی کردار کس کا؟
اپنے اس موقف کے ساتھ جو کچھ مارکوس کَیربر نے نہیں کہا لیکن جو واضح طور پر ان کی مراد تھی، وہ یہ بات تھی کہ حکومت ’اسلام کانفرنس‘ میں قدامت پسند مسلم تنظیموں کے اثر و رسوخ کو کم کرنا چاہتی ہے۔ اسی سوچ کا دوسرا مطلب یہ ہو گا کہ مسلمانوں کی نمائندہ صرف ایسی قدامت پسند تنظیمیں ہی ’اسلام کانفرنس‘ جیسے پلیٹ فارم پر مرکزی اہمیت کی حامل نہ رہیں۔ پچھلے سال تک ’اسلام کانفرنس‘ میں زیادہ تر ایسی ہی قدامت پسند مسلم تنظیموں کو نمائندگی حاصل تھی۔
پھر اس سال مارچ میں کئی حلقوں نے یہ بھی کہا تھا کہ جرمنی میں اسلام تو بڑا متنوع اور کثیرالنسلی ہے، جس کی کئی جہتیں ہیں اور اس کی واحد اور غالب پہچان صرف قدامت پسندانہ ہی نہیں ہے۔ اسی طرح جرمنی میں آباد تارکین وطن کی کئی سیکولر تنظیموں نے تو یہ بھی کہہ دیا تھا کہ اگر ’اسلام کانفرنس‘ میں جلد اصلاحات نہ کی گئیں، تو یہ ریاست اور مسلمانوں کے ایک مشترکہ پلیٹ فارم کے طور پر ناکام ہو جائے گی۔
دوسری طرف بہت سے جرمن مسلم اور غیر مسلم حلقے اس بارے میں خبردار بھی کر رہے ہیں کہ مقامی مسلمانوں کی نمائندہ بڑی تنظیموں کو ان کی جائز حیثیت تسلیم کرنے کے بجائے مکالمت کی سطح پر مرکزی دھارے سے الگ کر دینا بالکل غلط ہو گا۔
اسلام مخالف سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے بارے میں اہم حقائق
مہاجرت اور اسلام مخالف سیاسی پارٹی متبادل برائے جرمنی ملکی سیاست میں ایک نئی قوت قرار دی جا رہی ہے۔ اس پارٹی کے منشور پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Weigel
مہاجرت مخالف
اے ایف ڈی کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں کو بند کر دینا چاہیے تاکہ غیر قانونی مہاجرین اس بلاک میں داخل نہ ہو سکیں۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملکی سرحدوں کی نگرانی بھی سخت کر دی جائے۔ اس پارٹی کا اصرار ہے کہ ایسے سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کو فوری طور پر ملک بدر کر دیا جائے، جن کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Schmuelgen
یورپی یونین مخالف
متبادل برائے جرمنی کا قیام سن دو ہزار تیرہ میں عمل میں لایا گیا تھا۔ اس وقت اس پارٹی کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ یورپی یونین کے ایسے رکن ریاستوں کی مالیاتی مدد نہیں کی جانا چاہیے، جو قرضوں میں دھنسی ہوئی ہیں۔ تب اس پارٹی کے رہنما بیرنڈ لوکے نے اس پارٹی کو ایک نئی طاقت قرار دیا تھا لیکن سن دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں یہ پارٹی جرمن پارلیمان تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
دائیں بازو کی عوامیت پسندی
’جرمنی پہلے‘ کا نعرہ لگانے والی یہ پارٹی نہ صرف دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں ہے بلکہ یہ ایسے افراد کو بھی اپنی طرف راغب کرنے کی خاطر کوشاں ہے، جو موجودہ سیاسی نظام سے مطمئن نہیں ہیں۔ کچھ ماہرین کے مطابق اے ایف ڈی بالخصوص سابق کمیونسٹ مشرقی جرمنی میں زیادہ مقبول ہے۔ تاہم کچھ جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پارٹی جرمنی بھر میں پھیل چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
علاقائی سیاست میں کامیابیاں
اے ایف ڈی جرمنی کی سولہ وفاقی ریاستوں میں سے چودہ صوبوں کے پارلیمانی اداروں میں نمائندگی کی حامل ہے۔ مشرقی جرمنی کے تمام صوبوں میں یہ پارٹی ایوانوں میں موجود ہے۔ ناقدین کے خیال میں اب یہ پارٹی گراس روٹ سطح پر لوگوں میں سرایت کرتی جا رہی ہے اور مستقبل میں اس کی مقبولیت میں مزید اضافہ ممکن ہے۔
تصویر: Reuters
نیو نازیوں کے لیے نیا گھر؟
اے ایف ڈی جمہوریت کی حامی ہے لیکن کئی سیاسی ناقدین الزام عائد کرتے ہیں کہ اس پارٹی کے کچھ ممبران نیو نازی ایجنڈے کو فروغ دے رہے ہیں۔ یہ پارٹی ایک ایسے وقت میں عوامی سطح پر مقبول ہوئی ہے، جب انتہائی دائیں بازو کے نظریات کی حامل پارٹیاں تاریکی میں گم ہوتی جا رہی ہیں۔ ان میں این پی ڈی جیسی نازی خیالات کی حامل پارٹی بھی شامل ہے۔
تصویر: picture alliance/AA/M. Kaman
طاقت کی جنگ
تقریبا پانچ برس قبل وجود میں آنے والی اس پارٹی کے اندر طاقت کی جنگ جاری ہے۔ ابتدائی طور پر اس پارٹی کی قیادت قدرے اعتدال پسندی کی طرف مائل تھی لیکن اب ایسے ارکان کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔ ناقدین کے مطابق اب اس پارٹی کے اہم عہدوں پر کٹر نظریات کے حامل افراد فائز ہوتے جا رہے ہیں۔ ان میں اس پارٹی کی موجودہ رہنما ایلس وائڈل بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler
پيگيڈا کے ساتھ ناخوشگوار تعلقات
اے ایف ڈی اور مہاجرت مخالف تحریک پیگیڈا کے باہمی تعلقات بہتر نہیں ہیں۔ پیگیڈا مشرقی جرمن شہر ڈریسڈن میں باقاعدہ بطور پر احتجاج کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ تاہم اے ایف ڈی نے پیگیڈا کے کئی حامیوں کی حمایت بھی حاصل کی ہے۔ تاہم یہ امر اہم ہے کہ پیگیڈا ایک سیاسی پارٹی نہیں بلکہ شہریوں کی ایک تحریک ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/S. Kahnert
میڈیا سے بے نیاز
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بریگزٹ رہنما نائیجل فاراژ کی طرح جرمن سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے رہنما بھی مرکزی میڈیا سے متنفر ہیں۔ اے ایف ڈی مرکزی میڈیا پلیٹ فارمز کے ساتھ دوستانہ تعلقات بنانے کے لیے کوشش بھی نہیں کرتی بلکہ زیادہ تر میڈیا سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات دینا بھی مناسب نہیں سمجھتی۔
تصویر: picture alliance/dpa/Aktivnews
8 تصاویر1 | 8
’اس وقت اس تجویز کی ضرورت کیا؟‘
جرمن شہر کولون میں مسلم خواتین کے ایک تربیتی مرکز کی سربراہ اور ڈائیلاگ فورم کی ایک سابقہ مشیر ایریکا تھائیسن وزارت داخلہ کی تجویز پر بے یقینی سے سر ہلائے بغیر نہ رہ سکیں۔ تین عشرے قبل اسلام قبول کر لینے والی اس جرمن شہری نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ’’اب اس تجویز کی کیا ضرورت تھی؟ کیا ملک میں اسلام کے بارے میں بحث اور سوچ پہلے ہی کافی حساس، زیادہ شدید اور پرجوش نہیں ہو چکی؟‘‘
برقعہ، حجاب اور نقاب، اسلام میں پردے کے مختلف رنگ
مذہبِ اسلام میں مسلمان عورتوں کو اپنا جسم ڈھانپنے کا حکم دیا گیا ہے۔ لیکن ایک عورت کو کتنا پردہ کرنا چاہیے؟ اس حوالے سے مسلمان علماء مختلف رائے بھی رکھتے ہیں۔ چند مذہبی ملبوسات اس پکچر گیلری میں دیکھے جاسکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
حجاب
زیادہ تر علما کی رائے میں حجاب جو کہ عورت کے سر اور گردن کو ڈھکتا ہے، عورتوں کو پہننا لازمی ہے۔ دنیا بھر میں مسلمان عورتیں مختلف ڈیزائنوں اور رنگوں کے حجاب پہننا پسند کرتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Martin
چادر
کئی مسلم ممالک میں چادر خواتین کے لباس کا اہم حصہ ہوتا ہے۔ پاکستان کے صوبے خیبر پختونخواہ، اور کچھ دیگر علاقوں میں عورتیں گھروں سے باہر چادر پہنے بغیر نہیں نکلتیں۔ چادر زیادہ تر سفید یا کالے رنگ کی ہوتی ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
