1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں بچوں سے جسم فروشی

عدنان اسحاق9 اگست 2013

بچوں سے جسم فروشی کرانا ایک جرم ہے جو اب ایک منافع بخش کاروبار بھی بن چکا ہے۔ اس میں کوئی دو طرح کی رائے نہں ہے کہ جرمنی میں بھی بچوں سے جسم فروشی کرائی جاتی ہے۔

تصویر: AP

بچوں سے جسم فروشی کا کام انتہائی خفیہ طریقے سے لیا جاتا ہے۔ نائٹ کلبوں، بازار حسن اور اسی طرح کے دیگر اڈوں پر کم سن بچے دکھائی نہیں دیتے۔ جرمنی میں بچوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے ایک ادارے سے منسلک میشتِھلڈ ماؤرر کہتی ہیں کہ اس حوالے سے باقاعدہ اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔ ’’اس بارے میں معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں۔کیونکہ اس سلسلے میں ہمارے پاس تفصیلات اور اعداد و شمار موجود نہیں۔ ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ اسی وجہ سے ہم صحیح اندازہ بھی نہیں لگا پاتے کہ کون لوگ اس سے متاثر ہو رہے ہیں اور کن کن جگہوں پر یہ کام ہو رہا ہے‘‘۔

میشتِھلڈ ماؤرر کے بقول مؤثر حکمت عملی تیار کرنے کے لیے اس تناظر میں زیادہ سے زیادہ معلومات کا حصول لازمی ہے۔ اس سلسلے میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ پولیس کے پاس بھی ایسے جرائم سے متعلق اعداد و شمار بہت مفصل نہیں ہیں۔ ان میں جنسی تشدد اور زیادتی کی تفصیلات تو درج ہوتی ہیں لیکن پس پردہ کون سے ڈھانچے کام کر رہے ہوتے ہیں، اس بارے میں معلومات موجود نہیں ہوتیں۔ ماؤرر کے بقول جسم فروشی سے منسلک بہت سے عمومی تاثر مکمل طور پر درست بھی نہیں ہیں۔ زیادہ تر یہی کہا جاتا ہے کہ مشرقی یورپ، ایشیا اور افریقہ سے تعلق رکھنے والی خواتین ہی یہ کام کرتی ہیں۔ ’’دنیا کے ان خطوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کے ساتھ ساتھ جرمن لڑکیاں بھی جسم فروشی کا کام کر رہی ہیں۔ ساتھ ہی جرمنی میں تارکین وطن کے پس منظر کے حامل لڑکے، لڑکیاں حتیٰ کہ جرمن لڑکے بھی اس کام سے منسلک ہیں۔ ان میں متمول خاندانوں اور غریب گھرانوں کے افراد کے علاوہ محرومی کے شکار طبقے کے افراد بھی شامل ہیں‘‘۔

تصویر: dpa
تصویر: picture-alliance/dpa

برلن کی ایک تنظیم ’ہائیڈرا‘ کے مطابق جرمنی میں جسم فروش خواتین کی تعداد تقریباً چار لاکھ ہے۔ تاہم اس حوالے سے بھی معلومات بہت محدود ہیں۔ کام ڈھونڈنے کی نیت سے آنے والی ہر گیارہویں لڑکی نابالغ ہوتی ہے۔ ماؤرر مزید کہتی ہیں کہ اس تناظر میں مقامی سطح پر ہی معلومات حاصل ہو پاتی ہیں۔ ’’ ہمیں اس مسئلے کے بارے میں مختلف تنظیموں، سماجی کارکنوں اور جسم فروشی کا کام کرنے والوں سے ہی معلومات حاصل ہوتی ہیں، جو ہمارے لیے کافی نہیں ہوتیں‘‘۔

اس کاروبار سے بہت سے ایسے نوجوان لڑکے لڑکیاں بھی منسلک ہیں، جو اسکول بھی جاتے ہیں اور بعد دوپہر جسم فروشی کرتے ہیں۔ ایک جائزے کے مطابق ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ کوئی لڑکا یا لڑکی کسی اجنبی کے کہنے پر جسم فروشی پر رضامند ہو جائے۔ اس جانب دلچسپی پیدا کرنے میں دوستوں، جاننے والوں اور رشتہ داروں کا کردار اہم ہوتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ بھروسہ ہے۔ جسم فروشی کے کاروبار سے متاثر ہونے والوں سے رابطہ کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ متاثرہ افراد میں سے شاذ و نادر ہی کوئی کسی امدادی تنظیم کے پاس مدد کے لیے جاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسی متعدد وجوہات ہیں، جن کے باعث جسم فروشی کے جال سے رہائی ایک بہت ہی مشکل اور طویل مرحلہ ہے۔

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں