جرمنی میں انتخابات کے بعد مخلوط حکومت سازی کی تیاریاں
25 فروری 2025
سی ڈی یو کے سربراہ فریڈرش میرس نے کہا ہے کہ وہ مرکز کی بائیں بازو کی پارٹی ایس پی ڈی کے ساتھ اتحاد کی حمایت کرتے ہیں لیکن دیگر جماعتوں کو پہلے اس بارے میں کہ وہ کس کے ساتھ کام کرنے پر رضامند ہیں بات چیت کرنا ہو گی۔
سی ڈی یو کے سربراہ اور ایس پی ڈی کے رہنما مل کر نئی حکومت بنانے پر رضامند ہیںتصویر: Michael Kappeler/dpa-Pool/dpa/picture alliance
اشتہار
جرمنی کی قدامت پسند جماعت سی ڈی یو کے سربراہ فریڈرش میرس نے کہا ہے کہ دیگر جماعتوں کو پہلے اس بارے میں بات چیت کرنا ہو گی کہ وہ کس کے ساتھ کام کرنے اور کن امور پر سمجھوتا کرنے کے لیے راضی ہیں۔
جرمن پارلیمانی الیکشن میں سنٹر رائٹ بلاک فتح حاصل کرنے لیکن واضح اکثریت حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد مخلوط حکومت کی تشکیل کی طرف پیش قدمی کرتا نظر آ رہا ہے۔ سی ڈی یو کے رہنما فریڈرش میرس نے کہا ہے کہ وہ مرکز کی بائیں بازو کی ایس پی ڈی کے ساتھ اتحاد کے حامی ہیں لیکن مختلف جماعتوں کو پہلے آپس میں اس بارے میں مذاکرات کرنا ہوں گے کہ وہ کس کے ساتھ کام کرنے میں خوش ہیں اور کہاں کہاں سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔
جرمنی میں چانسلر کا انتخاب کیسے ہوتا ہے؟
01:27
This browser does not support the video element.
برلن میں سیاسی گہما گہمی
اتوار کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں اپنی جیت کے بعد آج منگل 26 فروری کو برلن میں سی ڈی یو کے پارلیمانی گروپ کا اجلاس ہو رہا ہے۔ سی ڈی یو کے لیڈر اور تقریباً یقینی طور پر وفاقی جمہوریہ جرمنی کے اگلے چانسلر بننے والے قدامت پسند لیڈر فریڈرش میرس نے سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ایس پی ڈی کے ساتھ مخلوط حکومت کی تشکیل کی بھرپور حمایت اور رضامندی کا اظہار کیا ہے۔
کرسچن ڈیمو کریٹک یونین (سی ڈی یو)کی سسٹر پارٹی یا ہم خیال جماعت کرسچن سوشل یونین کے صوبے باویریا کے رہنما مارکوس زؤڈر نے جرمن نشریاتی ادارے اے آر ڈی کو بیان دیتے ہوئے اس امر پر زور دیا ہے کہ وفاقی حکومت کی تشکیل کے لیے سی ڈی یو اور ایس پی ڈی کو 'خود کو متحد کرنا چاہیے۔‘
سی ڈی یو کے رہنما فریڈرش میرس اور سی ایس یو کے لیڈر اوربویریا کے چیف منسٹر مارکوس زؤڈرتصویر: Michael Kappeler/dpa/picture alliance
بویریا کے لیڈر مارکوس زؤڈر کا اہم بیان
جرمنی کے جنوبی صوبے بویریا کے سی ڈی یو/ سی ایس یو کے رہنما مارکوس زؤڈر نے اپنے تازہ ترین بیان میں کہا کہ جرمنی کی معاشی اور خارجہ پالیسی کی ناگفتہ بہ صورت حال کی روشنی میں، مرکز کے دائیں بلاک اور مرکز سے بائیں بازو کی ایس پی ڈی پر لازم ہے کہ وہ اتحاد قائم کریں اور مل کر کام کریں۔
