جرمنی میں تارکین وطن: روزگار کے مواقع بہت، تعصبات ابھی باقی
مقبول ملک آسٹرِڈ پرانگے / ع ا
10 فروری 2019
جرمنی میں اساتذہ، پولیس اہلکاروں اور ٹیکس آفس کے ملازمین سمیت عوامی شعبے میں کام کرنے والے کارکنوں کے طور پر تارکین وطن کے لیے روزگار کے بے شمار مواقع موجود ہیں اور آج ماضی کے مقابلے میں صورت حال بہت بہتر ہو چکی ہے۔
اشتہار
جرمنی یورپ کی سب سے بڑی معیشت ہے اور یورپی یونین کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک بھی۔ جرمنی میں پبلک سیکٹر میں بہت سے شعبے ایسے ہیں، جہاں تارکین وطن کے طور پر آنے والے اور دریں اثناء نئے جرمن شہریوں کی قانونی حیثیت حاصل کر لینے والے افراد کے لیے روزگار کے وسیع تر مواقع موجود ہیں۔
لیکن گزشتہ برسوں کے مقابلے میں کافی کم تاہم ایک مسئلہ ابھی تک موجود ہے کہ تارکین وطن کے پس منظر کے حامل ایسے جرمن شہریوں کے حوالے سے معاشرے میں موجود تعصبات ابھی پوری طرح ختم نہیں ہوئے۔ ان دنوں ایسی درپردہ متعصبانہ سوچ ماضی کے مقابلے میں بہت کم تو ہو چکی ہے لیکن اس کی موجودگی کی تردید ابھی تک نہیں کی جا سکتی۔
’ہم ہیمبرگ ہیں‘
’ہم ہیمبرگ ہیں۔ کیا تم بھی ہمارے ساتھ ہو؟‘‘ یہ ’آپ جناب‘ کے بجائے دوستانہ لہجے میں کہا اور لکھا جانے والا ایک ایسا نعرہ ہے، جو ان دنوں شمالی جرمنی کی شہری ریاست ہیمبرگ میں بار بار سنا اور پڑھا جا سکتا ہے۔
یہ دراصل ایک اشتہار بھی ہے، ہیمبرگ شہر کی انتظامیہ کی طرف سے۔ اس کا مقصد اس بندرگاہی شہر میں عوامی شعبے میں زیادہ سے زیادہ ایسے کارکنوں کو بھرتی کرنا ہے، جن کا تعلق تارکین وطن کے پس منظر والے گھرانوں سے ہوتا ہے۔
اس اشتہار کے ذریعے ماضی کے تارکین وطن اور ان کے ایسے بچوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جو اب جرمن شہری حقوق حاصل کر چکے ہیں۔ مقصد ایسے افراد کو یہ ترغیب دینا ہے کہ وہ ہیمبرگ میں پولیس اہلکاروں، اساتذہ، ڈاکٹروں، مسلم سماجی قونصلروں، فائر بریگیڈ کے کارکنوں، ٹیکس آفس کے اہلکاروں یا جیلوں کے نگران عملے کے طور پر سرکاری یا عوامی شعبے میں ممکنہ ملازمتوں میں دلچسپی لیں۔
بات صرف ہیمبرگ ہی کی نہیں ہے۔ ایسا جرمنی کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں دیکھنے میں آ رہا ہے کہ نجی اور پبلک سیکٹر کے آجرین اپنے نئے کارکنوں کے طور پر تارکین وطن کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ برلن میں ایسے ہی ایک سماجی پروگرام کے لیے یہ موٹو استعمال کیا جا رہا ہے، ’’تنوع بھی تربیت کا ذریعہ ہے۔‘‘
تعلیمی قابلیت میں مسلسل بہتری
جرمنی میں گزشتہ برسوں کے دوران تارکین وطن کے پس منظر والے خاندانوں کے نوجوانوں میں عمومی تعلیمی معیار کافی بہتر ہوا ہے۔ 2011ء میں ایسے نوجوانوں میں کامیابی سے ہائر سیکنڈری اسکول پاس کر لینے کی شرح 25 فیصد تھی۔ 2015ء تک 18 سے 25 برس تک کی عمر کے ایسے نوجوانوں میں ہائر سکینڈری اسکول (کالج) تک کامیابی سے تعلیم مکمل کر لینے والوں کا تناسب بڑھ کر 33 فیصد ہو چکا تھا۔
اس کے برعکس ایسے نوجوانوں میں، جن کا تعلق تارکین وطن کے پس منظر کے حامل خاندانوں سے نہیں تھا، ہائر سکینڈری اسکول تک تعلیم کا تناسب 2011ء میں 39 فیصد سے کم ہو کر 2015ء میں 32 فیصد ہو گیا تھا۔
تارکین وطن کی سماجی قبولیت، کن ممالک میں زیادہ؟
