1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہجرمنی

جرمنی میں تارکین وطن کا انضمام نسبتاﹰ بہتر، او ای سی ڈی

13 جولائی 2024

او ای سی ڈی کے ایک مطالعے کے مطابق جرمنی اس طویل بحث کا متحمل نہیں ہو سکتا کہ آیا وہ ’تارکین وطن والا ملک‘ ہے۔

ایک حالیہ مطالعے کے نتیجے میں سامنے آیا ہے کہ جرمنی میں تارکین وطن اور پناہ کے متلاشی غیر ملکیوں کا معاشرتی انضمام کئی دیگر یورپی ممالک کے مقابلے میں بہتر طور پر ہو رہا ہے
ایک حالیہ مطالعے کے نتیجے میں سامنے آیا ہے کہ جرمنی میں تارکین وطن اور پناہ کے متلاشی غیر ملکیوں کا معاشرتی انضمام کئی دیگر یورپی ممالک کے مقابلے میں بہتر طور پر ہو رہا ہےتصویر: Getty Images/S. Gallup

ایک حالیہ مطالعے کے نتیجے میں سامنے آیا ہے کہ جرمنی میں تارکین وطن اور پناہ کے متلاشی غیر ملکیوں کا معاشرتی انضمام کئی دیگر یورپی ممالک کے مقابلے میں بہتر طور پر ہو رہا ہے۔

یہ مطالعاتی جائزہ 38 ممالک پر مشتمل تنظیم برائے اقتصادی تعاون و ترقی (او ای سی ڈی) کی جانب سے جرمنی کی کمشنر برائے سماجی انضمام ریم الابالی رادووان کے کہنے پر مکمل کیا گیا۔

اس مطالعے کے دوران اوا ی سی ڈی سے منسلک ماہر ٹوماس لِیبِش نے یورپ سے باہر آسٹریلیا اور یورپ میں بیلجیم، ڈنمارک، فرانس، اٹلی اور اسکینڈے نیویا کی ریاستوں سمیت کئی دیگر ممالک کے ڈیٹا کا موازنہ کیا۔ وہ اس موازنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ جرمنی میں زیادہ تر تارکین وطن دراصل یورپی یونین کے رکن دیگر ممالک سے آتے ہیں اور جرمنی میں مجموعی طور پر تارکین وطن اور پناہ کے متلاشی افراد پر کافی زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔

ٹوماس لِیبِش نے اس اسٹڈی کے نتائج جاری کرتے ہوئے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ پچھلے دس سالوں میں جرمنی میں رہائش اختیار کرنے والے ہر پانچ تارکین وطن میں سے صرف ایک پناہ گزین تھا۔

’تارکین وطن والا ملک‘

اس مطالعے میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ تارکین وطن طویل عرصے سے جرمنی کا رخ کر رہے ہیں۔

اس حوالے سے ریم الابالی رادووان کہتی ہیں، ''یہ ہمیشہ سے تارکین وطن کا ہی ملک رہا ہے اور اس سے ہم مضبوط ہوئے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید بتایا کہ کئی طرح کے تارکین وطن جرمنی آتے رہے ہیں، دوسری عالمی جنگ، شام اور افغانستان کے پناہ گزینوں سے لے کر روزگار کے متلاشی افراد تک۔

ستر فیصد تارکین وطن بر سر روزگار

اوا ی سی ڈی کے مطالعے سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا گیا ہے کہ جرمنی میں تارکین وطن کے بہتر سماجی انضمام میں بڑا ہاتھ ان کے اس ملک کی افرادی قوت کا حصہ بن جانے کا بھی ہے۔ اس مطالعے کے مطابق گزشتہ ایک عشرے کے دوران جرمنی آنے والے 70 فیصد تارکین وطن کو یہاں ملازمت ملی ہوئی ہے۔ جرمنی میں ایسے افراد میں کوئی نہ کوئی کام کرنے والے تارکین وطن کا یہ تناسب یورپی یونین کے تمام رکن ممالک کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔

جرمنی کو لاکھوں ہنر مند افراد درکار، ويزا پاليسی نرم

03:12

This browser does not support the video element.

تارکین وطن سے متعلق مسائل

جرمنی میں تاہم تارکین وطن کے حوالے سے متعدد مسائل بھی موجود ہیں۔ جرمنی آنے والے تارکین وطن میں سے دو تہائی یہاں آنے کے بعد پانچ سال کے اندر اندر اچھی طرح جرمن زبان بولنا سیکھ جاتے ہیں۔ تاہم جن تارکین وطن نے کوئی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی ہوتی، ان میں یہ تناسب نہایت کم ہے اور ان میں سے صرف تقریباﹰ 50 فیصد کو ہی کوئی نہ کوئی ملازمت مل پاتی ہے۔

علاوہ ازیں بغیر شوہر کے لیکن بچوں کے ساتھ جرمنی آنے والی تارک وطن خواتین کو بھی یہاں ملازمت آسانی سے نہیں مل پاتی۔ سن 2021 میں جرمنی میں مقیم ایسی خواتین میں سے صرف 40 فیصد نوکری کر رہی تھیں۔ ان کی نسبت جرمنی میں پیدا ہونے والی ایسی خواتین میں ملازمت پیشہ خواتین کا تناسب 70 فیصد تھا۔ دوسرے ممالک کے مقابلے میں جرمنی میں ان دونوں طرح کے اعداد و شمار میں کافی زیادہ فرق پایا جاتا ہے۔

’جذباتی بحث‘

تنظیم برائے اقتصادی تعاون و ترقی کے مطالعے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان تمام مسائل کے باوجود جرمنی اس طویل بحث میں پڑنے کا متحمل نہیں ہو سکتا کہ آیا یہ 'تارکین وطن والا ملک‘ ہے۔

اس حوالے سے ٹوماس لِیبِش کا کہنا ہے، ''جرمنی میں اب 14 ملین سے زیادہ تارکین وطن ہیں۔ اور جب ہم ان میں ایسے افراد کو بھی شامل کر لیں جن کے والدین تارکین وطن ہیں یا تھے، تو اس ملک میں ہر پانچ میں سے اوسطاﹰ ایک شخص ایسا ہو گا جو یا تو خود تارک وطن ہو گا یا جس کے والدین تارکین وطن تھے۔‘‘

دوسری جانب ریم الابالی رادووان جرمنی کے 'تارکین وطن والا ملک‘ ہونے کے حوالے سے بحث کو ایک ''جذباتی بحث‘‘ قرار دیتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس بحث کے حوالے سے معروضیت پسندانہ رویے کو فروغ دینے کے لیے ہی انہوں نے یہ مطالعاتی جائزہ لیے جانے کا فیصلہ کیا تھا۔

ریم الابالی رادووان کے بقول اگر تارکین وطن کے سماجی انضمام کا بین الاقوامی سطح پر جائزہ لیا جائے، تو جرمنی میں یہ عمل اس سے کہیں بہتر طور پر ہو رہا ہے، جیسا کہ اس کے بارے میں عموماﹰ خیال کیا جاتا ہے۔

کیا جرمنی میں تارکین وطن اور اسلام کے خلاف منفی جذبات بڑھ رہے ہیں؟

06:07

This browser does not support the video element.

م  ا⁄ م م (ژینس تُھوراؤ)

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں