جرمنی میں امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتے ہوئے، نئی رپورٹ
14 مئی 2021
جرمنی میں ایک نئی سرکاری رپورٹ سے واضح ہو گیا ہے کہ ملک میں سماجی عدم مساوات کے باعث پیدا شدہ خلیج کتنی بڑی ہے۔ رپورٹ کے مطابق یورپی یونین کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک میں امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔
اشتہار
جمیلہ کورودس ایک ایسی باہمت خاتون ہیں، جو ایک باقاعدہ تربیت یافتہ سیلز وومین ہیں۔ انہوں نے ابھی حال ہی میں جرمن نشریاتی ادارے اے آر ڈی کے ایک پروگرام میں شرکت کی، جس کا موضوع تھا: ''محنت کے باوجود غریب، کیا سماجی ترقی ایک کھوکھلا وعدہ بنتی جا رہی ہے؟‘‘
بے گھر، کھانے پینے میں بچت اور بچوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بھی پیسے نہیں۔ اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو جرمنی میں ہر تیسرا شہری غربت سے متاثر ہے۔ ایسے افراد کی کہانیاں تصویروں کی زبانی۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
غیر یقینی مستقبل
یہ تصویر جرمن وفاقی ریاست اور شہر بریمن کے غریب ترین سمجھے جانے والے علاقے کی ہے۔ بریمن میں ہر پانچویں شخص کو غربت کے خطرات لاحق ہیں۔ جرمنی میں غریب اسے تصور کیا جاتا ہے جس کی ماہانہ آمدنی درمیانے درجے کے جرمن شہریوں کی اوسط آمدنی سے ساٹھ فیصد سے کم ہو۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
بھوک کے خلاف جنگ
بریمن میں تین ایسی غیر سرکاری تنظیمیں بھی سرگرم ہیں جنہوں نے غربت اور بھوک کے خلاف جنگ شروع کر رکھی ہے۔ یہ ادارے سپر مارکیٹوں اور بیکریوں سے بچا ہوا کھانا اور اشیائے ضرورت جمع کر کے ضرورت مند افراد میں تقسیم کرتے ہیں۔ ایسی ایک تنظیم ہر روز قریب سوا سو افراد کو کھانا مہیا کرتی ہے۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
نسلی تفریق سے بالاتر
جرمن شہر ایسن میں ایک نجی تنظیم نے غیر ملکی افراد کو مفت خوراک مہیا نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس پر شدید تنقید سامنے آنے کے بعد انہیں فیصلہ تبدیل کرنا پڑا۔ بریمن میں سرگرم تنظیموں کا تاہم کہنا ہے کہ وہ ہر رنگ اور نسل سے تعلق رکھنے والے غریب افراد کی مدد کرتے ہیں۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
بوڑھے بھی پیش پیش
اسی سالہ ویرنر ڈوزے رضاکارانہ طور پر غریبوں کو خوراک مہیا کرنے والی تنظیم بریمنر ٹافل کے لیے کام کرتے ہیں۔ کئی افراد ایک یورو فی گھنٹہ اجرت کے عوض اور بہت سے رضاکار طالب علم بھی ’غربت کے خلاف جنگ‘ کا حصہ ہیں۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
ہالے میں اجڑے گھر
مشرقی جرمنی میں ہالے شہر کی رونقیں قابل دید تھیں لیکن اب ہالے نوئے اسٹڈ کا علاقہ ویرانی کا منظر پیش کرتا ہے۔ ہالے میں بے روزگاری کی شرح بھی زیادہ ہے اور روزگار ملنے کے امکانات بھی کم ہیں۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
محروم طبقے کی مدد
ہالے میں محروم ترین طبقے کی مدد کے لیے انہیں کم داموں پر اشیائے خورد و نوش اور کپڑے فراہم کیے جاتے ہیں۔ ان ’سوشل مارکیٹوں‘ میں محروم ترین طبقے سے تعلق رکھنے والے بچوں اور معمر افراد کو ترجیحی بنیادوں پر یہ اشیا فراہم کی جاتی ہیں لیکن غریب ترین جرمن شہر ہالے میں ضرورت مندوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