مارکوس زؤڈر نے تسلیم کیا ہے کہ جرمنی میں سرکاری اخراجات کو منظم کرنے کی راہ میں حکومت پر قرضوں کے حصول کے لیے عائد کی گئی حد ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ جرمنی کا قدامت پسند بلاک سی ڈی یو/ سی ایس یو اس پابندی میں کوئی تبدیلی لانے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے جبکہ سوشل ڈیموکریٹس کئی مہینوں سے اس میں اصلاحات کی وکالت کر رہے ہیں۔ سوشل ڈیمو کریٹس کا اصرار ہے کہ ملک کے معاشی اور سماجی انفرا اسٹرکچر یا بنیادی ڈھانچے کو جدید بنانے اور دیگر شعبوں میں ضروری اصلاحات کے لیے وفاقی حکومت مزید عوامی فنڈز خرچ کرنے کے لیے تیار رہے۔
بویریا جرمنی کا ایک اہم صوبہ مانا جاتا ہے۔ باویریا کے رہنما نے آنے والے مذاکرات کو ''مشکل‘‘ قرار دیا اور کہا کہ وہ امید کرتے ہیں کہ ایس پی ڈی اس عمل میں نئی رکاوٹیں پیدا نہیں کرے گی۔‘‘
اے ایف ڈی نے اس بار الیکشن میں گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں تقریباً دوگنا ووٹ حاصل کیےتصویر: Matthew Moore/DW
مشرقی جرمنی میں اے ایف ڈی کی غیر معمولی کار کردگی
وفاقی جمہوریہ جرمنی کی مشرقی ریاستوں میں گزشتہ اتوار کے پارلیمانی الیکشن کے نتائج نے جرمنی کے سایسی منظر نامے میں انتہائی دائیں بازو کی AfD پارٹی کی بیان بازی کو تقویت دی ہے۔ اے ایف ڈی پارٹی کو مشرقی جرمن علاقوں میں ملنے والے ووٹوں کی تعداد گزشتہ وفاقی انتخابات سے تقریباً دوگنا رہی اور اس سے خاص طور پر مشرقی جرمنی میں اے ایف ڈی کو کافی فائدہ پہنچا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اے ایف ڈی مہاجرت مخالف پالیسی پر زیادہ آسانی سے بات چیت کر سکے گی۔
سنٹر رائٹ کرسچن ڈیموکریٹک یونین (CDU) اور اس کی باویرین سسٹر پارٹی کرسچن سوشل یونین (CSU) اتوار کو ہونے والے انتخابات میں 28.6 فیصد ووٹوں کے ساتھ سرفہرست رہی۔ انتہائی دائیں بازو کی الٹرنیٹیو فار جرمنی (اے ایف ڈی) پارٹی 20.8 فیصد ووٹ حاصل کرتے ہوئے دوسرے نمبر پر رہی۔ سبکدوش ہونے والی مخلوط حکومت کی دو جماعتوں، سوشل ڈیموکریٹس (SPD) اور گرینز نے بالترتیب 16.4 فیصد اور 11.6فیصد ووٹ حاصل کیے ہیں۔
جرمن انتخابات 2025ء: چانسلرشپ کا امیدوار کون کون؟
جرمنی میں تیئیس فرورری کے عام انتخابات میں چانسلر کے عہدے کے لیے امیدواروں کے بارے میں جاننے کے لیے دیکھیے ڈی ڈبلیو کی یہ پکچر گیلری۔ #BTW2025 جرمن_انتخابات_2025#
تصویر: Carsten Koall/dpa/picture alliance
اولاف شولس ، ایس پی ڈی (پیدائش: انیس سو اٹھاون)
سوشل ڈیموکریٹ شولس کے پاس کبھی بھی خود اعتمادی کی کمی نہیں رہی، وہ خود کو ایک مؤثر اور باشعور عملیت پسند رہنما کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنی لاء فرم چلائی، اور پھر عشروں پر محیط اپنے سیاسی کیریئر میں ہیمبرگ میں حکومتی عہدوں سمیت وفاقی سطح پر وزیر محنت، وزیر خزانہ اور وفاقی جرمن چانسلر کے اہم ترین عہدوں پر بھی فائز ہوئے۔ لیکن اب انہیں رائے عامہ کے جائزوں میں کم عوامی مقبولیت حاصل ہے۔
تصویر: Carsten Koall/dpa/picture alliance
فریڈرش میرس، سی ڈی یو (پیدائش: انیس سو پچپن)
