جرمنی میں انتہا پسندی ایک خطرہ بنتی ہوئی
19 جون 2014خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے جرمن وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزئر کے حوالے سے بتایا ہے کہ ملک میں سیاسی اور مذہبی بنیادوں پر ہونے والے تشدد سے خطرات پیدا ہوتے جا رہے ہیں۔ انٹیلی جنس ایجنسی کی سالانہ رپورٹ کے اجراء کے موقع پر بدھ کو میزئر کا کہنا تھا کہ اگرچہ ملک میں دائیں اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے انتہا پسندوں کی تعداد میں اضافہ نہیں ہوا ہے تاہم ایسے گروہوں کی طرف سے تشدد کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
جرمن وزیر داخلہ نے ایسے گروہوں کی طرف سے کیے جانے والے پرتشدد واقعات کے اضافے کے رحجان کو قابل افسوس قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے ایک جامع حکمت عملی ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔
جرمنی میں دائیں بازو کے انتہا پسند زیادہ تر غیر ملکیوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ماضی میں ایسے واقعات میں زیادہ تر زبانی طور پر نشانہ بنایا جاتا تھا تاہم اب جسمانی طور پر جارحیت کے واقعات بھی دیکھنے میں آ رہے ہیں۔
تھوماس ڈے میزئر نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جرمنی میں رواں برس غیر ملکیوں پر ہونے والے حملوں میں بیس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ سن 2013 میں مجموعی طور پر ایسے 473 واقعات کو رپورٹ کیا گیا تھا۔
جرمنی کے مقامی انٹیلی جنس کی سالانہ رپورٹ کے مطابق بائیں بازو کے ریڈیکل عناصر گو کہ غیر ملکیوں پر حملوں میں ملوث نہیں پائے گئے ہیں لیکن ایسے گروہ پولیس افسران اور سکیورٹی اہلکاروں کے خلاف پرتشدد کارروائیوں کرتے ہیں۔
جرمن وزیر داخلہ نے اس تازہ صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا، ’’ہم تشدد میں اس اضافے کو ناقابل قبول قرار دیتے ہیں۔ ہم اس صورتحال پر قابو پانے کے لیے ہر ممکن وسیلہ بروئے کار لائیں گے۔‘‘
وفاقی ادارہ برائے تحفظ آئین کی طرف سے جاری کی گئی اس رپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق دائیں اور بائیں بازو کے گروہوں سے وابستہ افراد کی تعداد بالتریب نو ہزار 600 اور ستائیس ہزار ہے۔ سال 2012ء میں پیش کیے گئے اعداد و شمار میں بھی ان گروپوں سے منسلک افراد کی تعداد اتنی ہی تھی۔
یہ امر اہم ہے کہ اس رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ جرمنی میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ریڈیکل اسلامی گروہ بالخصوص سلفی اسلام کی طرف مائل ہو رہی ہے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ شام میں دہشت گردوں کے تربیت کیمپوں میں وقت گزارنے والے تقریبا سو افراد جرمنی واپس آ چکے ہیں۔