’اپسوس پبلک افیئرز‘ نامی ادارے نے اپنے ایک تازہ انڈیکس میں ستائیس ممالک کا جائزہ لے کر بتایا ہے کہ کن ممالک میں غیر ملکیوں کو مرکزی سماجی دھارے میں قبول کرنے کی صلاحیت زیادہ ہے۔
تصویر: picture-alliance/ dpa
۱۔ کینیڈا
پچپن کے مجموعی اسکور کے ساتھ تارکین وطن کو معاشرتی سطح پر ملک کا ’حقیقی‘ شہری تسلیم کرنے میں کینیڈا سب سے نمایاں ہے۔ کینیڈا میں مختلف مذاہب، جنسی رجحانات اور سیاسی نظریات کے حامل غیر ملکیوں کو مرکزی سماجی دھارے میں شامل کر لیا جاتا ہے۔ ترک وطن پس منظر کے حامل ایسے افراد کو، جو کینیڈا میں پیدا ہوئے، حقیقی کینیڈین شہری کے طور پر قبول کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/N. Denette
۲۔ امریکا
انڈیکس میں امریکا دوسرے نمبر پر ہے جس کا مجموعی اسکور 54 رہا۔ امریکی پاسپورٹ حاصل کرنے والے افراد اور ترک وطن پس منظر رکھنے والوں کو حقیقی امریکی شہری کے طور پر ہی سماجی سطح پر قبول کیا جاتا ہے۔
تصویر: Picture-Alliance/AP Photo/S. Senne
۳۔ جنوبی افریقہ
تارکین وطن کی سماجی قبولیت کے انڈیکس میں 52 کے مجموعی اسکور کے ساتھ جنوبی افریقہ تیسرے نمبر پر ہے۔ مختلف مذاہب کے پیروکار غیر ملکیوں کی سماجی قبولیت کی صورت حال جنوبی افریقہ میں کافی بہتر ہے۔ تاہم 33 کے اسکور کے ساتھ معاشرتی سطح پر شہریت کے حصول کے بعد بھی غیر ملکیوں کو بطور ’حقیقی‘ شہری تسلیم کرنے کا رجحان کم ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Khan
۴۔ فرانس
چوتھے نمبر پر فرانس ہے جہاں سماجی سطح پر غیر ملکی ہم جنس پرست تارکین وطن کی سماجی قبولیت دیگر ممالک کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔ تاہم جنوبی افریقہ کی طرح فرانس میں بھی پاسپورٹ حاصل کرنے کے باوجود تارکین وطن کو سماجی طور پر حقیقی فرانسیسی شہری قبول کرنے کے حوالے سے فرانس کا اسکور 27 رہا۔
تصویر: Reuters/Platiau
۵۔ آسٹریلیا
پانچویں نمبر پر آسٹریلیا ہے جس کا مجموعی اسکور 44 ہے۔ سماجی سطح پر اس ملک میں شہریت حاصل کر لینے والے غیر ملکیوں کی بطور آسٹریلین شہری شناخت تسلیم کر لی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں غیر ملکی افراد کے ہاں پیدا ہونے والے بچوں کو بھی معاشرہ حقیقی آسٹریلوی شہری قبول کرتا ہے۔
تصویر: Reuters
۶۔ چلی
جنوبی افریقی ملک چلی اس فہرست میں بیالیس کے اسکور کے ساتھ چھٹے نمبر پر ہے۔ ہم جنس پرست غیر ملکی تارکین وطن کی سماجی قبولیت کے حوالے سے چلی فرانس کے بعد دوسرا نمایاں ترین ملک بھی ہے۔ تاہم دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو ملکی مرکزی سماجی دھارے کا حصہ سمجھنے کے حوالے سے چلی کا اسکور محض 33 رہا۔
تصویر: Reuters/R. Garrido
۷۔ ارجنٹائن
ارجنٹائن چالیس کے مجموعی اسکور کے ساتھ اس درجہ بندی میں ساتویں نمبر پر ہے۔ تارکین وطن کی دوسری نسل اور ہم جنس پرست افراد کی سماجی سطح پر قبولیت کے حوالے سے اجنٹائن کا اسکور 65 سے زائد رہا۔
تصویر: Reuters/R. Garrido
۸۔ سویڈن
سویڈن کا مجموعی اسکور 38 رہا۔ ہم جنس پرست تارکین وطن کی قبولیت کے حوالے سے سویڈن کو 69 پوائنٹس ملے جب کہ مقامی پاسپورٹ کے حصول کے بعد بھی تارکین وطن کو بطور حقیقی شہری تسلیم کرنے کے سلسلے میں سویڈن کو 26 پوائنٹس دیے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
