جرمنی میں بس کے مسافروں پر چاقو سے حملہ، متعدد افراد زخمی
20 جولائی 2018
جرمنی میں حکام کے مطابق شمالی شہر لیئوبِک میں ایک شخص نے ایک بس کے مسافروں پر چاقو سے حملہ کیا ہے، جس کے نتیجے میں متعدد افراد زخمی ہو گئے ہیں۔ تاہم ابھی تک اس حملے کے محرک کا تعین نہیں ہو سکا۔
اشتہار
لیئو بِک کے مقامی اخبار نے نام ظاہر نہ کرتے ہوئے ایک عینی گواہ کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ مسافروں سے بھری یہ بس شہر کے قریب ہی واقع ’ٹراوِن موئینڈے‘ نامی ساحل ِ سمندر پر جا رہی تھی جب ایک شخص نے مسافروں پر چاقو تان لیا۔ اخبار کی ویب سائٹ پر شائع ہوئی اس رپورٹ کے مطابق بس ڈرائیور نے فوری طور پر بس روک دی تاکہ مسافر بس سے نکل سکیں۔
لوتھر ایچ نامی ایک عینی گواہ نے، جو حملے کے مقام سے قریب ہی رہتا ہے، اخبار کو بتایا،’’مسافروں نے بس سے باہر چھلانگ لگا دی۔ وہ چلا رہے تھے۔ یہ سب بہت خوفناک تھا۔ زخمی افراد کو بس سے باہر نکالا گیا۔ حملہ آور کے ہاتھ میں گھریلو استعمال کا ایک چاقو تھا۔‘‘
لیئوبِک کی چیف پراسیکیوٹر اُرزلا ہنگسٹ نے حملے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا،’’ فی الحال ہم حملہ آور کی شناخت اور حملے کے محرک کے حوالے سے معلومات فراہم نہیں کر سکتے۔‘‘
مقامی پولیس نے ایک ٹویٹ پیغام میں کہا ہے کہ بس کے مسافروں پر حملے میں لوگ زخمی ہوئے ہیں لیکن کوئی ہلاکت نہیں ہوئی۔ ٹویٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ حملہ آور پولیس کی حراست میں ہے۔
جرمن پراسیکیوٹرز کا کہنا ہے کہ اس حملے کے پیچھے ممکنہ طور پر مذہبی انتہا پسندی کا محرک ہو سکتا ہے۔
ص ح / ا ا / اے ایف پی
جرمنی میں دہشت گردی کے منصوبے، جو ناکام بنا دیے گئے
گزشتہ اٹھارہ ماہ سے جرمن پولیس نے دہشت گردی کے متعدد منصوبے ناکام بنا دیے ہیں، جو بظاہر جہادیوں کی طرف سے بنائے گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Sohn
لائپزگ، اکتوبر سن دو ہزار سولہ
جرمن شہر لائپزگ کی پولیس نے بائیس سالہ شامی مہاجر جابر البکر کو دو دن کی تلاش کے بعد گرفتار کر لیا تھا۔ اس پر الزام تھا کہ وہ برلن کے ہوائی اڈے کو نشانہ بنانا چاہتا تھا۔ اس مشتبہ جہادی کے گھر سے دھماکا خیز مواد بھی برآمد ہوا تھا۔ تاہم گرفتاری کے دو دن بعد ہی اس نے دوران حراست خودکشی کر لی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Willnow
آنسباخ، جولائی سن دو ہزار سولہ
جولائی میں پناہ کے متلاشی ایک شامی مہاجر نے آنسباخ میں ہونے والے ایک میوزک کنسرٹ میں حملہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ اگرچہ اسے کنسرٹ کے مقام پر جانے سے روک دیا گیا تھا تاہم اس نے قریب ہی خودکش حملہ کر دیا تھا، جس میں پندرہ افراد زخمی ہو گئے تھے۔ اس کارروائی میں وہ خود بھی مارا گیا تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/D. Karmann
وُرسبُرگ، جولائی سن دو ہزار سولہ
اکتوبر میں ہی جرمن شہر وُرسبُرگ میں ایک سترہ سالہ مہاجر نے خنجر اور کلہاڑی سے حملہ کرتے ہوئے ایک ٹرین میں چار سیاحوں کو شدید زخمی کر دیا تھا۔ پولیس کی جوابی کارروائی میں یہ حملہ آور بھی ہلاک ہو گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Hildenbrand
ڈوسلڈورف، مئی سن دو ہزار سولہ
مئی میں جرمن پولیس نے تین مختلف صوبوں میں چھاپے مارتے ہوئے داعش کے تین مستبہ شدت پسندوں کو گرفتار کر لیا تھا۔ پولیس کے مطابق ان میں سے دو جہادی ڈوسلڈوف میں خود کش حملہ کرنا چاہتے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Hitij
ایسن، اپریل سن دو ہزار سولہ
رواں برس اپریل میں جرمن شہر ایسن میں تین مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا تھا۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے ایک سکھ ٹیمپل پر بم حملہ کیا تھا، جس کے نتیجے میں تین افراد زخمی ہو گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kusch
ہینوور، فروری سن دو ہزار سولہ
جرمنی کے شمالی شہر میں پولیس نے مراکشی نژاد جرمن صافیہ ایس پر الزام عائد کیا تھا کہ اس نے پولیس کے ایک اہلکار پر چاقو سے حملہ کرتے ہوئے اسے زخمی کر دیا تھا۔ شبہ ظاہر کیا گیا تھا کہ اس سولہ سالہ لڑکی نے دراصل داعش کے ممبران کی طرف سے دباؤ کے نتیجے میں یہ کارروائی کی تھی۔
تصویر: Polizei
برلن، فروری دو ہزار سولہ
جرمن بھر میں مختلف چھاپہ مار کارروائیوں کے دوران پولیس نے تین مشتبہ افراد کو حراست میں لیا تھا، جن پر الزام تھا کہ وہ برلن میں دہشت گردانہ کارروائی کا منصوبہ بنا رہے تھے۔ ان مشتبہ افراد کو تعلق الجزائر سے تھا اور ان پر شبہ تھا کہ وہ داعش کے رکن ہیں۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
اوبراُرزل، اپریل سن دو ہزار پندرہ
گزشتہ برس فروری میں فرینکفرٹ میں ایک سائیکل ریس کو منسوخ کر دیا گیا تھا کیونکہ پولیس کو اطلاع ملی تھی کہ اس دوران شدت پسند حملہ کر سکتے ہیں۔ تب پولیس نے ایک ترک نژاد جرمن اور اس کی اہلیہ کو گرفتار کیا تھا، جن کے گھر سےبم بنانے والا دھماکا خیز مواد برآمد ہوا تھا۔