جرمنی میں اڑنے والے کیڑوں کی تعداد خطرناک حد تک کم
صائمہ حیدر
19 اکتوبر 2017
جرمنی میں تحقیق کاروں کے مطابق گزشتہ تین دہائیوں میں اڑنے والے حشرات کی تعداد میں خاطر خواہ کمی ہوئی ہے۔ تحقیق کی رُو سے اس کمی کی ذمہ دار فصلوں پر چھڑکی جانے والی کیڑے مار ادویات ہو سکتی ہیں۔
اشتہار
اب جبکہ یہ بات تحقیق سے ثابت ہو چکی ہے کہ یورپ اور شمالی امریکا میں تتلیاں اور شہد کی مکھیاں غائب ہوتی جا رہی ہیں، سائنسی اور تحقیقی آن لائن جریدے ’پی ایل او ایس ون‘ میں شائع ہوئے ایک مطالعے میں بتایا گیا ہے کہ سن 1989 سے اب تک تقریباﹰ تین عشروں کے دوران جرمنی میں اڑنے والے کیڑوں کی تعداد کم ہوئی ہے۔
اس حوالے سے ریسرچرز کو بجا طور پر تحفظات ہیں کیونکہ ایک تو یہ حشرات پھولوں سے زرگل منتقل کرنے کا بنیادی ذریعہ ہیں اور دوسرے فوڈ چین کا ایک اہم حصہ بھی ہیں جو پرندوں اور دیگر چھوٹی مخلوقات کی خوراک ہیں۔
کیڑوں کے حوالے سے اس تحقیقی مطالعے کی ٹیم کے سربراہ اور جرمنی میں قائم راڈ بوڈ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے تحقیق کار ہنس دے کرون کا کہنا ہے،’’ یہ حقیقت کہ اڑنے والے کیڑے اتنے بڑے علاقے میں اور اتنے بڑے پیمانے پر ختم ہو رہے ہیں بذات خود ایک خطرے کی گھنٹی ہے۔‘‘
اس ریسرچ کے لیے محققین نے تریسٹھ قدرتی مقامات پر لیس دار پھندے استعمال کیے اور پھر بائیو ماس کو ناپنے کے لیے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تبدیلیوں کو دستاویزی شکل دیتے رہے۔ گزشتہ ستائیس سال کے عرصے میں انہوں نے اوسطاﹰ چھہتر فیصد کی کمی کا مشاہدہ کیا۔ اس کمی کے اثرات موسم گرما میں بد تر دیکے گئے جو بیاسی فیصد تک چلے گئے۔
چونکہ اس سائنسی مطالعے میں اڑنے والے کیڑوں کی افزائش میں کمی کی وجہ کی نشاندہی نہیں کی گئی تھی، ریسرچرز کا کہنا تھا کہ بہت سے فطری ذخائر جہاں ان کیڑوں کی افزائش ہوتی ہے، زرعی زمین کے گھیرے میں ہیں اس لیے ممکنہ طور پر اس کمی کا ذمہ دار کیڑے مار دواؤں کو ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ ڈے کرون کا کہنا ہے کہ کیڑے مار دواؤں جیسی اشیا، جوکیڑوں کی افزائش میں مزاحم ثابت ہوں، اُن کا استعمال کم سے کم کرنا چاہیے۔
جانورں کی بڑے پیمانے پر اموات
جب ہزاروں جانور ایک ہی وقت میں ہلاک ہو جائیں، تو محققین زیادہ تر ایسی گتھی کو سلجھا لیتے ہیں۔ تاہم ایک بات تو طے ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیاں اور آلودگی ان ہلاکتوں کی بڑی وجوہات میں شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Scorza
آکسیجن کی کمی
اس سال کے دوران ابھی تک دنیا بھر میں کئی مرتبہ بڑے پیمانے پر مچھیلوں کے ایک ساتھ مرنے کے واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ اس تصویر میں دکھائی دینے والی مچھلیوں کا وزن تینتیس ٹن کے برابر ہے۔ یہ واقعہ 2015ء میں برازیل کی ایک بہت بڑی جھیل میں پیش آیا تھا۔ رودریگو ڈے فرائتاس نامی یہ جھیل انتہائی آلودہ ہو چکی ہے، جس کی وجہ سے مچھیلوں کو مناسب آکسیجن مہیا نہیں ہو پاتی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Scorza
