جرمنی میں ایک ہی افسر نے دو ہزار مہاجرین کو پناہ کیسے دی؟
17 مئی 2018
جرمنی کے وفاقی دفتر برائے مہاجرت اور ترک وطن کے ایک ہی اہلکار کی طرف سے تقریباﹰ دو ہزار مہاجرین کو ’نامناسب طریقے سے‘ پناہ دیے جانے کے اسکینڈل کے منظر عام پر آنے کے بعد وفاقی وزارت داخلہ نے اس ادارے کا دفاع کیا ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے سترہ مئی بروز جمعرات اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ جرمن وفاقی وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر نے جرمنی کے وفاقی دفتر برائے مہاجرت اور ترک وطن (بی اے ایم ایف) کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ادارہ اپنا کام انتہائی مستعدی اور بہتر طریقے سے ادا کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’اس ادارے کے ملازمین ایک اہم شعبے میں انتہائی اچھا کام کر رہے ہیں۔‘‘
جرمن معاشرے و روزگار کی منڈی ميں 'مہاجرين کا انضمام کیسے بہتر بنایا جائے؟'
02:27
زیہوفر نے مزید کہا کہ بی اے ایم ایف کے کسی ایک اہلکار کے نامناسب رویے کی وجہ سے اس ادارے کی طرف سے سرانجام دی جانے والی خدمات پر سوال نہیں اٹھانا چاہیے۔
ہورسٹ زیہوفر کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب یہ ادارہ ایک اسکینڈل کی زد میں آیا ہوا ہے۔ بی اے ایم ایف کے ایک اہلکار پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ اس نے غالباﹰ رشوت لیتے ہوئے پناہ کے متلاشی دو ہزار کے قریب افراد کو جرمنی میں پناہ کے قانونی دستاویزات جاری کیے۔ دفتر استغاثہ اس معاملے کی چھان بین کر رہا ہے۔
بتایا گیا ہے کہ بی اے ایم ایف کے جرمن شہر بریمن کے دفتر کے اس اہلکار نے سن دو ہزار تیرہ تا سن دو ہزار سولہ کے درمیان کم ازکم بارہ سو مہاجرین کو جرمنی میں رہائش کے اجازت نامے جاری کیے۔
حکام کے مطابق اس کیس کی چھان بین کے سلسلے میں اسی دفتر کے دیگر پانچ اہلکاروں کو بھی شامل تفتیش کر لیا گیا ہے۔ کچھ پر یہ الزام بھی عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نے غالباﹰ رشوت لیتے ہوئے نامناسب طریقے سے پناہ کے یہ کاغذات جاری کیے۔
اس معاملے میں سیاسی رنگ اس وقت آیا، جب بی اے ایم ایف کے بریمن دفتر کی ڈائریکٹر جوزفا شمٹ کو انتظامی (جبری) رخصت پر بھیجا گیا۔ شمٹ کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس اسکینڈل کے تناظر میں اپنے پیش رو کے مبینہ غلط کاموں کے بارے میں وزارت داخلہ کو مطلع کرنے کی کوشش کی تھی۔
شمٹ نے چودہ مارچ کو جب یہ عہدہ سنبھالا تھا تو بظاہر انہوں نے وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر سے براہ راست ملاقات کرنے کی درخواست بھی کی تھی۔
ڈی پی اے نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ تاہم مبینہ طور پر وزیر داخلہ زیہوفر کو شمٹ کی اس درخواست کے بارے میں کئی ہفتوں تک مطلع ہی نہیں کیا گیا۔
اس حوالے سے زیہوفر کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے کہ انہوں نے اس معاملے پر فوری ایکشن نہیں لیا۔ ایک اپوزیشن پارلیمانی پارٹی نے اس کیس کی پارلیمانی سطح پر تحقیقات کرانے کا مطالبہ بھی کر دیا ہے۔
ع ب / ا ع / خبر رساں ادارے
کس جرمن صوبے میں سیاسی پناہ ملنے کے امکانات زیادہ ہیں
بی اے ایم ایف کے مطابق پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے تارکین وطن کو پناہ ملنے یا نہ ملنے کا انحصار دیگر کئی پہلوؤں کے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی ہے کہ ان کی پناہ کی درخواستیں کس جرمن صوبے میں جمع کرائی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Karmann
برانڈنبرگ
گزشتہ برس جرمنی میں سیاسی پناہ کی سب سے کم درخواستیں جرمن صوبے برانڈنبرگ میں منظور کی گئیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Settnik
باویریا
وفاقی ریاست باویریا میں سی ایس یو برسراقتدار ہے جس کے سربراہ ہورسٹ زیہوفر نئی جرمن حکومت میں وزیر داخلہ کا عہدہ سنبھال رہے ہیں۔ زیہوفر جرمن بھر سے تارکین وطن کی ملک بدری میں اضافہ کرنے کا عندیہ بھی دے چکے ہیں۔ گزشتہ برس ان کے صوبے میں پناہ کی درخواستیں قبول کیے جانے کی شرح 31.8 فیصد رہی۔
جرمن صوبے باڈن ورٹمبرگ کا شمار بھی ان جرمن صوبوں میں ہوتا ہے جہاں تارکین وطن کو پناہ ملنے کے امکانات کم ہیں۔ گزشتہ برس اس صوبے میں پناہ کی 37.7 فیصد درخواستیں قبول کی گئیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Schuldt
تھیورنگیا
گزشتہ برس وفاقی جرمن ریاست تھیورنگیا میں سیاسی پناہ کے 44.1 فیصد درخواست گزاروں کو پناہ ملی جب کہ دیگر درخواستیں مسترد کر دی گئیں۔
تصویر: epd-bild/M. Schuck
برلن
جرمن دارالحکومت برلن وفاقی ریاست بھی ہے۔ برلن میں گزشتہ برس 44.3 فیصد پناہ گزینوں کی درخواستیں منظور کی گئیں۔
تصویر: Imago/C. Mang
رائن لینڈ پلاٹینیٹ
اس وفاقی ریاست میں بھی سن 2017 کے دوران صرف 44.6 فیصد تارکین وطن کی پناہ کی درخواستیں منظور ہوئیں۔
تصویر: Fotolia/Matthias Wilm
نارتھ رائن ویسٹ فیلیا
آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے حصے میں دیگر صوبوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ تارکین وطن آئے۔ یہاں سیاسی پناہ کی درخواستوں کی منظوری کی شرح پینتالیس فیصد سے کچھ زائد رہی۔
تصویر: picture alliance/dpa/H. Ossinger
ہیمبرگ
جرمنی کے ساحلی شہر اور وفاقی ریاست ہیمبرگ میں قریب اڑتالیس فیصد پناہ کے درخواست گزاروں کو گزشتہ برس قیام کی اجازت ملی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Bildagentur-online
زیریں سیکسنی
گزشتہ برس جرمن صوبے زیریں سیکسنی میں 52.4 فیصد تارکین وطن کی پناہ کی درخواستیں منظور کی گئیں۔
تصویر: Fotolia/Thorsten Schier
شلسویگ ہولسٹائن
اس صوبے میں بھی زیریں سیکسنی کی طرح پناہ کی درخواستوں کی منظوری کی شرح 52.4 فیصد رہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ہیسے
وفاقی جرمن ریاست ہیسے میں بھی تارکین وطن کو پناہ دیے جانے کے امکانات کئی دیگر صوبوں کی نسبت زیادہ ہیں۔ گزشتہ برس اس صوبے نے پناہ کے 53.2 فیصد درخواست گزاروں کو پناہ دی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Rumpenhorst
بریمن
جرمنی کے شمال میں واقع شہر بریمن بھی برلن اور ہیمبرگ کی طرح وفاقی جرمن صوبہ بھی ہے۔ اس شمالی ریاست نے گزشتہ برس قریب ساٹھ فیصد تارکین وطن کی پناہ کی درخواستیں منظور کیں۔
تصویر: picture-alliance/K. Nowottnick
زارلینڈ
زارلینڈ جرمنی کے جنوب مغرب میں فرانسیسی سرحد کے قریب واقع ہے۔ گزشتہ برس یہاں تارکین وطن کو پناہ دیے جانے کی شرح تہتر فیصد رہی جو جرمنی کی دیگر ریاستوں کی نسبت سب سے زیاد ہے۔