1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں انتہائی نگہداشت یونٹ کے عملے پر بڑھتا بوجھ

23 نومبر 2021

جرمن ہسپتالوں کے آئی سی یو میں مریضوں کی مزید گنجائش باقی نہیں رہی ہے۔ بڑا مسئلہ تجربہ کار اسٹاف کی کمی کا ہے۔ جرمنی کو کورونا وبا کی چوتھی لہر نے نڈھال کر دیا ہے اوراب پانچویں لہر کے خطرات کا سامنا ہے۔

Deutschland Coronavirus - Intensivstation
تصویر: Lennart Preiss/AFP/Getty Images

جرمنی کے کئی ہسپتالوں کے انتہائی نگہداشت کے یونٹس یا آئی سی یو میں بسا اوقات بیڈ خالی ہوتے ہیں لیکن ان پر مریضوں کو لانا ممکن نہیں ہوتا کیونکہ تجربہ کار اسٹاف کی کمی ہے۔ اس کی ایک مثال وسطی جرمن شہر میونسٹر کے یونیورسٹی میڈیکل سینٹر کی ہے، جہاں کے آئی سی یو میں کم از کم تین بیڈ خالی ہیں۔ ان کے خالی رکھنے کا پوچھا گیا تو انتہائی نگہداشت یونٹ کی نرس الیگزانڈرا ہائیسٹیرکامپ کا کہنا تھا کہ عملہ کم ہے اور اس وجہ سے یہ بیڈ خالی رکھے گئے ہیں اور ان پر مریضوں کا لانا ممکن نہیں۔

ملک کو دو ہفتے کے انتہائی سخت لاک ڈاؤن کی ضرورت، جرمن ڈاکٹرز

جرمنی میں چوتھی لہر اور آئی سی یوز

جرمنی کے طول و عرض میں گزشتہ برس کے مقابلے میں اس وقت آئی سی یو بیڈز کی تعداد چھ ہزار تین سو کم ہو گئی ہے۔ دوسری جانب وہ پچاس اضلاع جو کووڈ انیس بیماری کی شدید گرفت میں ہیں، وہاں انتہائی نگہداشت کے یونٹس بھر چکے ہیں اور اُن میں مزید مریض رکھنے کی گنجائش نہیں رہی۔

جرمن ہسپتالوں کے آئی سی یو وارڈز پر کورونا وبا کی چوتھی لہر کی وجہ سے شدید بوجھ بڑھ گیا ہےتصویر: Kirill Braga/REUTERS

سب سے زیادہ متاثرہ علاقے جنوبی ریاستیں باویریا اور باڈن وورٹمبیرگ ہیں۔ اس وقت بھی آئی سی یو کے لیے خصوصی بیڈز ہسپتالوں کو فراہمی کے لیے کارخانوں میں تیار ہیں لیکن سب سے بڑا مسئلہ ہسپتالوں میں انتہائی نگہداشت کے عملے کی کمیابی ہے۔ یونیورسٹی میڈیکل سینٹر میونسٹر کے انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں ایک سو پینتیس بیڈز کی گنجائش ہے لیکن تربیت یافتہ نرسنگ عملے کے کم ہونے کی وجہ سے ان بیڈز کی تعداد اس وقت ایک سو دس ہو کر رہ گئی ہے۔

کیا افریقہ میں کورونا وبا کنٹرول میں ہے؟

آئی سی یو اسٹاف کی وقعت

الیگزانڈرا ہائیسٹیرکامپ یونیورسٹی میڈیکل سینٹر کے ساتھ سترہ برسوں سے منسلک رہ چکی ہیں اور اب وہ جزوقتی طور پر کام کرتی ہیں۔ ایسے جزوقتی کام کرنے والوں کی وجہ سے آئی سی یو پر زیادہ مریضوں کی وجہ سے پیدا پریشر میں قدرے کمی واقع ہو جاتی ہے۔ اس صورت حال کے حوالے سے الیگزانڈرا ہائیسٹیرکامپ کا بھی کہنا ہے کہ یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ جرمنی کس طرح اس مشکل صورت حال کا سامنا کر رہا ہے۔ مجموعی صورتحال پر ان کا دل کڑھتا ہے۔

جرمنی میں آئی سی یو میں کام کرنے والے نرسنگ عملے کی کمی بھی ایک بڑی پریشانی کا معاملہ ہےتصویر: Fabrizio Bensch/REUTERS

یہ امر اہم ہے کہ برلن حکام نے جرمن انٹرڈسپلنری ایسوسی ایشن برائے انٹینسوکیئر اور ایمرجنسی میڈیسین (DIVI) کی جانب سے چوتھی لہر سے قبل دیے گئے انتباہی پیغامات کو خاطر میں نہیں لایا اس تنظیم نے کئی مرتبہ انفیکشن کی شرح بڑھنے کے حوالے سے بھی حکومت کو خبردار کیا تھا۔

چوتھی لہر کی تمام انتباہ بیکار گئے

کورونا وبا کی شدت کی وجہ سے ریاستوں میں تناؤ پیدا ہے۔ اب موجودہ تناؤ کے حوالے سے جرمن انٹرڈسپلنری ایسوسی ایشن برائے انٹینسو کیئر اور ایمرجنسی میڈیسین (DIVI) کا وہ پیغام کتنا اہم تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ، 'سیاستدان سب لوگوں کو تباہی کی جانب دھکیل رہے ہیں اور سب اس وقت کورونا کی چوتھی لہر کی گرفت میں ہیں اور کوئی بھی آئی سی یو کے مسائل پر توجہ دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔‘

ہالینڈ اور بیلجیم میں کورونا پابندیوں کے خلاف سخت احتجاج، مظاہرین کی گرفتاریاں

اس وقت ستمبر کے پارلیمانی انتخابات کے بعد تین سیاسی جماعتیں حکومت سازی کے مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہیں۔ تنظیم ڈی آئی وی آئی (DIVI) بھی اس کوشش میں ہے کہ اس کی بات کو بھی سنا جائے۔ اس تنظیم نے مذاکراتی سیاسی جماعتوں کو تجاویز بھی دی ہے لیکن جوابی ریسپونس حوصلہ افزا محسوس نہیں کیا گیا۔

جرمن انٹرڈسپلنری ایسوسی ایشن برائے انٹینسو کیئر اور ایمرجنسی میڈیسین (DIVI) کے صدر پروفیسر گیرنوٹ مارکستصویر: DIVI

تنظیم کے صدر پروفیسر گیرنوٹ مارکس کا کہنا ہے کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک واضح پیغام لوگوں کو دیا جائے کہ انتہائی نگہداشت یونٹس کے عملے کے کام کی تعریف کی جائے اور تا کہ انہیں اپنی وقعت کا احساس ہو سکے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کورونا وبا کے دوران آئی سی یو کے عملے کی شبانہ روز خدمات کے تناظر میں حکومت کو ان ورکرز کو چھ ماہ کی تنخواہیں بغیر ٹیکس کٹوتی کے دینی چاہییں۔

جرمن زبان سے ترجمہ

اولیور پیپر (ع ح/ ک م)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں