جرمنی میں ایک مستحکم حکومت کے قیام کی کوششیں ابھی تک کامیاب نہیں ہو پائیں، لیکن اس سیاسی بے یقینی کے منفی اثرات جرمن معیشت پر دکھائی نہیں دے رہے۔ اس وقت ملک میں بے روزگاری کی شرح جرمن اتحاد کے بعد کم ترین سطح پر ہے۔
اشتہار
وفاقی جرمن دفتر روزگار (بی اے) کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق یورپ کی سب سے بڑی معیشت کے حامل اس ملک میں بے روزگاری کی شرح مزید کم ہو کر 5.3 فیصد پر آ گئی ہے۔ جرمنی میں رواں برس کے ملکی انتخابات کے بعد مخلوط حکومت کے قیام کے لیے جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی جماعت دو دیگر سیاسی جماعتوں سے مذاکرات جاری رکھے ہوئے تھی۔ تاہم یہ مذاکرات ناکام ہو گئے اور ملک میں نئی حکومت کے قیام کا عمل متاثر ہوا۔
اس سیاسی بے یقینی کے منفی اثرات تاہم جرمن معیشت پر مرتب نہیں ہوئے بلکہ اس ایک مہینے کے دوران ملک میں بے روزگاری کی شرح مزید کم ہوئی ہے۔ سن 1990 میں مشرقی اور مغربی جرمنی کے اتحاد کے بعد سے اب تک ملک میں بے روزگاری یہ کم ترین شرح ہے۔
شماریات میں ان اعداد و شمار کے قابل بھروسہ ہونے کا معیار پرکھنے کے لیے رائج طریقہ کار کے مطابق بھی بے روزگاری کی شرح 5.6 فیصد ہے جو کہ معیشت سے متعلق امور کے ماہرین کی توقعات سے مطابقت رکھتی ہے۔
اس برس دنیا کے پسندیدہ ترین ممالک یہ رہے
اس سال جرمنی دنیا میں سب سے زیادہ پسند کیے جانے والے ممالک کی فہرست میں پہلے نمبر پر آ گیا ہے۔ سن 2016 کے ’نیشنز برانڈز انڈکس‘ میں امریکا پہلے نمبر پر جب کہ جرمنی دوسرے نمبر پر تھا۔
تصویر: picture-alliance/Y.Tylle
1۔ جرمنی
جرمنی نے اس برس امریکا سے پسندیدہ ترین ملک ہونے کی پوزیشن چھین لی ہے۔ جن چھ کیٹیگریز کو پیش نظر رکھ کر یہ انڈکس تیار کیا گیا، ان میں سے پانچ میں جرمنی کی کارکردگی نمایاں تھی۔ سیاحت کے شعبے میں جرمنی اب بھی دسویں نمبر پر ہے۔ مصر، روس، چین اور اٹلی کے عوام میں جرمنی کے پسند کیے جانے میں واضح اضافہ ہوا ہے۔
تصویر: picture-alliance/R. Schlesinger
2۔ فرانس
پسندیدہ ترین ممالک کی اس فہرست میں دوسرے نمبر پر جرمنی کا ہمسایہ ملک فرانس رہا۔ نئے فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں کے انتخاب نے فرانس کو دوسری پوزیشن پر لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ثقافت کے حوالے سے فرانس دنیا بھر میں پہلے جب کہ سیاحت میں دوسرے نمبر پر ہے۔
تصویر: Fotolia/ThorstenSchmitt
3۔ برطانیہ
بریگزٹ کے عوامی فیصلے کے بعد برطانیہ پسندیدہ ترین ممالک کی اس عالمی درجہ بندی میں پچھے چلا گیا تھا تاہم اس برس کے جائزے کے مطابق دنیا بھر میں بریگزٹ کی حقیقت کو تسلیم کیا جا چکا ہے۔ برآمدات، سیاحت، ثقافت اور مہاجرت کے بارے میں پالیسیوں کے حوالے سے برطانیہ پہلے پانچ ممالک میں شامل ہے اور مجموعی طور پر اس فہرست میں تیسرے نمبر پر۔
تصویر: picture-alliance/Prisma/C. Bowman
4۔ کینیڈا (مشترکہ طور پر چوتھی پوزیشن)
حکومت، عوام، مہاجرت سے متعلق پالیسیوں اور سرمایہ کاری میں بہتر کارکردگی کے باعث اس برس کے ’نیشنز برانڈز انڈکس‘ میں کینیڈا چوتھی پوزیشن پر رہا۔ مجموعی طور پر کینیڈا کا اسکور گزشتہ برس سے زیادہ مختلف نہیں تھا تاہم امریکا کی رینکنگ کم ہونے کا بھی کینیڈا کو فائدہ پہنچا۔
تصویر: picture alliance/All Canada Photos
4۔ جاپان (مشترکہ طور پر چوتھی پوزیشن)
سن 2017 کے پسندیدہ ترین ممالک کے اس انڈکس میں جاپان کی کارکردگی گزشتہ برسوں کی نسبت بہت بہتر رہی اور وہ مشترکہ طور پر کینیڈا کے ساتھ چوتھے نمبر پر رہا۔ جاپان کی برآمدات کے شعبے میں کارکردگی اس برس بھی اچھی رہی لیکن اس کے علاوہ جاپان کی حکومت، ثقافت اور مہاجرین سے متعلق پالیسیوں کو بھی عالمی طور پر سراہا گیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. Nogi
