جرمنی میں رواں برس چوبیس ستمبر کو وفاقی انتخابات منعقد ہوں گے۔ جرمن انتخابی عمل دیگر ممالک کی نسبت کافی مختلف ہے۔ ڈی ڈبلیو کے اس خصوصی آرٹیکل کا مقصد اس انتخابی عمل کی وضاحت کرنا ہے۔
اشتہار
وفاقی جرمن پارلیمان کے ایوان زیریں یا ’بُنڈس ٹاگ‘ کے لیے انتخابات کا نظام خاصا پیچیدہ ہے۔ اس نظام میں براہ راست انتخاب اور متناسب نمائندگی کے طریقوں کے مثبت پہلوؤں کو یکجا کیا گیا ہے۔
جرمنی کے وفاقی دفتر شماریات کے مطابق اس برس اٹھارہ سال سے زائد عمر کے 61.5 ملین بالغ جرمن شہری ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔ اہل ووٹروں کی سب سے بڑی تعداد سب سے زیادہ آبادی والے صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں مقیم شہریوں کی ہے، اور یہ تعداد 13.2 ملین بنتی ہے۔ اس کے بعد وفاقی جرمن ریاست باویریا کے 9.5 ملین ووٹر آتے ہیں جب کہ وفاقی ریاست باڈن ورٹمبرگ سے 7.8 ملین شہری وفاقی جرمن انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔
سن 2009 اور سن 2013 کے انتخابات کے دوران ٹرن آؤٹ کم رہا تھا اس کے باوجود ستّر فیصد اہل شہریوں نے انتخابی عمل میں حصہ لیا تھا۔ اس برس جرمنی میں عوامیت پسندوں کی بڑھتی سیاسی مقبولیت کے باعث ایسے افراد بھی ممکنہ طور پر ووٹ ڈالنے نکلیں گے، جو عام طور پر ووٹ نہیں ڈالتے۔ اسی وجہ سے توقع کی جا رہی ہے کہ اس سال وفاقی انتخابات میں ٹرن آؤٹ ماضی کی نسبت زیادہ رہے گا۔
’دو حصوں میں ووٹ‘
ستمبر میں جب ووٹ ڈالنے کے اہل جرمن شہری انتخابی مراکز پر پہنچیں گے تو ووٹ ڈالنے والے ہر شہری کو ہمیشہ کی طرح دو بیلٹ پیپر دیے جائیں گے۔ ایک بیلٹ پیپر کے ذریعے وہ اپنے حلقے سے اپنے کسی بھی پسندیدہ امیدوار کو براہ راست پارلیمان کا رکن بنانے کے لیے ووٹ ڈالیں گے جب کہ دوسرے بیلیٹ پیپر کے ذریعے اپنی پسندیدہ پارٹی کو ووٹ دیں گے۔
’ترکی کی بجائے جرمن حکومت مساجد کو مالی امداد فراہم کرے‘
01:05
کسی بھی حلقہ انتخاب سے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والا امیدوار متعلقہ پارلیمانی حلقے سے پارلیمان کا رکن بن جائے گا۔ حلقہ انتخاب ڈھائی لاکھ کی آبادی پر مشتمل ہوتا ہے۔ یوں براہ راست منتخب ہونے والے امیدوار وفاقی پارلیمان کے رکن بن جاتے ہیں۔ ایسے ارکان کی تعداد، یا یوں کہیے کہ ایسے انتخابی حلقوں کی تعداد 299 ہے۔
تاہم مجموعی طور پر پارلیمانی نشستوں کی تعداد اس سے دو گنا یعنی 598 ہے۔ پارلیمان کے باقی نصف ارکان کا انتخاب ہر سیاسی جماعت کو ملنے والے ووٹوں کی شرح کے مطابق کیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں زیادہ آبادی والی وفاقی جرمن ریاستوں سے وفاقی پارلیمان کے ارکان کی تعداد بھی چھوٹے صوبوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔
جو بات اس انتخابی عمل کو دلچسپ لیکن بہت پیچیدہ بنا دیتی ہے، وہ یہ ہے کہ ووٹ ڈالنے والا ایک شہری مثال کے طور پر براہ راست رکن پارلیمان بننے کے لیے تو سی ڈی یو کے کسی امیدوار کو ووٹ دیتا ہے لیکن اپنا پارٹی ووٹ وہ اسی جماعت کی اتحادی سی ایس یو کو دے دیتا ہے۔ یوں کسی سیاسی جماعت کے براہ راست منتخب ہونے والے ارکان کی شرح پارٹی کو قومی سطح پر ملنے والے مجموعی ووٹوں کی شرح سے مختلف ہو جاتی ہے۔