۹۔ سپین
تارکین وطن کی سماجی قبولیت کے لحاظ سے اسپین کا مجموعی اسکور 36 رہا اور وہ اس فہرست میں نویں نمبر پر ہے۔ ہسپانوی شہریت کے حصول کے بعد بھی غیر ملکی افراد کی سماجی قبولیت کے ضمن میں اسپین کا اسکور محض 25 جب کہ تارکین وطن کی دوسری نسل کو حقیقی ہسپانوی شہری تسلیم کرنے کے حوالے سے اسکور 54 رہا۔
تصویر: picture-alliance/Eventpress
۱۰۔ برطانیہ
اس درجہ بندی میں پینتیس کے مجموعی اسکور کے ساتھ برطانیہ دسویں نمبر پر ہے۔ اسپین کی طرح برطانیہ میں بھی تارکین وطن کی دوسری نسل کو برطانوی شہری تصور کرنے کا سماجی رجحان بہتر ہے۔ تاہم برطانوی پاسپورٹ حاصل کرنے کے بعد بھی تارکین وطن کو حقیقی برطانوی شہری تسلیم کرنے کے حوالے سے برطانیہ کا اسکور تیس رہا۔
تصویر: Reuters/H. Nicholls
۱۶۔ جرمنی
جرمنی اس درجہ بندی میں سولہویں نمبر پر ہے۔ جرمنی میں دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کی سماجی قبولیت کینیڈا اور امریکا کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔ اس حوالے سے جرمنی کا اسکور محض 11 رہا۔ اسی طرح جرمن پاسپورٹ مل جانے کے بعد بھی غیر ملکیوں کو جرمن شہری تسلیم کرنے کے سماجی رجحان میں بھی جرمنی کا اسکور 20 رہا۔
تصویر: Imago/R. Peters
۲۱۔ ترکی
اکیسویں نمبر پر ترکی ہے جس کا مجموعی اسکور منفی چھ رہا۔ ترکی میں دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو سماجی سطح پر ترک شہری تسلیم نہیں کیا جاتا۔ اس ضمن میں ترکی کو منفی بارہ پوائنٹس دیے گئے۔ جب کہ پاسپورٹ کے حصول کے بعد بھی تارکین وطن کو حقیقی ترک شہری تسلیم کرنے کے حوالے سے ترکی کا اسکور منفی بائیس رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/epa/AFP/A. Altan
12 تصاویر1 | 12
پیشہ ورانہ تربیت میں بھی پرعزم
جہاں تک جرمنی میں تارکین وطن کے پس منظر والے شہریوں کی پیشہ ورانہ قابلیت کا تعلق ہے، تو اس میں بھی گزشتہ کئی برسوں سے مسلسل بہتری دیکھنے میں آ رہی ہے۔ 2015ء میں جرمنی میں جتنے بھی افراد نے ملازمتوں کے لیے درخواستیں دیں، ان میں تارکین وطن کے گھرانوں سے تعلق رکھنے والے اور 35 برس تک کی عمر کے 38 فیصد درخواست دہندگان ایسے تھے جنہوں نے باقاعدہ طور پر کوئی نہ کوئی پیشہ ورانہ ترتبیت حاصل کر رکھی تھی۔
جرمنی میں ملازمتیں، کس ملک کے تارکین وطن سر فہرست رہے؟
سن 2015 سے اب تک جرمنی آنے والے مہاجرین اور تارکین وطن میں سے اب ہر چوتھا شخص برسرروزگار ہے۔ پکچر گیلری میں دیکھیے کہ کس ملک کے شہری روزگار کے حصول میں نمایاں رہے۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
شامی مہاجرین
گزشتہ تین برسوں کے دوران پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے شامی مہاجرین کی تعداد سوا پانچ لاکھ سے زائد رہی۔ شامیوں کو جرمنی میں بطور مہاجر تسلیم کرتے ہوئے پناہ دیے جانے کی شرح بھی سب سے زیادہ ہے۔ تاہم جرمنی میں روزگار کے حصول میں اب تک صرف بیس فیصد شامی شہری ہی کامیاب رہے ہیں۔
تصویر: Delchad Heji
افغان مہاجرین
سن 2015 کے بعد سے اب تک جرمنی میں پناہ کی درخواستیں جمع کرانے والے افغان باشندوں کی تعداد ایک لاکھ نوے ہزار بنتی ہے۔ اب تک ہر چوتھا افغان تارک وطن جرمنی میں ملازمت حاصل کر چکا ہے۔