’زیادہ تر خریدار غیر ملکی‘
یہ تصویر ایک ایسے اسٹور کی ہے جہاں گھر کی اشیا سستے داموں فراہم کی جاتی ہیں۔ اسٹور کے ملازم کا کہنا ہے کہ خریداروں کی اکثریت غیر ملکیوں اور مہاجرین کی ہوتی ہے۔ ان کے بقول غریب جرمن شہری شاید استعمال شدہ اشیا خریدنے میں شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
غربت میں پروان چڑھتے بچے
جرمنی میں قریب ایک ملین بچے غربت کا شکار ہیں۔ ایسے بچے نہ تو سالگرہ کی تقریبات منا پاتے ہیں، نہ کھیلوں کے کلبوں کا رخ کر سکتے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں ہر ساتواں بچہ حکومت کی فراہم کردہ سماجی امداد کا محتاج ہے۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
’کوئی بچہ بھوکا نہ رہے‘
’شنٹے اوسٹ‘ نامی ایک تنظیم چھ سے پندرہ برس عمر کے پچاس بچوں کو اسکول کے بعد کھانا مہیا کرتی ہے۔ ادارے کی ڈائریکٹر بیٹینا شاپر کہتی ہیں کہ کئی بچے ایسے ہیں جنہیں ایک وقت کے لیے بھی گرم کھانا دستیاب نہیں ہوتا۔ اس تنظیم کی خواہش ہے کہ کوئی بچہ گھر بھوکا نہ جائے۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
’ہم ایک خاندان ہیں‘
بیٹینا شاپر کا کہنا ہے کہ ضرورت مند بچوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جن میں مہاجر بچوں کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ ان کی تنظیم بچوں کو کھانا مہیا کرنے کے علاوہ ہوم ورک اور روز مرہ کے کاموں میں بھی معاونت فراہم کرتی ہے۔ دانت صاف کرنے کا درست طریقہ بھی سکھایا جاتا ہے۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
بڑھتی تنہائی
ایک اندازے کے مطابق قریب چھ ہزار بے گھر افراد برلن کی سڑکوں پر سونے پر مجبور ہیں۔ جرمن دارالحکومت کے ساٹھ فیصد بے گھر افراد غیر ملکی ہیں اور ان کی اکثریت کا تعلق مشرقی یورپی ممالک سے ہے۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
بے گھروں کے چکنا چور خواب
ایک حادثے میں یورگ کی ایک ٹانگ ضائع ہو گئی تھی اور وہ گزشتہ چھ برس سے بے گھر ہے۔ یورگ کا کہنا ہے کہ برلن میں بے گھر افراد کی تعداد بڑھنے کے ساتھ ساتھ ایسے افراد میں آپسی مقابلہ بھی بڑھ رہا ہے۔ تعمیر کے فن میں مہارت رکھنے والے اڑتیس سالہ یوگ کی خواہش ہے کہ کسی دن وہ دوبارہ ڈرم بجانے کے قابل ہو پائے۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
12 تصاویر1 | 12
جمیلہ کوردوس اپنے بچوں کے ساتھ اکیلی رہتی ہیں اور انہیں تقریباﹰ ہمیشہ ہی مالی وسائل کی کمی کا سامنا رہتا ہے۔
وہ ایک بڑے آن لائن شاپنگ سٹور کے ویئر ہاؤس میں کلرک کی کل وقتی ملازمت کرتی ہیں مگر ان کے پاس ہر ماہ ادا کیے جانے والے لازمی اخراجات کے بعد گزر بسر کے لیے صرف تقریباﹰ 500 یورو (610 ڈالر) ہی بچتے ہیں۔
اس جرمن خاتون کارکن کو شکایت یہ ہے کہ جرمنی میں کام کرنے کے باوجود غریب رہنا روزمرہ کی کڑوی حقیقت بنتا جا رہا ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ اسی بات کی ایک ایسی سرکاری رپورٹ بھی تصدیق کرتی ہے، جو ملک میں غربت سے متعلق جرمن وزارت محنت نے حال ہی میں جاری کی۔
اس رپورٹ کے اجراء سے پہلے اس کی چانسلر انگیلا میرکل کی سربراہی میں وفاقی جرمن کابینہ نے منظوری بھی دے دی۔ اس سرکاری رپورٹ میں سامنے آنے والے حقائق پر جرمن پارلیمان بنڈس ٹاگ میں بحث اگلے ماہ جون میں ہو گی۔