’معلق نشستیں‘
انہی دونوں شرحوں کے مابین فرق ختم کرنے کے لیے ’معلق‘ نشستیں دی جاتی ہیں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اگر ایک سیاسی جماعت کے براہ راست منتخب ہونے والے امیدواروں کی تعداد زیادہ ہے تو اسی تناسب سے ان کی پارٹی کو مجموعی ووٹوں کی شرح کے باعث ملنے والی سیٹوں کی تعداد میں بھی اضافہ کر دیا جائے گا۔ لیکن اس کے ساتھ اسی تناسب کے اعتبار سے باقی سیاسی جماعتوں کو بھی زیادہ نشستیں ملیں گی۔
اسی وجہ سے وفاقی جرمن پارلیمان کے ارکان کی مجموعی تعداد بھی انتخابات کے بعد قانونی طور پر طے شدہ، یعنی 598 سے زیادہ ہو سکتی ہے۔ اسی لیے موجودہ جرمن پارلیمان کے ارکان کی مجموعی تعداد بھی 630 ہے۔
’پانچ فیصد کی لازمی شرط‘
جرمنی میں کسی بھی سیاسی جماعت کی پارلیمان میں نمائندگی کے لیے لازم ہے کہ اسے کم از کم پانچ فیصد ووٹ ملے ہوں۔ اس سے کم ووٹ حاصل کرنے والی کسی سیاسی جماعت کو پارلیمان میں کوئی نمائندگی نہیں ملتی۔ جرمنی کی موجودہ پارلیمان میں پانچ سیاسی جماعتوں کو نمائندگی حاصل ہے۔
گزشتہ عام انتخابات کے دوران دائیں بازو کی عوامیت پسند سیاسی جماعت اے ایف ڈی اور ایف ڈی پی پانچ فیصد ووٹ حاصل نہیں کر پائی تھیں جس کے باعث موجودہ وفاقی پارلیمان میں ان کا کوئی ایک بھی رکن شامل نہیں ہے۔ اس مرتبہ میڈیا کی نظریں اس بات پر بھی ہیں کہ آئندہ انتخابات میں یہ سیاسی جماعتیں بھی پارلیمان میں پہنچ پاتی ہیں یا نہیں۔
چانسلر کا انتخاب کون کرتا ہے؟
فرانس اور امریکا کی طرح جرمنی میں عوام براہ راست چانسلر کا انتخاب نہیں کرتے۔ چانسلر کا عہدہ سربراہ حکومت کا ہے اور اس کا انتخاب وفاقی پارلیمان کے ارکان کرتے ہیں۔ انتخابات کے بعد پارلیمان میں سیاسی جماعتوں کے ارکان کی تعداد کے حتمی تعین کے ایک ماہ کے اندر اندر پارلیمان کا اجلاس بلایا جاتا ہے۔
اس عرصے کے دوران اکثریتی ووٹ حاصل کرنے والی جماعت حکومت یا کوئی مخلوط حکومتی اتحاد بنانے کی کوشش کرتی ہے۔ اگر اتحاد پہلے سے طے ہو جائے تو جرمن صدر پارلیمان کا اجلاس اس سے پہلے بھی طلب کر سکتے ہیں۔ صدر مملکت اکثریتی ارکان والی سیاسی جماعت اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے نامزد کردہ امیدوار کو حکومت سازی کی د عوت دیتے ہیں، جس کے بعد نو منتخب ارکان پارلیمان خفیہ رائے دہی کے ذریعے اس امیدوار کی تائید یا مخالفت میں ووٹ دیتے ہیں۔
جرمنی میں گزشتہ تینوں عام انتخابات میں سی ڈی یو نے دوسری جماعتوں سے زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے اور اسی جماعت کی جانب سے انگیلا میرکل کو نامزد کیا گیا تھا۔ اس مرتبہ بھی میرکل ہی سی ڈی یو کی جانب سے چانسلر کے عہدے کی امیدوار ہیں۔
جرمنی میں ایسی کوئی قید نہیں کہ کوئی سیاست دان کُل کتنی مرتبہ چانسلر بن سکتا ہے تاہم وفاقی جرمن تاریخ میں اب تک مجموعی طور پر سولہ برس سے زیادہ کے عرصے کے لیے کوئی بھی شخص چانسلر کے عہدے پر فائز نہیں رہا۔
جرمنی میں عام انتخابات کے بعد نئی مخلوط حکومت کے خد و خال واضح ہونے میں کچھ وقت تو لگا ہے تاہم اب اس نئی حکومت کی تشکیل کا کام اپنے آخری مرحلے میں داخل ہو گیا ہے۔ اتوار پندرہ دسمبر نئے وُزراء کے ناموں کے اعلان کا دن تھا۔
تصویر: AFP/Getty Images
تیسری آئینی مدت کی تیاریاں
اب یہ بات یقینی ہے کہ انگیلا میرکل تیسری بار جرمن چانسلر بنیں گی اور سی ڈی یُو، سی ایس یُو اور ایس پی ڈی پر مشتمل ایک بڑی مخلوط حکومت کی قیادت کریں گی۔ اس کابینہ میں کرسچین ڈیموکریٹک یونین کے پانچ، سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے چھ جبکہ کرسچین سوشل یونین کے تین وُزراء شامل ہوں گے۔
تصویر: Getty Images
اُرسلا فان ڈیئر لایَن جرمنی کی پہلی خاتون وزیر دفاع
وزیر محنت اور سات بچوں کے ماں اُرسلا فان ڈیئر لایَن کو وزارت دفاع کا قلمدان سونپنے کا اعلان ایک غیر متوقع پیشرفت قرار دی جا رہی ہے۔ جرمنی میں کئی حلقے فان ڈیئر لایَن کو جرمنی کی آئندہ چانسلر کے روپ میں بھی دیکھتے ہیں۔
تصویر: JOHANNES EISELE/AFP/Getty Images
تھوماس ڈے میزئر کے ذمے وزارت داخلہ کا قلمدان
وزیر دفاع کے طور پر تھوماس ڈے میزئر کو کافی تنقید کا سامنا رہا۔ اب انہیں ایک مرتبہ پھر وزیر داخلہ بنانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ وہ اس عہدے پر 2009ء تا 2011ء بھی تعینات رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
زیگمار گابریل ’سُپر منسٹر‘
جرمن پریس نے ایس پی ڈی کے چیئرمین زیگمار گابریل کو ’سُپر منسٹر‘ کا خطاب دیا ہے۔ ’سپر منسٹری‘ میں اقتصادیات کے ساتھ ساتھ اُس جرمن پروگرام کی نگرانی بھی شامل ہو گی، جس کے تحت جرمنی بتدریج جوہری توانائی ترک کرتے ہوئے آئندہ اپنی ضرورت کی تمام تر توانائی قابل تجدید ذرائع سے حاصل کرنا چاہتا ہے۔ گابریل نائب چانسلر بھی ہوں گے۔
تصویر: Imago
شٹائن مائر پھر ایک بار وزیر خارجہ
سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے فرانک والٹر شٹائن مائر گزشتہ پارلیمان میں اپنی پارٹی کے حزب کے قائد تھے۔ وہ دو ہزار پانچ تا دو ہزار نو بھی میرکل کے وزیر خارجہ کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور نئی مخلوط حکومت میں بھی اُنہیں یہی قلمدان سونپنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ 2009ء میں چانسلر شپ کے امیدوار شٹائن مائر کو میرکل کے ہاتھوں شکست اٹھانا پڑی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
محنت اور سماجی امور کی وزیر
آندریا ناہلیس سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی سیکرٹری جنرل ہیں۔ اُنہیں محنت اور سماجی امور کی وزارت سونپی جا رہی ہے۔ وہ اپنی جماعت کے اندر بائیں بازو کے دھڑے کی نمائندہ سمجھی جاتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
انصاف کا قلمدان، ہائیکو ماس کے پاس
ایس پی ڈی کے ہائیکو ماس نئی کابینہ کے غیر متوقع ناموں میں سے ایک ہیں اور اُنہیں امورِ انصاف کی وزارت کا قلمدان دیا گیا ہے۔ وہ ماہرِ قانون ہیں اور صوبائی سطح پر تو بہت سرگرم رہے ہیں لیکن وفاقی سطح پر سیاست کرنے کا یہ اُن کا پہلا تجربہ ہو گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ایس پی ڈی کی کم عمر ترین وزیر