تصویر: DW/M. Hassani
اریٹرین تارکین وطن
افریقی ملک اریٹریا سے تعلق رکھنے والے چھپن ہزار سے زائد مہاجرین اس دوران جرمنی آئے، جن میں سے اب پچیس فیصد کے پاس روزگار ہے۔
تصویر: Imago/Rainer Weisflog
عراقی مہاجرین
اسی عرصے میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد عراقی بھی جرمنی آئے اور ان کی درخواستیں منظور کیے جانے کی شرح بھی شامی مہاجرین کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ تاہم اب تک ایک چوتھائی عراقی تارکین وطن جرمنی میں ملازمتیں حاصل کر پائے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/W. Kastl
صومالیہ کے مہاجرین
افریقی ملک صومالیہ کے قریب سترہ ہزار باشندوں نے اس دورانیے میں جرمن حکام کو اپنی سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ اب تک صومالیہ سے تعلق رکھنے والے پچیس فیصد تارکین وطن جرمنی میں نوکریاں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Pleul
ایرانی تارکین وطن
ان تین برسوں میں قریب چالیس ہزار ایرانی شہری بھی بطور پناہ گزین جرمنی آئے۔ جرمنی کے وفاقی دفتر روزگار کی رپورٹ کے مطابق اب تک ان ایرانی شہریوں میں سے قریب ایک تہائی جرمنی میں ملازمتیں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
نائجیرین تارکین وطن
افریقی ملک نائجیریا سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں کو بھی جرمنی میں روزگار ملنے کی شرح نمایاں رہی۔ جرمنی میں پناہ گزین پچیس ہزار نائجیرین باشندوں میں سے تینتیس فیصد افراد کے پاس روزگار ہے۔
تصویر: DW/A. Peltner
پاکستانی تارکین وطن
جرمنی میں ملازمتوں کے حصول میں پاکستانی تارکین وطن سر فہرست رہے۔ سن 2015 کے بعد سیاسی پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے قریب بتیس ہزار پاکستانی شہریوں میں سے چالیس فیصد افراد مختلف شعبوں میں نوکریاں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Reinders
8 تصاویر1 | 8
ایسے درخواست دہندگان میں یونیورسٹی کی سطح تک تعلیم مکمل کرنے والے افراد کا تناسب 16 فیصد تھا۔
جرمن شہر ہَیرنے کے ایک ووکیشنل کالج میں انگریزی زبان کی ترک نژاد خاتون ٹیچر جمیلہ اُورُوک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہم کچھ نہ کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے ہمیں اپنے والدین کی نسل کی طرف دیکھنا چاہیے۔ وہ اس لیے جرمنی نہیں آئے تھے کہ ہم کچھ بھی نہ کریں۔ ہم اتنی محنت اس لیے کرتے ہیں کہ ہم کچھ حاصل کرنا، کچھ بننا چاہتے ہیں۔‘‘
وفاقی سطح پر حوصلہ افزا اعداد و شمار
جرمنی میں عوامی شعبے میں ملازمتوں کے لیے تارکین وطن کو دستیاب روزگار کے مواقع کی صورت حال بھی ماضی کے مقابلے میں کافی بہتر ہوئی ہے۔
جرمنی میں آبادی سے متعلقہ امور پر تحقیق کرنے والے وفاقی انسٹیٹیوٹ BIB اور وفاقی دفتر شماریات کے مطابق ملک کے 24 بڑے وفاقی محکموں اور وزراتوں میں کام کرنے والے ایسے ملازمین اور اہلکاروں کی شرح 2015ء میں 15 فیصد تک پہنچ چکی تھی، جن کا تعلق تارکین وطن کے پس منظر والے گھرانوں سے تھا۔
2017ء: کس ملک کے کتنے شہری پناہ کی تلاش میں جرمنی پہنچے؟