امسالہ رپورٹ 500 صفحات پر مشتمل ہے اور ایسی ایک رپورٹ جرمن وزارت محنت کی طرف سے ہر چار سال بعد تیار کی جاتی ہے۔
پریشانی و آلام کے شکار معصوم فرشتے
اس برس عالمی یوم اطفال سے قبل شائد ہی اتنے بڑی تعداد میں بچوں نے جنگوں اور غربت سے فرار ہونے کی کوشش کی ہو۔
تصویر: Reuters/A. Sotunde
غیر یقینی مستقبل
عراق میں فعال انتہا پسند گروپ ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی دہشت گردی سے بچنے کے لیے ہزاروں ایزدی بچے بھی رواں برس بے گھر ہو گئے۔ کوئی نہیں جانتا کہ یہ بچے کب واپس گھروں کو لوٹ سکیں گے۔ عراق سے متصل ترک سرحد پر واقع ایک کیمپ میں ایک ایزدی بچے کی آنکھوں میں بھی غیر یقینی کی جھلک نمایاں ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کھیلنے کے بجائے کام کاج
جرمنی میں مہاجرین کی اچانک آمد کے بعد اِن مہاجرین کو ہنگامی شیلٹر سینٹرز میں رکھا گیا ہے۔ جرمن صوبے باویریا کے ایک قصبے میں ایک بچہ رات کے لیے بستر بچھانے کی کوشش میں ہے۔ ان تنازعات نے بچوں سے ان کا پچپن بھی چھین لیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Ebener
بہتر مستقبل کے لیے پرامید
اگرچہ یہ بچی یونان اور مقدونیہ کے سرحدی علاقے میں پھنسی ہوئی ہے لیکن پھر بھی اس معصوم بچی کا عزم دیکھا جا سکتا ہے۔ گزشتہ کچھ ہفتوں کے دوران ہزاروں افراد اسی علاقے سے ہوتے ہوئے سربیا داخل ہونے میں کامیاب ہوئے، جن کی اگلی منزل ہنگری تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Vojinovic
تھکن سے بے دھت
کچھا کھچ بھری ٹرین، جو بوڈاپسٹ سے میونخ کے لیے رواں تھی، اس میں مہاجر بچوں کو جہاں جگہ ملی، وہیں سو گئے۔ براستہ بلقان مغربی یورپ پہنچنے کی کوشش میں یہ بہت تھک چکے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/V. Simicek
جنگوں سے فرار کی کوشش
عرب ممالک میں غریب ترین تصور کیا جانے والا ملک یمن اس وقت شدید بحران کا شکار ہے۔ ہزاروں افراد اپنے بچوں اور املاک کے ساتھ وہاں جاری جنگ سے فرار کی کوشش میں ہیں۔ اس تنازعے میں ہزاروں افراد مارے جا چکے ہیں، جن میں بچوں کی ایک بڑی تعداد بھی شامل ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
خوارک کے لیے قطاریں
عالمی مدد کے بغیر شام میں بہت سے افراد زندگی سے شکست کھا سکتے ہیں۔ یہ بچے بے صبری سے منتظر ہیں کہ انہیں کھانے کو کچھ مل جائے۔ اِدلب میں قائم ایک کیمپ میں شامی بچوں کے لیے خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں۔
تصویر: picture alliance/abaca
جنگ سے امن تک
تنازعات سے بچ کر یورپ پہنچنے والے بچے اور بالغ افراد وہاں کے نئے نظام سے بھی کچھ پریشان ہیں۔ ٹکٹ کیسی خریدی جائے اور سفر کیسے کیا جائے، یہ بھی ان کے لیے ایک مسئلہ ہے۔ اس تصویر میں زیریں سیکسنی کے ٹرانسپورٹ منسٹر تھوماس ویبل کچھ بچوں کو ٹکٹ مشین استعمال کرنے کا طریقہ بتا رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Schmidt
آگے بڑھنا ہے
عالمی ادارہ برائے مہاجرت کے مطابق رواں سال افریقہ سے بحیرہ روم کے راستے یورپی ملک اٹلی پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد ایک لاکھ اکیس ہزار بنتی ہے۔ اس کوشش میں چھبیس سو افراد مارے بھی گئے۔ اٹلی پہنچنے والے مہاجرین آگے شمالی یورپی ممالک جانا چاہتے ہیں، اس لیے ان بچوں کے لیے لامپے ڈوسا کا جزیرہ صرف ایک عارضی مقام ہے۔
تصویر: Reuters/A. Bianchi
بچوں کی توجہ بٹانے کی کوشش
اسکولوں کی سرگرمیوں کی وجہ سے بچوں کا دھیان بٹانے میں مدد مل سکتی ہے۔ یہ میانمار میں مہاجرین کا ایک کیمپ ہے، جہاں بے گھر ہونے والے روہنگیا مسلمانوں کے بچوں کے لیے ایک اسکول بھی قائم کیا گیا ہے۔ وہاں بچوں کے ذہنوں سے تشدد کے اثرات مٹانے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Win
بچوں کا فوجی مقاصد کے لیے استعمال
براعظم افریقہ کے بہت سے تنازعات میں بچوں کو بھی لڑنے کی تربیت دی جاتی رہی ہے۔ مشکل ہے کہ وہاں بچے اور نو عمر لڑکے ملیشیا گروہوں کے چنگل میں آنے سے بچ نہیں سکتے۔ وسطی افریقی جمہوریہ کے تنازعے میں بھی بچوں کو فوجی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
تصویر: Reuters/E. Braun
بوکو حرام کی تباہ کاریاں
انتہا پسند گروپ بوکو حرام نے بالخصوص شمالی نائجیریا اور ہمسایہ ممالک میں ایک دہشت قائم کر رکھی ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسف کے مطابق ان شدت پسندوں کی وجہ سے چودہ لاکھ بچے بے گھر ہو چکے ہیں۔ نائجیریا کے ایک مہاجر کیمپ میں بھوکے بچے تنازعات سے ماوراء ہو کر اپنی بھوک مٹانے کی کوشش میں ہے۔
تصویر: Reuters/A. Sotunde
11 تصاویر1 | 11
تازہ ترین رپورٹ جن پریشان کن حقائق کی تصدیق کرتی ہے، ان میں یہ بات بھی شامل ہے: جرمنی میں امیر اور غریب کے درمیان خلیج اتنی تیزی سے وسیع ہوتی جا رہی ہے کہ امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتے جا رہے ہیں اور اس تفریق میں کورونا وائرس کی عالمی وبا کی وجہ سے مزید شدت آ گئی ہے۔‘‘
اس رپورٹ کے اجراء کے بعد جرمن اپوزیشن سیاسی جماعتوں، ٹریڈ یونینوں اور سماجی فلاحی تنظیموں نے خطرے کی گھنٹیاں بجانا شروع کر دی ہیں۔
جرمنی میں سماجی فلاحی اور خیراتی اداروں کی نمائندہ سب سے بڑی ملکی تنظیم کے محقق اور اس ادارے کے روزگار سے متعلقہ امور کے شعبے کے سربراہ یوآخم روک کہتے ہیں، ''یہ رپورٹ اس امر کا ثبوت ہے کہ سماجی عدم مساوات سے پیدا ہونے والے بحران نے غریب ترین شہریوں کو ہی سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔‘‘
یوآخم روک نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت میں کہا، ''کورونا وائرس کی عالمی وبا اور اس کی وجہ سے پیدا شدہ بحرانی حالات نے ثابت کر دیا ہے کہ کم آمدنی والے باشندوں کو ہی سب سے زیادہ خطرہ رہا کہ وہ اپنے روزگار اور یوں اپنی آمدنی سے محروم ہو جائیں۔ اس کے برعکس امراء کو اس حوالے سے بہت ہی کم جدوجہد کرنا پڑی۔‘‘
اشتہار
جرمنی میں غریب کس کو کہتے ہیں؟
جرمنی میں غریب ہونے کا معیار یہ ہے کہ کسی شہری کی ماہانہ آمدنی ملک میں ایک عام کارکن کی بعد از ٹیکس ماہانہ اوسط آمدنی کے 60 فیصد سے کم ہو۔ اس وقت یہ رقم 1176 یورو (1429 ڈالر) ماہانہ کے برابر بنتی ہے۔
اس کے برعکس یورپی یونین کے اس سب سے زیادہ آبادی والے ملک میں امیر ہر اس شہری کو گنا جاتا ہے، جس کی بعد از ٹیکس ماہانہ آمدنی 3900 یورو سے زیادہ ہو۔ لیکن دوسری طرف جرمنی کے بہت امیر شہریوں میں ملک بھر میں سپر مارکیٹوں کے سلسلے Lidl کے مالک ڈیٹر شوارٹس جیسے شہری بھی شامل ہیں، جن کی نجی دولت کا اندازہ 20 بلین یورو سے زیادہ لگایا جاتا ہے۔
نئی سرکاری رپورٹ کے مطابق ملک میں امیری اور غریب کے مابین خلیج وسیع ہوتی جا رہی ہے۔ یہ سلسلہ گزشتہ کئی برسوں سے جاری ہے۔ رپورٹ کے مطابق جرمنی میں امیر اور غریب شہریوں دونوں ہی کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اس کے برعکس اسی وسیع ہوتی ہوئی خلیج کا ایک دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ ملک میں متوسط مالی طبقے کے شہریوں کی تعداد پہلے کی طرح آج بھی کم ہوتی جا رہی ہے۔
م م / ع ح (فولکر وِٹِنگ)
سونے کی سب سے بڑی کان کے سامنے سسکتی غربت
دنیا میں سونے کی سب سے بڑی کان انڈونیشیا میں واقع ہے۔ ’گراس برگ‘ نامی اس کان سے سونا نکال کر باقی فضلے کو دریا میں بہا دیا جاتا ہے۔ کامورو قبیلے کے غریب افراد اس گندگی سے سونا چھاننے کی کوشش میں جتے رہتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/U. Ifansasti
سونے کی چمک
انڈونیشی حکومت گراس برگ کی کان سے سالانہ 70 بلین ڈالر کماتی ہے لیکن اس کے آس پاس رہنے والے ’ایکوا‘ دریا سے مچھلیاں پکڑ کر یا پھر کان سے دریا میں پھینکی جانے والی گندگی سے سونے کے ذرات چن کر اپنا پیٹ پالتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/U. Ifansasti
چراغ تلے اندھیرا
ایکوا دریا سے سونا نکالنے کے چکر میں دور دراز علاقوں سے آئے ہوئے لوگ بھی یہاں بس گئے ہیں۔ تاہم ستر بلین ڈالر کی حکومتی آمدنی میں یہاں کے رہنے والوں کا حصہ بہت کم ہے۔
تصویر: Getty Images/U. Ifansasti
اونچی دکان پھیکا پکوان
یہاں کے مقامی باشندوں کو کان کی توسیع کے باعث بے گھر ہونا پڑا۔ سونے کی کھدائی کا کام کرنے والی ’فری پورٹ‘ کمپنی کے مطابق اِس نے 30،000 لوگوں کو ملازمت دی ہے تاہم مقامی رہائشیوں کی تعداد اب بھی محض تیس فیصد ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/O. Rondonuwu
انڈونیشیا تانبے کی پیداوار میں بھی آگے
سونے کی سب سے بڑی کان کا مالک ہونے کے ساتھ ساتھ انڈونیشیا تانبے کی معدنیات کے حوالے سے بھی دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔ گراس برگ کی کان انڈونیشیا کے پاپوا صوبے میں واقع ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
ماحولیاتی آلودگی
گراس برگ کان سے قریب 200،000 ٹن بےکار مادہ یومیہ بنیادوں پر ایکوا دریا میں بہایا جاتا ہے جس کے سبب ہزاروں ہیکٹر جنگلات اور سبزہ زار ویران ہوتے جا رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/U. Ifansasti
دریا کی کیچڑ میں چھپا رزق
سونے کی کھدائی کے دوران نکلنے والے فضلے میں سونے کے باریک ذرات بھی ہوتے ہیں۔ دریا کے کنارے پر کیچڑ جمع کرنے والے غربت زدہ افراد قریب ایک گرام سونا روزانہ جمع کر پاتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/U. Ifansasti
غیر قانونی کان کنی
سن 2015 میں 12،000 غیر قانونی کان کنوں کے خلاف کارروائی کی گئی تھی۔ صوبائی حکومت اِس غیر قانونی کان کنی کو روکنا چاہتی ہے لیکن دوسری جانب ناقدین اِس حکومتی پالیسی کو کان کی ٹھیکے دار کمپنی کو فائدہ پہنچانے کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/U. Ifansasti
مرکری سے فضا زہریلی
خا م مال سے معدنیات نکالنے کے لیے بڑی مقدار میں پارے کا استعمال کیا جاتا ہے۔ جس کے باعث دریا اور تمام فضا متاثر ہو رہی ہے۔
تصویر: Getty Images/U. Ifansasti
چمکتے سونے کی چور بازاری
سونے کے اِس کاروبار میں علاقے میں چور بازاری کو بھی فروغ دیا ہے۔ گراس برگ کان کے مضافات میں ایک سیاہ معیشت ساتھ ساتھ پنپ رہی ہے جس سے جرائم میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