اُنتالیس سالہ مانوئیلا شویزِک جرمن میڈیا کی فیورٹ سیاستدان ہیں۔ اُنہیں نئی کابینہ میں خاندان، بزرگوں، خواتین اور نوجوانوں کے امور کا وزیر بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ وہ اس سے پہلے جرمن صوبے میکلن برگ فور پومرن میں محنت، صنفی مساوات اور سماجی امور کی وزیر رہ چکی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
باربرا ہینڈرکس، پچھلی سے اگلی صف میں
باربرا ہینڈرکس ایس پی ڈی کے مالیاتی امور کی نگران کے طور پر اب تک زیادہ تر پس منظر میں رہی ہیں لیکن اب وزیر ماحول کے طور پر اُنہیں وفاقی سطح پر پہلی صف میں کارکردگی دکھانے کا موقع مل رہا ہے۔ ساتھ ساتھ وہ تعمیرات اور شہری ترقی کے امور کو بھی دیکھیں گی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
میرکل کے دستِ راست
اب تک کے وزیر ماحول پیٹر آلٹمائر کو چانسلر آفس کے نئے وزیر کا عہدہ سونپا گیا ہے۔ اُنہیں چانسلر میرکل کا سب سے قریبی ساتھی تصور کیا جاتا ہے۔ چانسلر آفس کے نئے وزیر کے طور پر جرمن خفیہ اداروں کے درمیان رابطہ کاری کی ذمے داریاں بھی اُنہی کے ہاتھوں میں ہوں گی۔
تصویر: dapd
خزانہ آئندہ بھی شوئبلے کے پاس
گزشتہ حکومت کی طرح نئی حکومت میں بھی سی ڈی یُو کے وولف گانگ شوئبلے ہی وزیر خزانہ ہوں گے۔ 71 سالہ شوئبلے کابینہ کے عمر رسیدہ ترین رکن ہوں گے۔ 1990ء میں ایک حملے کا نشانہ بننے کے بعد سے وہ اپنے فرائض ایک وہیل چیئر پر بیٹھ کر انجام دیتے ہیں۔
تصویر: Reuters
وزارت تعلیم یوہانا وانکا کے ہی پاس رہے گی
پروفیسر یوہانا وانکا وزیر تعلیم کے ہی عہدے پر برقرار رہیں گی۔ سرقہ بازی کے الزامات پر وزیر تعلیم آنیٹے شاوان کے مستعفی ہونے کے بعد یوہانا وانکا نے یہ منصب فروری 2013ء میں سنبھالا تھا۔
تصویر: Getty Images
سی ڈی یو کا وفادار کارکن بطور وزیر صحت
جرمنی کے نئے وزیر صحت ہیرمان گروہے ہوں گے۔ چانسلر میرکل کی سیاسی جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین کے سیکرٹری جنرل گروہے یہ عہدہ فری ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے ڈانیل باہَر کی جگہ سنبھالیں گے۔ گروہے حالیہ انتخابات میں چانسلر میرکل کی انتخابی مہم کے منیجر تھے۔ انہوں نے یہ مہم انتہائی کامیابی سے چلائی تھی۔
کرسچن سوشل یونین سے تعلق رکھنے والے الیگذانڈر ڈوبرنٹ کو وزیر برائے ڈیجیٹل انفراسٹرکچر بنایا جائے گا۔ وہ اب اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ مستقبل میں شہری ترقی کے حوالے سے ترتیب دیے جانے والے منصوبہ جات مطلوبہ ثمرات لائیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
وزیر داخلہ سے وزیر زراعت تک
ہانس پیٹر فریڈرش اب وزارت داخلہ کے بجائے زراعت کی وزارت سنبھالیں گے۔ بطور وزیر داخلہ این ایس اے اسکینڈل کے دوران کرسچن سوشل یونین سے تعلق رکھنے والے اس سیاستدان کے ردعمل کو انتہائی تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images
وزیر برائے ترقیاتی امور ہوں گے گیرڈ ملر
گیرڈ ملر کو وزیر برائے ترقیاتی امور بنایا گیا ہے۔ کرسچن سوشل یونین سے تعلق رکھنے والے گیرڈ ملر پہلی مرتبہ برلن کے سیاسی منظر نامے پر جلوہ گر ہوں گے۔