جرمنی کی ایک عدالت نے ایک شامی باشندے کو تین برس کی سزائے قید سنا دی ہے۔ اس پر الزام ثابت ہو گیا تھا کہ وہ ایک غیر ملکی دہشت گرد تنظیم کا رکن تھا۔
اشتہار
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے جرمن عدالتی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ اشٹٹ گارٹ کی ایک عدالت نے ایک شامی شہری کو ایک غیر ملکی دہشت گرد تنظیم کا رکن ہونے کے جرم میں تین سال کی سزائے قید سنا دی ہے۔ عدالت نے فیصلہ منگل کے دن سنایا۔
اس شخص کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی اور نہ ہی یہ بتایا گیا ہے کہ وہ کس حیثیت سے جرمنی آیا تھا۔ صرف یہ کہا گیا ہے کہ وہ سن دو ہزار پندرہ میں جرمنی آیا تھا۔
نیوز ایجنسی اے پی نے عدالتی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ شامی شہری سن دو ہزار چودہ اور پندرہ کے دوران شام میں القاعدہ سے وابستہ شدت پسند تنظیم النصرہ فرنٹ کا رکن رہا تھا۔
کیا پاکستان کو داعش سے خطرہ ہے؟
04:48
مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت کو بتایا گیا تھا کہ یہ شخص جب شام میں فعال تھا تو وہ انتہا پسند گروہوں کی مختلف چیک پوائنٹس پر مشین گن سے لڑائی میں بھی حصہ لیتا رہا تھا۔
اس شامی باشندے کے وکیل صفائی نے موقف اختیار کیا تھا کہ وہ دراصل النصرہ فرنٹ کے رکن کے طور پر شام میں سرگرم انتہا پسند گروہ داعش کے خلاف لڑتا رہا تھا۔
وکیل صفائی کے مطابق یہ وہی دہشت گرد گروہ ہے، جس کے خلاف عالمی جنگ بھی جاری ہے۔
تاہم عدالت کے فیصلے کے مطابق کسی دہشت گرد گروپ کا رکن ہونا کوئی قابل برداشت جواز نہیں، بے شک اس طرح کوئی ملزم کسی دوسری دہشت گرد تنظیم کے خلاف لڑائی ہی کیوں نہ لڑتا رہا ہو۔
یہ امر اہم ہے کہ یورپی ممالک میں حالیہ عرصے کے دوران متعدد دہشت گردانہ حملے ہو چکے ہیں۔ اسی لیے جرمنی سمیت دیگر یورپی ممالک میں ایسے کسی بھی ممکنہ حملے کے پیش نظر سکیورٹی ہائی الرٹ رکھی گئی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شام اور عراق میں داعش کو پہنچنے والے نقصانات کے باعث اس دہشت گرد تنظیم کے ارکان یورپ سمیت دیگر خطوں اور ممالک کی طرف فرار ہونے کی کوشش میں ہیں۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ شدت پسند اب یورپ کے بڑے شہروں کو بھی نشانہ بنا سکتے ہیں۔
داعش کیسے وجود میں آئی؟
دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے علیحدہ ہونے والی شدت پسند تنظیم ’داعش‘ جنگجوؤں کی نمایاں تحریک بن چکی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ جہادی گروہ کیسے وجود میں آیا اور اس نے کس حکمت عملی کے تحت اپنا دائرہ کار بڑھایا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کی پیدائش کیسے ہوئی؟
’دولت اسلامیہ‘ یا داعش القاعدہ سے علیحدگی اختیار کرنے والا ایک دہشت گرد گروہ قرار دیا جاتا ہے۔ داعش سنی نظریات کی انتہا پسندانہ تشریحات پر عمل پیرا ہے۔ سن دو ہزار تین میں عراق پر امریکی حملے کے بعد ابو بکر البغدادی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی۔ یہ گروہ شام، عراق اور دیگر علاقوں میں نام نہاد ’خلافت‘ قائم کرنا چاہتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کہاں فعال ہے؟
کہا جاتا ہے کہ ’جہادی‘ گروہ داعش درجن بھر سے زائد ممالک میں فعال ہے۔ سن دو ہزار چودہ میں یہ عراق اور شام کے وسیع تر علاقوں پر قابض رہا اور اس کا نام نہاد دارالحکومت الرقہ قرار دیا جاتا تھا۔ تاہم عالمی طاقتوں کی بھرپور کارروائی کے نتیجے میں اس گروہ کو بالخصوص عراق اور شام میں کئی مقامات پر پسپا کیا جا چکا ہے۔
داعش کے خلاف کون لڑ رہا ہے؟
داعش کے خلاف متعدد گروپ متحرک ہیں۔ اس مقصد کے لیے امریکا کی سربراہی میں پچاس ممالک کا اتحاد ان جنگجوؤں کے خلاف فضائی کارروائی کر رہا ہے۔ اس اتحاد میں عرب ممالک بھی شامل ہیں۔ روس شامی صدر کی حمایت میں داعش کے خلاف کارروائی کر رہا ہے جبکہ مقامی فورسز بشمول کرد پیش مرگہ زمینی کارروائی میں مصروف ہیں۔ عراق کے زیادہ تر علاقوں میں داعش کو شکست دی جا چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/H. Huseyin
داعش کے پاس پیسہ کہاں سے آتا ہے؟
اس گروہ کی آمدنی کا مرکزی ذریعہ تیل اور گیس کی ناجائز فروخت ہے۔ شام کے تقریباً ایک تہائی آئل فیلڈز اب بھی اسی جہادی گروہ کے کنٹرول میں ہیں۔ تاہم امریکی عسکری اتحاد ان اہداف کو نشانہ بنانے میں مصروف ہے۔ یہ گروہ لوٹ مار، تاوان اور قیمتی اور تاریخی اشیاء کی فروخت سے بھی رقوم جمع کرتا ہے۔
تصویر: Getty Images/J. Moore
داعش نے کہاں کہاں حملے کیے؟
دنیا بھر میں ہونے والے متعدد حملوں کی ذمہ داری اس شدت پسند گروہ نے قبول کی ہے۔ اس گروہ نے سب سے خونریز حملہ عراقی دارالحکومت بغداد میں کیا، جس میں کم ازکم دو سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ داعش ایسے افراد کو بھی حملے کرنے کے لیے اکساتا ہے، جن کا اس گروہ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ فرانس، برلن اور برسلز کے علاوہ متعدد یورپی شہروں میں بھی کئی حملوں کی ذمہ داری داعش پر عائد کی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Bilan
داعش کی حکمت عملی کیا ہے؟
یہ شدت پسند گروہ اپنی طاقت میں اضافے کے لیے مختلف طریقے اپناتا ہے۔ داعش کے جنگجوؤں نے شام اور عراق میں لوٹ مار کی اور کئی تاریخی و قدیمی مقامات کو تباہ کر دیا تاکہ ’ثقافتی تباہی‘ کی کوشش کی جا سکے۔ اس گروہ نے مختلف مذہبی اقلیتوں کی ہزاروں خواتین کو غلام بنایا اور اپنے پراپیگنڈے اور بھرتیوں کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال بھی کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eid
شام و عراق کے کتنے لوگ متاثر ہوئے؟
شامی تنازعے کے باعث تقریباً دس ملین افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر نے ہمسایہ ممالک لبنان، اردن، اور ترکی میں پناہ حاصل کی ہے۔ ہزاروں شامی پرسکون زندگی کی خاطر یورپ بھی پہنچ چکے ہیں۔ عراق میں شورش کے نتیجے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تین ملین افراد اپنے ہی ملک میں دربدر ہو چکے ہیں۔