جرمنی میں غیر قانونی ہتھیاروں کے حامل افراد کو عام معافی دینے کے اعلان کے بعد جنوبی صوبے باویریا میں ایک سال میں 15 ہزار آتشیں ہتھیار پولیس کے حوالے کر دیے گئے۔
اشتہار
ماہرین کے مطابق غیر قانونی اسلحہ رکھنے والوں کے لیے اپنے ایسے ہتھیار جمع کرا دینے پر معافی کے حکومتی اعلان کے بعد ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہتھیار جمع کیے گئے۔ ایک برس کے لیے دی گئی اس عام معافی کی مدت یکم جولائی کو مکمل ہو گئی تھی، جب کہ صوبے باویریا کی وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ اس نے اس دوران تیرہ ہزار چار سو پچاسی آتشیں ہتھیار اور تیرہ سو اکہتر دیگر ہتھیار جمع کیے۔ تاہم ماضی میں ایسی مہم کے زیادہ بہتر نتائج سامنے آئے تھے۔
وزارتی بیان کے مطابق جمع کرائے گئے ہتھیاروں میں سے ایک تہائی سے زائد ایسے تھے، جو غیر قانونی طور پر رکھے گئے تھے، جب کہ 47 تو جنگی طرز کے ہتھیار تھے، جن پر جرمنی میں پابندی عائد ہے۔ بتایا گیا ہے کہ عام معافی کے اعلان کے بعد یہ ہتھیار مختلف افراد نے حکام اور پولیس کے حوالے کیے۔
اس عام معافی کے اعلان کے بعد باویریا میں جمع کرائے گئے ہتھیار جرمنی کی کسی بھی دوسری ریاست کے مقابلے میں چالیس فیصد زیادہ تھے۔
باویریا کے وزیر داخلہ یوآخم ہیرمان نے باویرین نشریاتی ادارے بی آر سے بات چیت میں کہا، ’’غیر قانونی ہتھیار یا ایسے ہتھیار جن کے مالک اب انہیں اپنے پاس رکھنا نہیں چاہتے، جمع کرائے گئے۔ ان میں سے بعض وہ بھی تھے، جو مختلف افراد کو ورثے میں ملے تھے۔ وہ تمام ہتھیار، جو محفوظ ہاتھوں میں نہیں، وہ جمع کرائے جانا چاہییں۔ اس لیے باویریا میں ہمیں اس معاملے میں بڑی کامیابی حاصل ہوئی ہے۔‘‘
بھاری اسلحے کے سب سے بڑے خریدار
سویڈش تحقیقی ادارے ’سپری‘ کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں کے دوران عالمی سطح پر اسلحے کی خرید و فروخت میں دس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس عرصے میں سب سے زیادہ اسلحہ مشرق وسطیٰ کے ممالک میں درآمد کیا گیا۔
تصویر: Pakistan Air Force
1۔ بھارت
سب سے زیادہ بھاری ہتھیار بھارت نے درآمد کیے۔ سپری کی رپورٹ بھارت کی جانب سے خریدے گئے اسلحے کی شرح مجموعی عالمی تجارت کا تیرہ فیصد بنتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Khan
2۔ سعودی عرب
سعودی عرب دنیا بھر میں اسلحہ خریدنے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔ سپری کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں کے دوران سعودی عرب کی جانب سے خریدے گئے بھاری ہتھیاروں کی شرح 8.2 فیصد بنتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS.com
3۔ متحدہ عرب امارات
متحدہ عرب امارات بھی سعودی قیادت میں یمن کے خلاف جنگ میں شامل ہے۔ سپری کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں کے دوران متحدہ عرب امارات نے بھاری اسلحے کی مجموعی عالمی تجارت میں سے 4.6 فیصد اسلحہ خریدا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Emirates News Agency
4۔ چین
چین ایسا واحد ملک ہے جو اسلحے کی درآمد اور برآمد کے ٹاپ ٹین ممالک میں شامل ہے۔ چین اسلحہ برآمد کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے لیکن بھاری اسلحہ خریدنے والا دنیا کا چوتھا بڑا ملک بھی ہے۔ کُل عالمی تجارت میں سے ساڑھے چار فیصد اسلحہ چین نے خریدا۔
تصویر: picture-alliance/Xinhua/Pang Xinglei
5۔ الجزائر
شمالی افریقی ملک الجزائر کا نمبر پانچواں رہا جس کے خریدے گئے بھاری ہتھیار مجموعی عالمی تجارت کا 3.7 فیصد بنتے ہیں۔ پاکستان کی طرح الجزائر نے بھی ان ہتھیاروں کی اکثریت چین سے درآمد کی۔
تصویر: picture-alliance/AP
6۔ ترکی
بھاری اسلحہ خریدنے والے ممالک کی اس فہرست میں ترکی واحد ایسا ملک ہے جو نیٹو کا رکن بھی ہے۔ سپری کے مطابق ترکی نے بھی بھاری اسلحے کی کُل عالمی تجارت کا 3.3 فیصد حصہ درآمد کیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. Ozbilici
7۔ آسٹریلیا
اس فہرست میں آسٹریلیا کا نمبر ساتواں رہا اور اس کے خریدے گئے بھاری ہتھیاروں کی شرح عالمی تجارت کا 3.3 فیصد رہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Nearmy
8۔ عراق
امریکی اور اتحادیوں کے حملے کے بعد سے عراق بدستور عدم استحکام کا شکار ہے۔ عالمی برادری کے تعاون سے عراقی حکومت ملک میں اپنی عملداری قائم کرنے کی کوششوں میں ہے۔ سپری کے مطابق عراق بھاری اسلحہ خریدنے والے آٹھواں بڑا ملک ہے اور پاکستان کی طرح عراق کا بھی بھاری اسلحے کی خریداری میں حصہ 3.2 فیصد بنتا ہے۔
تصویر: Reuters
9۔ پاکستان
جنوبی ایشیائی ملک پاکستان نے جتنا بھاری اسلحہ خریدا وہ اسلحے کی کُل عالمی تجارت کا 3.2 فیصد بنتا ہے۔ پاکستان نے سب سے زیادہ اسلحہ چین سے خریدا۔
تصویر: Aamir Qureshi/AFP/Getty Images
10۔ ویت نام
بھاری اسلحہ خریدنے والے ممالک کی فہرست میں ویت نام دسویں نمبر پر رہا۔ سپری کے مطابق اسلحے کی عالمی تجارت میں سے تین فیصد حصہ ویت نام کا رہا۔
واضح رہے کہ سن 2009ء میں بھی اسی طرح ہتھیاروں سے متعلق ایک برس کی عام معافی کا اعلان کیا گیا تھا۔ تب جرمنی بھر میں دو لاکھ سے زائد ہتھیار جمع کیے گئے تھے، جن میں سے ایک چوتھائی غیرقانونی تھے۔ باویریا صوبے میں 34 ہزار ہتھیار حکام کے حوالے کیے گئے تھے۔ جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں تب چالیس ہزار ہتھیار جمع کرائے گئے تھے، تاہم اس مرتبہ اس صوبے سے عام شہریوں کی طرف سے فقط ساڑھے پانچ ہزار ہتھیار جمع کرائے گئے۔