قدامت پسند میرس گزشتہ نصف صدی میں جرمنی میں چانسلرشپ کے لیے سب سے عمر رسیدہ امیدوار ہیں۔ مغربی جرمنی کے دیہی زاؤرلینڈ سے تعلق رکھنے والے کٹر کیتھولک اور کاروباری امور کے وکیل میرس کے پاس کبھی کوئی عوامی عہدہ نہیں رہا۔ ان کا نجی کمپنیوں میں ملازمت کا ایک طویل کیریئر ہے، جس میں اثاثہ جات کے انتظامات کے حوالے سے دنیا کی سب سے بڑی کارپوریشن، بلیک راک میں ایک عہدے پر فرائض کی انجام دہی بھی شامل ہے۔
تصویر: Ruffer/Caro/picture alliance
رابرٹ ہابیک، گرینز (پیدائش: انیس سو انہتر)
ہابیک اپنے مخصوص ہیئر اسٹائل اور بڑھی ہوئی شیو کے ساتھ عوامی شخصیت دکھائی دیتے ہیں۔ اس عملیت پسند سیاست دان کو اپنی غلطیاں تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں۔ یہ ہابیک ہی تھے، جنہوں نے عوام کے سامنے حکومتی سیاسی فیصلوں کی وضاحت کرنے اور اپنے حکومتی شراکت داروں کے تکبر زدہ تشخص کو ختم کرنے کے لیے سادہ اور دلکش الفاظ تلاش کیے تھے۔ اپنے سیاسی کیریئر کے آغاز سے قبل وہ ایک مصنف، مترجم اور فلسفی رہے ہیں۔
تصویر: appeler/dpa/picture alliance
ایلیس وائیڈل، اے ایف ڈی (پیدائش انیس سو اناسی)
جرمنی میں انتہائی دائیں بازو کی جماعت الٹرنیٹیو فار ڈوئچ لینڈ (اے ایف ڈی ) کی شریک چیئر پرسن وائیڈل نے معاشیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی، چین میں کام کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیم حاصل کی اور یورو اور نیٹو کے بارے میں شکوک و شبہات سے کام لیتی ہیں۔ وائیڈل اشتعال انگیزی اور خاص طور پر تارکین وطن کے خلاف اشتعال انگیز بیان بازی کے لیے مشہور ہیں۔
سابق وزیر خزانہ لنڈنر نے سیاسیات کی تعلیم حاصل کی، اپنے چھوٹے سے تشہیری کاروبارکی بنیاد رکھی اور وہ جرمن فضائیہ میں ایک ریزرو افسر بھی ہیں۔ وہ صرف 34 سال کی عمر میں اپنی نیو لبرل فری ڈیموکریٹ پارٹی کے چیئرمین بنے اور ابھی تک اس کے بلامقابلہ رہنما ہیں۔ ان کی شہرت سوشل میڈیا کے ماہر اور اسٹائلش انسان کے طور پر ہے اور وہ اسپورٹس کاروں سے اپنی محبت کے لیے جانے جاتے ہیں۔
تصویر: Hannes P Albert/dpa/picture alliance
سارہ واگن کنیشت، بی ایس ڈبلیو (پیدائش: انیس سو انہتر)
واگن کنیشت لیفٹ پارٹی کی ایک سابقہ سرکردہ شخصیت ہیں۔ وہ اکثر ٹاک شوز میں بطور مہمان شرکت کرتی ہیں اور عوامیت پسندانہ بیان بازی کی ماہر ہیں۔ وہ دوسرے سیاست دانوں کو احمق اور منافق قرار دیتی ہیں۔ وہ قدامت پسند سماجی اور بائیں بازو کی معاشی پالیسیوں کے ساتھ ساتھ تارکین وطن مخالف پوزیشنوں کی حمایت کرتی ہیں۔ وہ اپنی جماعت ’الائنس سارہ واگن کنیشت‘ پر مکمل غلبہ رکھتی ہیں۔
تصویر: Kay Nietfeld/dpa/picture alliance
ژان فان آکن، لیفٹ پارٹی (پیدائش: انیس سو اکسٹھ)
فان آکن مغربی جرمنی میں پیدا ہوئے، انہوں نے حیاتیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے اور 2004ء سے 2006ء تک اقوام متحدہ کے لیے حیاتیاتی ہتھیاروں کے انسپکٹر کے طور پر کام کر چکے ہیں۔ وہ 2009 ء سے 2017 ء تک جرمن پارلیمان یا بنڈس ٹاگ میں لیفٹ پارٹی کے قانون ساز بھی رہ چکے ہیں۔ وہ بائیں بازو کی اس جماعت کے شریک چیئرمین بھی رہے ہیں اور آئندہ عام انتخابات میں اپنی پارٹی کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