نقاب
نقاب عورت کے چہرے کو چھپا دیتا ہے اور صرف آنکھیں نظر آتی ہیں۔ کئی مرتبہ نقاب کا کپڑا اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ عورت کی چھاتی اور کمر بھی ڈھک جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
عبایا
عبایا ایک کھلی طرز کا لباس ہے جس میں پورا جسم ڈھکا ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں مسلمان عورتیں مختلف رنگوں اور ڈیزائنوں کے عبایا زیب تن کرتی ہیں۔ مختلف موقعوں پر مختلف طرح کے عبایا پہنے جاتے ہیں۔ ان میں دیدہ زیب کڑھائی والے اور سادے، دونوں طرح کے عبایا شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Haider
برقعہ
برقعہ بھی عبایا کی ہی ایک قسم ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے کچھ حصوں میں ’ٹوپی برقعہ‘ پہنا جاتا ہے جس میں عورتیں آنکھوں کے سامنے والے کپڑے میں کچھ سوراخوں سے ہی باہر دیکھ سکتی ہیں۔
تصویر: AP
کوئی پردہ نہیں
بہت سی مسلمان عورتیں اپنے سر کو حجاب سے نہیں ڈھکتیں اور جدید ملبوسات پہننا پسند کرتی ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Konstantinidis
6 تصاویر1 | 6
ایریکا تھائیسن نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’مسلمانوں کی نمائندہ تنظیموں کو الگ تھلگ کر دینا، ایسا کرنا درست کس طرح درست ہو سکتا ہے؟ جو بھی مسلمان ہے اور اپنے عقیدے پر عمل کرتا ہے، اسے مساجد اور مقامی مساجد سے منسلک مسلم برادریوں کی ضرورت تو ہو گی۔ ’اسلام کانفرنس‘ ایک بین الامذاہبی مکالمتی پیلٹ فارم ہے۔ اس میں مسلمانوں کے اہم نمائندوں اور ان کے کردار کو نظر انداز کیسے کیا جا سکتا ہے؟‘‘
جرمنی میں مسلمانوں کے حقیقی نمائندے؟ ایک مستقل سوال
جرمنی میں اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے دو باتیں بہت اہم ہیں۔ ایک تو یہ کہ جرمنی میں اسلام سے متعلق ہر قسم کی ممکنہ اور تنقیدی بحث کے لیے سب سے اہم پلیٹ فارم ’اسلام کانفرس‘ ہی ہے۔ دوسرے یہ کہ جرمنی میں اسلام اور مسلمانوں کی نمائندگی کون کرتا ہے، اور کس کو کرنا چاہیے، یہ بھی عشروں سے ایک سوال رہا ہے، جس پر بحث مستقبل میں بھی جاری رہے گی۔
وفاقی چانسلر انگیلا میرکل کی رائے میں جرمنی میں مسلمان بھی جرمن معاشرے کا حصہ ہیں اور ان سے متعلقہ معاملات انہی کے نمائندوں سے مکالمت کے ذریعے طے کیے جانا چاہییں، نہ کہ اسلام کے نام پر جرمنی کے باہر سے کوئی ملک یا مذہبی مکتبہ فکر اس عمل میں کوئی مداخلت کرے۔
مسلمانوں کے لیے دس بہترین ممالک
اس برس کے ’گلوبل اسلامک اکانومی انڈیکس‘ میں دنیا کے تہتر ممالک کا حلال معیشت، خوراک، فیشن، سفر، ادویات و کاسمیٹکس اور میڈیا کے حوالے سے جائزہ لے کر درجہ بندی کی گئی ہے۔ مسلمانوں کے لیے دس بہترین ممالک یہ ہیں:
تصویر: Imago/J. Jeske
۱۔ ملائیشیا
ملائیشیا اس برس بھی اس درجہ بندی میں مجموعی طور پر 121 پوائنٹس حاصل کر کے سرفہرست رہا۔ ’اسلامی معیشت‘ کے حوالے سے بھی 189 پوائنٹس کے ساتھ یہ ملک پہلے نمبر پر جب کہ حلال سفر، حلال ادویات و کاسمیٹکس کے حوالے سے کی گئی درجہ بندی میں دوسرے نمبر پر ہے۔
تصویر: Imago/imagebroker
۲۔ متحدہ عرب امارات
چھیاسی پوائنٹس کے ساتھ متحدہ عرب امارات مسلمانوں کے لیے دوسرا بہترین ملک قرار دیا گیا۔ ’گلوبل اسلامک اکانومی انڈیکس 2016/17‘ میں متحدہ عرب امارات ’اسلامی معیشت‘ کے حوالے سے دوسرے نمبر پر، جب کہ حلال خوراک، حلال سفر، شائستہ فیشن، اور حلال میڈیا و تفریح کے حوالے سے پہلے نمبر پر رہا۔
