جرمنی میں متعین امريکی سفیر رچرڈ گرینل اپنے منصب سے دستبردار ہو گئے ہیں۔ گرینل کے مستعفی ہونے کی خبریں گزشتہ کئی ہفتوں سے گردش میں تھیں۔
اشتہار
جرمن دارالحکومت برلن میں دو برس تک جارحانہ انداز میں سفارتی سرگرمیاں جاری رکھنے والے امریکی سفیر رچرڈ گرینل نے اپنے منصب سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ امریکی وزارتِ خارجہ نے بھی اس تناظر میں جاری ہونے والے بیان میں کہا کہ سفیر رچرڈ گرینل یکم جون سے اپنے منصب سے مستعفی ہو گئے ہیں۔ برلن میں امریکی سفارت خانے کے ڈپٹی چیف مشن رابن کوئن وِل نے قائم مقام سفیر کی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں۔ وہ نئے سفیر کی باضابطہ تقرری تک یہ منصب سنبھالے رکھیں گے۔
ٹرمپ انتظامیہ میں ایسا تاثر پایا جاتا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ مستعفی ہونے والے سفیر رچرڈ گرینل کو اپنی کابینہ میں جگہ دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ بعض تجزیہ کاروں کے مطابق سفارت چھوڑنے والے گرینل کو امریکی صدر کی جانب سے کابینہ کا منصب ایک تحفہ ہو گا۔ رواں برس فروری سے ٹرمپ نے مستعفی ہونے والے سفیر کو قائم مقام ڈائریکٹر نیشنل انٹیلیجنس مقرر کر رکھا ہے۔ جوزف میگوائر کے استعفے کے بعد نیشنل انٹیلیجنس کا عہدہ خالی تھا۔
جرمنی میں قیام کے دوران رچرڈ گرینل کی عدم تعاون کی حامل جارحانہ سفارت کاری کے انداز نے انہیں سفارتی حلقے میں کوئی نیک نامی نہیں دی تھی۔ اس انداز میں وہ کئی مرتبہ برلن حکومت کی پالیسیوں پر کڑی تنقید بھی کرتے رہے۔ وہ ملکی صدر ڈونلد ٹرمپ کے ایک انتہائی وفادار ساتھی تھے اور برلن میں قیام کے دوران مسلسل اپنے صدر کے بیانیے 'اول امریکا‘ کی زور شور سے ترجمانی کرتے رہے تھے۔
اسی طرح رچرڈ گرینل ایسے بیان دہرانے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے جن میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جرمنی پر تنقید شامل ہوتی تھی۔ اس تناظر میں خاص طور پر جرمنی کے دفاعی اخراجات کے علاوہ اس کی روس کے تعاون سے تعمیر کی جانے والی گیس پائپ لائن نارڈ اسٹریم ٹُو پراجیکٹ اور ایرانی جوہری ڈیل پر برلن حکومت کے موقف پر ٹرمپ کی تنقید اور پھر سابق سفیر رچرڈ گرینل کا اسے مختلف اوقات پر دہرانا اہم تھا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے جرمنی کے بارے میں بیانات
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جرمنی کی تعریف بھی کر چکے ہیں اور جرمنی پر تنقید بھی کر چکے ہیں۔ انہوں نے چانسلر میرکل کو ’عظیم‘ بھی کہا ہے اور ان کا یہ دعوی بھی ہے کہ برلن حکومت امریکا کی ’مقروض‘ ہے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/C. May
کبھی ایسا تو کبھی ویسا
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2015ء میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے مہاجرین کے لیے سرحدیں کھولنے کے فیصلے کو ایک بہت بڑی غلطی سے تعبیر کیا تھا۔ وہ جرمنی کی پالیسیوں پر تنقید بھی کرتے رہے ہیں اور کبھی ان حق میں بیان بھی دیتے رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/C. May
’عظیم‘
ٹرمپ نے 2015ء میں اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ جرمنی خاموشی سے رقم جمع کرنے اور دنیا کی ایک عظیم رہنما میرکل کے سائے میں قسمت بنانے میں لگا ہوا ہے۔
تصویر: Picture alliance/AP Photo/M. Schreiber
بہت برا
’’جرمن برے ہوتے ہیں، بہت ہی برے۔ دیکھو یہ امریکا میں لاکھوں گاڑیاں فروخت کرتے ہیں۔ افسوس ناک۔ ہم اس سلسلے کو ختم کریں گے۔‘‘ جرمن جریدے ڈیئر شپیگل کے مطابق ٹرمپ نے یہ بیان مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے ایک سربراہ اجلاس کے دوران دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP/E. Vucci
کچھ مشترک بھی
ٹرمپ نے مارچ میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا، ’’ ٹیلفون سننے کی بات ہے، تو میرے خیال میں جہاں تک اوباما انتظامیہ کا تعلق تو یہ چیز ہم میں مشترک ہے۔‘‘ ان کی اشارہ ان الزامات کی جانب تھا، جو وہ ٹیلیفون سننے کے حوالے سے اوباما انتظامیہ پر عائد کرتے رہے ہیں۔ 2013ء میں قومی سلامتی کے امریکی ادارے کی جانب سے میرکل کے ٹیلیفون گفتگو سننے کے واقعات سامنے آنے کے بعد جرمنی بھر میں شدید و غصہ پایا گیا تھا۔
تصویر: Picture alliance/R. Sachs/CNP
غیر قانونی
’’میرے خیال میں انہوں نے ان تمام غیر قانونی افراد کو پناہ دے کر ایک بہت بڑی غلطی کی ہے۔ ان تمام افراد کو، جن کا تعلق جہاں کہیں سے بھی ہے‘‘۔ ٹرمپ نے یہ بات ایک جرمن اور ایک برطانوی اخبار کو مشترکہ طور پر دیے جانے والے ایک انٹرویو میں کہی۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
’مقروض‘ جرمنی
ٹرمپ نے 2017ء میں میرکل سے پہلی مرتبہ ملنے کے بعد کہا تھا، ’’جعلی خبروں سے متعلق آپ نے جو سنا ہے اس سے قطع نظر میری چانسلر انگیلا میرکل سے بہت اچھی ملاقات ہوئی ہے۔ جرمنی کو بڑی رقوم نیٹو کو ادا کرنی ہیں اور طاقت ور اور مہنگا دفاع مہیا کرنے پر برلن حکومت کی جانب سے امریکا کو مزید پیسے ادا کرنے چاہیں۔‘‘
تصویر: Picture alliance/dpa/L. Mirgeler
منہ موڑنا
امریکی صدر نے جرمن حکومت کے داخلی تناؤ کے دوران اپنی ایک ٹوئٹ میں لکھا، ’’جرمن عوام تارکین وطن کے بحران کے تناظر میں، جس نے مخلوط حکومت کو مشکلات کا شکار کیا ہوا ہے، اپنی قیادت کے خلاف ہوتے جا رہے ہیں۔ جرمنی میں جرائم کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ لاکھوں افراد کو داخل کر کے یورپی سطح پر بہت بڑی غلطی کی گئی ہے، جس سے یورپی ثقافت پر بہت تیزی سے تبدیل ہو گئی ہے۔‘‘