جرمنی میں تارکین وطن، ملازمت کُل وقتی لیکن اُجرت بہت کم
صائمہ حیدر
19 مارچ 2018
ایک رپورٹ میں دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں کُل وقتی ملازمت کرنے والے تارکین وطن کی آمدنی کام کرنے والے دیگر افراد کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم ہے۔
اشتہار
جرمنی میں ’فُنکے میڈیا گروپ‘ نے آج بروز پیر جرمن وفاقی ایجنسی برائے ملازمت و روزگار کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سال 2016 میں آٹھ ممالک سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کی کُل آمدنی انیس سو سولہ یورو ماہانہ تھی جس میں سے ابھی ٹیکس اور دیگر کٹوتیاں ہونی باقی تھیں۔
مختلف ممالک کے پناہ گزینوں کی آمدن میں فرق بھی نمایاں رہا مثلاﹰ ایرانی تارکین وطن کی ماہانہ آمدنی سب سے زیادہ یعنی 2541 یورو جبکہ سب سے کم تنخواہ اریٹیریا کے مہاجرین کی رہی جو کہ اوسطاً 1704 یورو ماہانہ تھی۔
اوسط آمدنی والے تارکین وطن کا تعلق شام، پاکستان، صومالیہ، افغانستان، نائجیریا اور عراق کے ممالک سے تھا تاہم ان پناہ گزینوں کی ماہانہ آمدن 2000 یورو سے کم ہی رہی۔
کُل وقتی ملازمت کرنے والے 65،000 تارکین وطن میں سے 55،000 کا تعلق مہاجرت کے تناظر میں آٹھ اہم ممالک سے تھا۔
سن 2016 میں جرمنی میں کم سے کم آمدن کی حد 2088 یورو تھی۔ لیکن وفاقی جرمن ایجنسی برائے روزگار کے مطابق اس سال جنگوں اور تنازعات کے شکار آٹھ سرفہرست ممالک سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کو سب سے کم اجرتیں ملیں۔
بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی رکن پارلیمان سبینے سِمرمن نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے ’فنکے میڈیا گروپ‘ کو بتایا کہ تارکین وطن کو کم تنخواہیں ملنے کا الزام لیبر مارکیٹ پالیسیوں پر عائد ہوتا ہے۔ سمرمن کا کہنا تھا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ مہاجرین کی تربیت کے مواقع بڑھائے جائیں اور انہیں مستقل بنیادوں پر ملازمتیں فراہم کی جائیں۔
2017ء: کس ملک کے کتنے شہری پناہ کی تلاش میں جرمنی پہنچے؟
جرمنی میں سن 2017 کے دوران مہاجرین اور تارکین وطن کی آمد میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔ 2017 میں ایک لاکھ اسی ہزار، 2016 میں دو لاکھ اسی ہزار جب کہ سن 2015 میں قریب ایک ملین افراد پناہ کی تلاش میں جرمنی آئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
۱۔ شام
2017ء میں بھی جرمنی میں سب سے زیاد مہاجرین خانہ جنگی کے شکار ملک شام سے آئے۔ بی اے ایم ایف کے مطابق سن 2017ء میں شام کے پچاس ہزار سے زائد شہریوں نے جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ قریب 92 فیصد شامیوں کو پناہ دی گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
۲۔ عراق
عراقی مہاجرین دوسرے نمبر پر رہے اور گزشتہ برس تئیس ہزار چھ سو سے زائد عراقیوں نے جرمنی میں حکام کو پناہ کی درخواستیں دیں۔ چھپن فیصد سے زائد عراقی شہریوں کو پناہ کا حقدار سمجھا گیا۔
۳۔ افغانستان
گزشتہ برس افغان شہریوں کی جرمنی آمد اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں آٹھ فیصد کم ہونے کے باوجود افغان تارکین وطن اٹھارہ ہزار سے زائد درخواستوں کے ساتھ تعداد کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر رہے۔ چوالیس فیصد افغان درخواست گزار پناہ کے حقدار قرار پائے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Thissen
۴۔ اریٹریا
افریقی ملک اریٹریا کے دس ہزار سے زائد شہریوں نے بھی جرمنی میں پناہ کی درخواستیں دیں۔ اریٹرین باشندوں کو جرمنی میں پناہ ملنے کی شرح 83 فیصد رہی۔
تصویر: picture alliance/dpa/U. Zucchi
۵۔ ایران
2017ء میں اسلامی جمہوریہ ایران کے نو ہزار سے زائد شہری پناہ کی تلاش میں جرمنی پہنچے اور ان کی درخواستوں کی کامیابی کا تناسب پچاس فیصد کے لگ بھگ رہا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
۶۔ ترکی
ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد حکومتی کریک ڈاؤن کے بعد ساڑھے آٹھ ہزار ترک شہریوں نے جرمنی میں پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ ترک شہریوں کو پناہ ملنے کا تناسب اٹھائیس فیصد رہا۔
تصویر: Imago/Chromeorange/M. Schroeder
۷۔ نائجیریا
افریقی ملک نائجیریا سے بھی مزید آٹھ ہزار تین سو تارکین وطن گزشتہ برس جرمنی پہنچے۔ اس برس محض 17 فیصد نائجیرین باشندوں کو جرمنی میں پناہ ملی۔
تصویر: A.T. Schaefer
۸۔ صومالیہ
ساتویں نمبر پر ایک اور افریقی ملک صومالہ رہا، جہاں سے ساڑھے سات ہزار سے زائد نئے تارکین وطن گزشتہ برس پناہ کی تلاش میں جرمنی پہنچے۔ دیگر افریقی ممالک کے مقابلے میں صومالیہ کے شہریوں کو پناہ ملنے کا تناسب بھی زیادہ (اسی فیصد سے زائد) رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Skolimowska
۹۔ روس
سن 2017 میں روس سے تعلق رکھنے والے چھ ہزار شہری پناہ کی تلاش میں جرمنی آئے۔ تاہم روسی شہریوں کو پناہ ملنے کی شرح محض نو فیصد رہی۔
تصویر: Dimitriy Chunosov
۱۰۔ جن کی قومیت معلوم نہیں
اس برس دسویں نمبر پر ایسے تارکین وطن رہے جن کی قومیت شناخت کے بارے میں جرمن حکام کو علم نہیں۔ بی اے ایم ایف کے مطابق ایسے افراد کی تعداد قریب ساڑھے چار ہزار سے کچھ رہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Deck
۱۱۔ پاکستان
سن 2011 کے بعد اس برس پاکستانی تارکین وطن تعداد کے اعتبار سے پہلی مرتبہ ٹاپ ٹین ممالک میں شامل نہیں تھے۔ سن 2017 میں قریب ساڑھے چار ہزار پاکستانیوں نے جرمنی میں حکام کو پناہ کی درخواستیں دیں۔