تصویر: picture-alliance/Kai-Uwe Wärner
۳۔ بحرین
اس برس کے گلوبل اسلامک اکانومی انڈیکس میں چھاسٹھ کے اسکور کے ساتھ بحرین تیسرے نمبر پر ہے۔ اسلامی معیشت کے درجے میں بھی 90 پوائنٹس کے ساتھ بحرین تیسرے نمبر پر تاہم حلال خوراک کے اعتبار سے بحرین نویں نمبر پر ہے۔ حلال میڈیا و تفریح کے حوالے سے بحرین تیسرے نمبر پر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eid
۴۔ سعودی عرب
سعودی عرب مجموعی طور پر تریسٹھ پوائنٹس کے ساتھ اس فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے۔ حلال سفر کے حوالے سے سعودی عرب دسویں نمبر پر رہا تاہم شائستہ فیشن اور حلال میڈیا و تفریح کے اعتبار سے یہ ملک پہلے دس ممالک میں جگہ حاصل نہیں کر پایا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/SPA
۵۔ عمان
سعودی عرب کا ہمسایہ ملک عمان 48 کے مجموعی اسکور کے ساتھ اس برس کے ’گلوبل اسلامک اکانومی انڈیکس‘ میں پانچویں نمبر پر ہے۔ سعودی عرب ہی کی طرح عمان بھی شائستہ فیشن اور حلال میڈیا و تفریح کے اعتبار سے پہلے دس ممالک میں جگہ حاصل نہیں کر پایا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
۶۔ پاکستان
پاکستان اس انڈیکس میں چھٹے نمبر پر ہے اور اس کا مجموعی اسکور 45 ہے۔ گزشتہ برس کے انڈیکس میں پاکستان پانچویں پوزیشن پر تھا۔ تھامسن روئٹرز کی تیار کردہ اس رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ پاکستان میں اسلامی معیشت کے حوالے سے آگاہی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حلال خوراک کے درجے میں پاکستان تیسرے نمبر پر ہے لیکن حلال سفر، شائستہ فیشن اور حلال میڈیا و تفریح کے حوالے سے پاکستان پہلے دس ممالک میں شامل نہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T.Koene
۷۔ کویت
خلیجی ریاست کویت اس درجہ بندی میں 44 کے مجموعی اسکور کے ساتھ پاکستان سے ایک درجہ پیچھے یعنی ساتویں نمبر پر رہا۔ اسلامی معیشت کی درجہ بندی میں 51 کے اسکور کے ساتھ کویت عمان کے ساتھ مشترکہ طور پر پانچویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
۸۔ قطر
قطر کا مجموعی اسکور 43 ہے اور وہ اس فہرست میں آٹھویں نمبر پر ہے۔ تیل کی دولت سے مالامال دیگر خلیجی ممالک کی طرح قطر کی اسلامی معیشت اور حلال خوراک کے حوالے سے کارکردگی بھی اچھی رہی۔ سعودی عرب کے برعکس حلال میڈیا و تفریح کے حوالے سے قطر پہلے دس ممالک میں شامل ہے۔
تصویر: imago/imagebroker
۹۔ اردن
عرب ملک اردن 37 پوائنٹس کے ساتھ اس برس کے گلوبل اسلامک اکانومی انڈیکس میں نویں نمبر پر ہے۔ حلال سفر اور حلال ادویات و کاسمیٹکس کے اعتبار کے اردن کی کارکردگی بہتر رہی تاہم حلال خوراک کے حوالے سے اردن بھی پہلے دس ممالک کی فہرست میں شامل نہیں۔
تصویر: picture-alliance/blickwinkel/F. Neukirchen
۱۰۔ انڈونیشیا
گلوبل اسلامک اکانومی انڈیکس میں 36 پوائنٹس کے ساتھ انڈونیشیا دسویں نمبر پر ہے۔ اسلامی معیشت، حلال خوراک اور سفر کے اعتبار سے انڈونیشیا کی کارکردگی اچھی رہی۔ تاہم شائستہ فیشن اور حلال میڈیا و تفریح کے حوالے سے کئی دیگر مسلم اکثریتی ممالک کی طرح نمایاں نہیں رہی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Berry
یورپی ممالک شائستہ فیشن اور حلال تفریح میں نمایاں
گلوبل اسلامک اکانومی انڈیکس کے مطابق حلال میڈیا و تفریح کے درجے میں برطانیہ پانچویں، فرانس ساتویں اور جرمنی آٹھویں نمبر ہیں۔ شائستہ فیشن کے حوالے سے پہلے دس ممالک میں اٹلی پانچویں اور فرانس ساتویں نمبر پر ہیں۔