نہ مچھلی، نہ پرندوں کے لیے خوراک
گزشتہ برس امریکی شہر سان فرانسسکو سے لے کر برٹش کولمبیا کے ساحلوں تک تقریباً دس ہزار سمندری پرندے اچانک مر گئے تھے۔ اس سال ایسا ہی ایک اور واقعہ بھی رونما ہو چکا ہے تاہم اس مرتبہ ان پرندوں کی بڑی تعداد الاسکا کے ساحلوں پر ہلاک ہوئی۔ محقیقن نے ایک وجہ پرندوں کی خوراک کی کمی کو قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق پانی کے درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے ان پرندوں کی خوراک بننے والی مچھلیاں غائب ہو گئی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Thiessen
کچھوؤں میں انفیکشن
گرین سی ٹرٹل یا سبز پانی کے کچھوے بہت بڑی جسامت کے حامل ہوتے ہیں اور انہیں دنیا کے بڑے کچھوؤں میں شمار کیا جاتا ہے۔ گرین سی ٹرٹل ناپید ہونے کے خطرے سے بھی دوچار ہیں۔ آج کل یہ کچھوے ایک خاص قسم کے انفیکشن کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے یہ کچھوے کچھ کھا نہیں سکتے ہیں اور بہت مشکل سے ہی حرکت کر پاتے ہیں۔ ابھی تک یہ نہیں علم ہو سکا ہے کہ یہ انفیکشن اتنی تیزی سے کیوں پھیل رہا ہے۔
اس تھوتھنی والے ہرن نما جانور کو سیگا کہا جاتا ہے۔ محققین نے بتایا کہ گزشتہ برس کی ابتدا میں دنیا بھر میں سیگا کی نصف تعداد اچانک مر گئی تھی اور وہ بھی صرف دو ہفتوں کے دوران۔ اس رپورٹ کے مطابق یہ جانور ماحولیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثر ہو رہے ہیں اور ایک سال میں ان کی نسل مکمل طور پر ختم ہو سکتی ہے۔ تاہم اس سال ابھی تک اس قسم کی کوئی خبر موصول نہیں ہوئی ہے۔
تصویر: Imago/blickwinkel
قیر ماہی بھی بھٹک رہے ہیں
جنوری 2004ء میں لاطینی امریکی ملک چلی کے ساحلوں پر ہزاروں قیر ماہی یا آکٹوپس راستہ بھٹک کر ہلاک ہو گئے تھے۔ اس واقعے نے رواں برس خود کو ایک مرتبہ پھر دہرایا ہے۔ محققین ان واقعات کی ذمہ داری بھی ماحولیاتی تبدیلیوں پر عائد کر رہے ہیں۔ تاہم دوسری جانب محققین تشویش کا شکار بھی ہیں کہ اتنی بڑی تعداد میں قیر ماہی کی ہلاکتوں کے واقعات پہلے کبھی سامنے آئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Stringer
ناقابل برداشت حدت
گزشتہ برس بھارتی شہر بھوپال میں اچانک بڑی تعداد میں چمگادڑیں مردہ حالت میں آسمان سے زمین پر گریں۔ اسی طرح 2014ء میں آسٹریلوی ریاست کوئنز لینڈ میں بھی ایک لاکھ سے زائد چمگاڈریں ملی تھیں۔ ان میں زیادہ تر تو مردہ تھیں جبکہ کچھ آخری سانسیں لے رہی تھیں۔ گرمی کے معاملے میں یہ پرندہ انتہائی حساس ہے اور بہت زیادہ درجہ حرارت اس کے لیے موت کا پروانہ ہے۔
تصویر: Berlinale
وہیل مچھلیوں کی اجتماعی ہلاکتیں
جرمنی ہو، امریکا ہو، نیوزی لینڈ یا پھر چلی۔ کئی دہائیوں سے ان ممالک میں متعدد وہیل مچھلیوں کی زندگی کا خاتمہ ساحلوں پر ہو رہا ہے۔ گزشتہ برس چلی کے ایک ساحل پر چار سو سے زائد وہیل مچھلیاں مردہ پائی گئیں۔ اسی طرح رواں برس اب تک شمالی یورپ کے ساحلوں پر انتیس وہیل مچھلیاں مردہ حالت میں مل چکی ہیں۔