6۔ امریکا
جہاں جاپان اس فہرست میں تیزی سے اوپر آیا، وہیں امریکا کی کارکردگی مایوس کن رہی اور وہ اپنی مسلسل پہلی پوزیشن سے نیچے آتے ہوئے اس برس عالمی سطح پر دنیا کا چھٹا پسندیدہ ترین ملک قرار پایا۔ اس مایوس کن کارکردگی کا ذمہ دار ’ٹرمپ ایفیکٹ‘ کو قرار دیا جا رہا ہے اور حکومت کے شعبے میں امریکا دنیا میں تئیسویں نمبر پر آ چکا ہے۔ برآمدات کے حوالے سے تاہم امریکا کی دوسری پوزیشن برقرار رہی۔
تصویر: Skidmore, Owings & Merrill
پہلے دس ممالک
ان چھ ممالک کے علاوہ اٹلی، سوئٹزرلینڈ، آسٹریلیا اور سویڈن پسندیدہ ترین ممالک کی اس فہرست میں بالترتیب ساتویں، آٹھویں، نویں اور دسویں پوزیشن پر رہے۔
7 تصاویر1 | 7
جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی جماعت سی ڈی یو اور ہم خیال جماعت سی ایس یو نے مخلوط حکومت کے قیام کے لیے سہ طرفہ مذاکرات شروع کر رکھے تھے جو آخرکار ناکام ہو گئے۔ اس پیش رفت کے بعد بھی صارفین اور کارباری طبقے میں عدم اعتماد دکھائی ظاہر نہیں ہوا۔
یورپی مرکزی بینک کے بے پناہ تعاون کی موجودگی اور غیر ملکی منڈیوں میں جرمن مصنوعات کی بڑھتی ہوئی طلب کے باعث اقتصادی ماہرین اور حکومت نے حالیہ مہینوں کے دوران معیشت میں اضافے کی شرح کے تخمینے بھی بڑھا دیے ہیں۔
تیز رفتار اور مستحکم معاشی ترقی کے باعث چانسلر میرکل اس قدر پراعتماد تھیں کہ انہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران سن 2025 تک ملک سے بے روزگار مکمل طور پر ختم کرنے، یا اس کی شرح تین فیصد تک لانے کے عزم کا اظہار بھی کیا تھا۔ ملک کی موجودہ معاشی صورت حال کو پیش نظر رکھا جائے تو جرمنی کا سب سے امیر صوبہ باویریا مقررہ وقت میں اس ہدف تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
دنیا کے جس ملک میں بھی الیکشن کا وقت قریب آتا ہے، سیاسی رہنماؤں کے عوام سے اُن کی حالت بہتر بنانے کے وعدوں میں بھی تیزی آ جاتی ہے۔ دیکھیے کہ یورپ کی سب سے بڑی معیشت جرمنی میں انتخابی پوسٹرز کیا وعدے کرتے نظر آتے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/B.Pedersen
کرسچین ڈیموکریٹک یونین
تین بار چانسلر کے عہدے پر فائز رہنے والی انگیلا میرکل ایک بار پھر انتخابی میدان میں ہیں۔ ان کی سیاسی جماعت سی ڈی یو بیس ملین یورو خرچ کر کے جرمنی بھر میں اب تک قریب بائیس ہزار پوسٹر لگا چکی ہے۔ اس پوسٹر پر لکھا ہے، ’’ایک ایسے جرمنی کے لیے جہاں ہم اچھی طرح اور شوق سے رہ سکیں۔‘‘
تصویر: picture alliance/dpa/B.Pedersen
سوشل ڈیموکریٹک پارٹی
جرمنی کی ایک اہم اپوزیشن جماعت ایس پی ڈی نے اپنے انتخابی پوسٹر پر چانسلرشپ کے امیدوار مارٹن شُلس کی تصویر لگائی ہے۔ اس پوسٹر پر لکھا ہے، ’’مستقبل کو نئے تصورات کی ضرورت ہوتی ہے اور ایک ایسے شخص کی بھی، جو ان پر عمل درآمد کر سکے۔‘‘
فری ڈیموکریٹک پارٹی
ترقی پسندوں کی لبرل جماعت ایف ڈی پی کی الیکشن مہم پر پانچ ملین یورو خرچ کیے گئے ہیں۔ پارٹی سربراہ کرسٹیان لِنڈنر کی تصویر والے اس پوسٹر پر لکھا ہے، ’’بے صبری بھی ایک خوبی ہے۔‘‘
گرین پارٹی
ماحول پسندوں کی جرمن سیاسی جماعت گرین پارٹی کے اس پوسٹر پر لکھا ہے، ’’ماحول سب کچھ نہیں ہے لیکن ماحول کے بغیر کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔‘‘
متبادل برائے جرمنی
جرمنی کی مہاجرین اور اسلام مخالف جماعت آلٹرنیٹیو فار جرمنی یا اے ایف ڈی کے اس انتخابی پوسٹر پر ایک حاملہ عورت کی تصویر کے ساتھ یہ لکھا ہوا ہے، ’’نئے جرمن؟ ہم خود پیدا کریں گے۔ جرمنی، ہمت کرو!‘‘
لیفٹ پارٹی یا ’دی لِنکے‘
اس جرمن سیاسی جماعت نے اپنے اس پوسٹر کے لیے مختلف خطِ تحریر استعمال کیے ہیں۔ اس پوسٹر پر مختلف رنگوں میں لکھا ہے، ’’واضح طور پر دائیں بازو کی نفرت انگیزی کے خلاف، دی لِنکے‘‘