جرمنی میں سن 2017 کے دوران مہاجرین اور تارکین وطن کی آمد میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔ 2017 میں ایک لاکھ اسی ہزار، 2016 میں دو لاکھ اسی ہزار جب کہ سن 2015 میں قریب ایک ملین افراد پناہ کی تلاش میں جرمنی آئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
۱۔ شام
2017ء میں بھی جرمنی میں سب سے زیاد مہاجرین خانہ جنگی کے شکار ملک شام سے آئے۔ بی اے ایم ایف کے مطابق سن 2017ء میں شام کے پچاس ہزار سے زائد شہریوں نے جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ قریب 92 فیصد شامیوں کو پناہ دی گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
۲۔ عراق
عراقی مہاجرین دوسرے نمبر پر رہے اور گزشتہ برس تئیس ہزار چھ سو سے زائد عراقیوں نے جرمنی میں حکام کو پناہ کی درخواستیں دیں۔ چھپن فیصد سے زائد عراقی شہریوں کو پناہ کا حقدار سمجھا گیا۔
۳۔ افغانستان
گزشتہ برس افغان شہریوں کی جرمنی آمد اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں آٹھ فیصد کم ہونے کے باوجود افغان تارکین وطن اٹھارہ ہزار سے زائد درخواستوں کے ساتھ تعداد کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر رہے۔ چوالیس فیصد افغان درخواست گزار پناہ کے حقدار قرار پائے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Thissen
۴۔ اریٹریا
افریقی ملک اریٹریا کے دس ہزار سے زائد شہریوں نے بھی جرمنی میں پناہ کی درخواستیں دیں۔ اریٹرین باشندوں کو جرمنی میں پناہ ملنے کی شرح 83 فیصد رہی۔
تصویر: picture alliance/dpa/U. Zucchi
۵۔ ایران
2017ء میں اسلامی جمہوریہ ایران کے نو ہزار سے زائد شہری پناہ کی تلاش میں جرمنی پہنچے اور ان کی درخواستوں کی کامیابی کا تناسب پچاس فیصد کے لگ بھگ رہا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
۶۔ ترکی
ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد حکومتی کریک ڈاؤن کے بعد ساڑھے آٹھ ہزار ترک شہریوں نے جرمنی میں پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ ترک شہریوں کو پناہ ملنے کا تناسب اٹھائیس فیصد رہا۔
تصویر: Imago/Chromeorange/M. Schroeder
۷۔ نائجیریا
افریقی ملک نائجیریا سے بھی مزید آٹھ ہزار تین سو تارکین وطن گزشتہ برس جرمنی پہنچے۔ اس برس محض 17 فیصد نائجیرین باشندوں کو جرمنی میں پناہ ملی۔
تصویر: A.T. Schaefer
۸۔ صومالیہ
ساتویں نمبر پر ایک اور افریقی ملک صومالہ رہا، جہاں سے ساڑھے سات ہزار سے زائد نئے تارکین وطن گزشتہ برس پناہ کی تلاش میں جرمنی پہنچے۔ دیگر افریقی ممالک کے مقابلے میں صومالیہ کے شہریوں کو پناہ ملنے کا تناسب بھی زیادہ (اسی فیصد سے زائد) رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Skolimowska
۹۔ روس
سن 2017 میں روس سے تعلق رکھنے والے چھ ہزار شہری پناہ کی تلاش میں جرمنی آئے۔ تاہم روسی شہریوں کو پناہ ملنے کی شرح محض نو فیصد رہی۔
تصویر: Dimitriy Chunosov
۱۰۔ جن کی قومیت معلوم نہیں
اس برس دسویں نمبر پر ایسے تارکین وطن رہے جن کی قومیت شناخت کے بارے میں جرمن حکام کو علم نہیں۔ بی اے ایم ایف کے مطابق ایسے افراد کی تعداد قریب ساڑھے چار ہزار سے کچھ رہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Deck
۱۱۔ پاکستان
سن 2011 کے بعد اس برس پاکستانی تارکین وطن تعداد کے اعتبار سے پہلی مرتبہ ٹاپ ٹین ممالک میں شامل نہیں تھے۔ سن 2017 میں قریب ساڑھے چار ہزار پاکستانیوں نے جرمنی میں حکام کو پناہ کی درخواستیں دیں۔
تصویر: Privat
11 تصاویر1 | 11
تعصبات کی نوعیت
جرمن ماہر سماجیات اور تارکین وطن کے سماجی انضمام پر تحقیق کرنے والے محقق علاؤالدین المفالانی شامی تارکین وطن کے ایک گھرانے میں لیکن جرمنی ہی میں ہیدا ہوئے تھے۔ وہ جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے دارالحکومت ڈسلڈورف میں بچوں، خاندانوں، مہاجرین اور سماجی انضمام سے متعلقہ امور کی صوبائی وزارت میں ایک شعبے کے سربراہ ہیں۔ المفالانی ایک بہت زیادہ فروخت ہونے والی کتاب کے مصنف بھی ہیں، جس کا عنوان تھا، ’’سماجی انضمام، ایک تضاد۔‘‘
المفالانی کہتے ہیں کہ تعصبات صرف اکثریتی مقامی جرمن آبادی اور تارکین وطن کے مابین ہی نہیں پائے جاتے، بلکہ خود تارکین وطن کے مختلف سماجی اور نسلی گروپوں میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ خود اعتمادی کا فقدان، ناکافی تعلیمی قابلیت، بداعتمادی، ثقافتی فاصلے اور ذہنوں میں بہت گہری حد تک موجود کئی طرح کے تعصبات اور پہلے ہی سے قائم کر لی گئی سوچیں وہ عوامل ہیں، جو جرمنی میں معاشرتی اور روزگار کی سطح پر تارکین وطن کے بہتر انضمام کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں۔ المفالانی کے بقول سماجی سطح پر تعصب کوئی ’ون وے روڈ‘ نہیں ہوتی بلکہ ایک دوطرفہ عمل ہوتا ہے۔
جرمنی: زیر تربیت مہاجرین کا تعلق ان ممالک سے ہے
گزشتہ برس مجموعی طور پر نو ہزار تین سو تارکین وطن کو مختلف جرمن کمپنیوں میں فنی تربیت (آؤس بلڈُنگ) کے حصول کی اجازت ملی۔ زیادہ تر مہاجرین کا تعلق مندرجہ ذیل ممالک سے ہے.
تصویر: D. Kaufmann
۱۔ افغانستان
افغانستان سے تعلق رکھنے والے 3470 مہاجرین اور تارکین وطن مختلف جرمن کمپنوں میں زیر تربیت ہیں۔
تصویر: DW/A. Grunau
۲۔ شام
جرمنی میں شامی مہاجرین تعداد کے حوالے سے پہلے نمبر پر ہیں، لیکن زیر تربیت مہاجرین کی تعداد محض ستائیس سو رہی، جو افغان پناہ گزینوں سے بھی کم ہے۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
۳۔ عراق
ملک بھر کی مختلف کمپنیوں میں آٹھ سو عراقی مہاجرین تربیت حاصل کر رہے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/W. Kastl
۴۔ اریٹریا
افریقی ملک اریٹریا سے تعلق رکھنے والے سات سو دس تارکین وطن کو فنی تربیت کے حصول کے لیے جرمن کمپنیوں نے قبول کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Rumpenhorst
۵۔ ایران
جرمنی میں پناہ کے متلاشی ایرانیوں کی تعداد تو زیادہ نہیں ہے لیکن فنی تربیت حاصل کرنے والے ایرانی تارکین وطن تعداد (570) کے اعتبار سے پانچویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
۶۔ پاکستان
چھٹے نمبر پر پاکستانی تارکین وطن آتے ہیں اور گزشتہ برس ساڑھے چار سو پاکستانی شہریوں کو جرمن کمپنیوں میں انٹرنشپ دی گئی۔
تصویر: DW/R. Fuchs
۷۔ صومالیہ
اس حوالے سے ساتواں نمبر صومالیہ کے تارکین وطن کا ہے۔ صومالیہ کے 320 تارکین وطن کو فنی تربیت فراہم کی گئی۔
تصویر: DW/A. Peltner
۸۔ نائجیریا
افریقی ملک نائجیریا سے تعلق رکھنے والے 280 پناہ گزینوں کو گزشتہ برس جرمنی میں فنی تربیت حاصل کرنے کا موقع ملا۔