جرمنی: تارکین وطن کے لیے نرم قوانین، بارہ لاکھ کارکن درکار
مقبول ملک زابینے کنکارٹس / ع ا
10 مئی 2019
کیا آپ یورپی یونین سے باہر کے کسی ملک کے شہری کے طور پر جرمنی میں آباد ہونا اور کام کرنا چاہتے ہیں؟ ایسا ہونا بالعموم اتنا آسان نہیں تھا لیکن اب جرمنی کو کم از کم بھی مزید بارہ لاکھ ماہر کارکنوں کی ضرورت ہے۔
اشتہار
تاریخی طور پر یہ بات سچ ہے کہ جرمنی نے آج تک خود کو کوئی ایسا ملک سمجھا ہی نہیں، جہاں دیگر ممالک سے آنے والے تارکین وطن بڑی تعداد میں آباد ہوتے رہے ہوں۔ اب لیکن صورت حال تیزی سے بدل رہی ہے اور جرمن ریاست اور حکمرانوں کو بھی یہ احساس ہوتا جا رہا ہےکہ مستقبل میں ملکی اقتصادی ترقی کی رفتار کو قائم رکھنا دو وجوہات کے باعث مشکل تر ہو جائے گا: ایک تو یہ کہ ملک میں بچوں کی شرح پیدائش بہت کم ہے اور معاشرے میں بزرگ شہریوں کا تناسب بھی مسلسل زیادہ ہوتا جا رہا ہے۔ دوسرے یہ کہ جرمن معیشت کو اس وقت کم از کم بھی مزید 1.2 ملین ماہر کارکنوں کی ضرورت ہے اور اس کے لیے تارکین وطن پر ہی انحصار کرنا ہو گا۔
جرمنی کا سب سے ’بوڑھا‘ شہر
اس طرح کے حالات کی ایک مثال جرمنی کے مشرقی صوبے تھیورنگیا کا چھوٹا سا شہر زُوہل ہے، جو وفاقی صوبے ہیسے کے سرحد کے قریب واقع ہے۔ قریب تین عشرے قبل دیوار برلن کے گرائے جانے کے بعد سے اب تک اس شہر کے ایک تہائی باسی وہاں سے رخصت ہو چکے ہیں۔ اب وہاں صرف 35 ہزار افراد رہتے ہیں، جن کی اکثریت بزرگ شہریوں پر مشتمل ہے۔ زُوہل میں اس وقت عام شہریوں کی اوسط عمر 50 سال سے زائد بنتی ہے اور یوں یہ شہر جرمنی کا، اگر کہا جا سکے، تو اپنی آبادی کی وجہ سے ’سب سے بوڑھا شہر‘ ہے۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہاں بزرگ شہریوں کی پینشنیں کم ہیں، بوڑھے شہریوں کی دیکھ بھال کے لیے طبی شعبے کے کارکنوں کی سخت کمی ہے اور اپنے اپنے شعبے کے ماہر کارکن بھی مناسب قرار دی جا سکنے والی تعداد میں مقامی طور پر دستیاب نہیں ہیں۔ اب ایک تجرباتی منصوبے کے تحت تھیورنگیا کے ایوان صنعت و تجارت کی مدد سے شہر زُوہل کی انتظامیہ نے پروگرام بنایا ہے کہ ماہر کارکنوں کی کمی کو پورا کرنے کے لیے نوجوان ویت نامی کارکنوں کی مدد لی جائے۔
جرمنی میں برسر روزگار غیر ملکیوں کا تعلق کن ممالک سے؟
وفاقی جرمن دفتر روزگار کے مطابق جرمنی میں کام کرنے والے بارہ فیصد افراد غیر ملکی ہیں۔ گزشتہ برس نومبر تک ملک میں چالیس لاکھ اٹھاون ہزار غیر ملکی شہری برسر روزگار تھے۔ ان ممالک پر ایک نظر اس پکچر گیلری میں:
تصویر: picture alliance/dpa/H. Schmidt
1۔ ترکی
جرمنی میں برسر روزگار غیر ملکیوں میں سے سب سے زیادہ افراد کا تعلق ترکی سے ہے۔ ایسے ترک باشندوں کی تعداد 5 لاکھ 47 ہزار بنتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Nietfeld
2۔ پولینڈ
یورپی ملک پولینڈ سے تعلق رکھنے والے 4 لاکھ 33 ہزار افراد گزشتہ برس نومبر تک کے اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں برسر روزگار تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
3۔ رومانیہ
رومانیہ سے تعلق رکھنے والے 3 لاکھ 66 ہزار افراد جرمنی میں کام کر رہے ہیں۔
تصویر: AP
4۔ اٹلی
یورپی یونین کے رکن ملک اٹلی کے بھی 2 لاکھ 68 ہزار شہری جرمنی میں برسر روزگار ہیں۔
تصویر: picture-alliance/blickwinkel/McPHOTO
5۔ کروشیا
یورپی ملک کروشیا کے قریب 1 لاکھ 87 ہزار شہری جرمنی میں کام کر رہے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/M. Gerten
6۔ یونان
یورپی یونین کے رکن ملک یونان کے قریب 1 لاکھ 49 ہزار باشندے جرمنی میں برسر روزگار ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Steffen
7۔ بلغاریہ
جرمنی میں ملازمت کرنے والے بلغاریہ کے شہریوں کی تعداد بھی 1 لاکھ 34 ہزار کے قریب ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Kalaene
8۔ شام
شامی شہریوں کی بڑی تعداد حالیہ برسوں کے دوران بطور مہاجر جرمنی پہنچی تھی۔ ان میں سے قریب 1 لاکھ 7 ہزار شامی باشندے اب روزگار کی جرمن منڈی تک رسائی حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Kögel
9۔ ہنگری
مہاجرین کے بارے میں سخت موقف رکھنے والے ملک ہنگری کے 1 لاکھ 6 ہزار شہری جرمنی میں کام کر رہے ہیں۔
جرمنی میں کام کرنے والے روسی شہریوں کی تعداد 84 ہزار ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/H. Schmidt
17۔ افغانستان
شامی مہاجرین کے بعد پناہ کی تلاش میں جرمنی کا رخ کرنے والوں میں افغان شہری سب سے نمایاں ہیں۔ جرمنی میں کام کرنے والے افغان شہریوں کی مجموعی تعداد 56 ہزار بنتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J.-U. Koch
19۔ بھارت
بھارتی شہری اس اعتبار سے انیسویں نمبر پر ہیں اور جرمنی میں کام کرنے والے بھارتیوں کی مجموعی تعداد 46 ہزار سے زائد ہے۔
تصویر: Bundesverband Deutsche Startups e.V.
27۔ پاکستان
نومبر 2018 تک کے اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں برسر روزگار پاکستانی شہریوں کی تعداد 22435 بنتی ہے۔ ان پاکستانی شہریوں میں قریب دو ہزار خواتین بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Reinders
13 تصاویر1 | 13
رہائش بھی، پیشہ ورانہ تربیت بھی
تھیورنگیا میں جو نوجوان ویت نامی کارکن آئے ہیں، انہی میں سے ایک کارکن کاؤ کوآنگ تروآنگ ہیں، جو گزشتہ آٹھ ماہ سے جرمنی میں ہیں۔ وہ تعمیراتی شعبے کے ایک ماہر کارکن کے طور پر پیشہ ورانہ تربیت حاصل کر رہے ہیں۔ یہ 22 سالہ ویت نامی شہری اس بات پر بہت خوش ہیں کہ انہیں جرمنی آ کر پیشہ ورانہ تربیت حاصل کرنے کا موقع ملا، جس کے بعد جرمنی میں ان کا کیریئر بھی یقینی ہو گا اور وہ یہاں مستقل رہائش بھی اختیار کر سکیں گے۔
وہ کہتے ہیں، ’’مجھے سب سے زیادہ خوشی اپنے کام کے ساتھیوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔ کبھی کبھی کام بہت سخت اور زیادہ ہوتا ہے۔ لیکن پھر ہم سب مل کر ہنستے ہیں اور مجھے ان کے ساتھ مل کر کام کرنے کا ایک نیا جوش و جذبہ ملتا ہے۔‘‘
جس کے پاس کام ہے، وہ آ جائے
جرمنی میں ایسے غیر ملکیوں کی تعداد تقریباﹰ 11 ملین ہے، جو جرمن شہری تو نہیں ہیں لیکن یہاں قانونی طور پر رہتے ہوئے کام کرتے ہیں۔ ان میں سے ہر سال 10 ہزار سے زائد غیر ملکی جرمن شہریت بھی حاصل کر لیتے ہیں۔
ان اعداد و شمار کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ جرمن ریاست خود کو ماضی میں عام طور پر کوئی ایسا ملک نہیں سمجھتی تھی، جہاں روایتی طور پر بڑی تعداد میں تارکین وطن آ کر آباد ہوتے ہوں، لیکن آج کے جرمنی کا نیا سچ یہ ہے کہ یہ ملک، جو یورپی یونین کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے، واقعی ایک ’امیگریشن سوسائٹی‘ بن چکا ہے۔
تارکین وطن کی سماجی قبولیت، کن ممالک میں زیادہ؟
’اپسوس پبلک افیئرز‘ نامی ادارے نے اپنے ایک تازہ انڈیکس میں ستائیس ممالک کا جائزہ لے کر بتایا ہے کہ کن ممالک میں غیر ملکیوں کو مرکزی سماجی دھارے میں قبول کرنے کی صلاحیت زیادہ ہے۔
تصویر: picture-alliance/ dpa
۱۔ کینیڈا
پچپن کے مجموعی اسکور کے ساتھ تارکین وطن کو معاشرتی سطح پر ملک کا ’حقیقی‘ شہری تسلیم کرنے میں کینیڈا سب سے نمایاں ہے۔ کینیڈا میں مختلف مذاہب، جنسی رجحانات اور سیاسی نظریات کے حامل غیر ملکیوں کو مرکزی سماجی دھارے میں شامل کر لیا جاتا ہے۔ ترک وطن پس منظر کے حامل ایسے افراد کو، جو کینیڈا میں پیدا ہوئے، حقیقی کینیڈین شہری کے طور پر قبول کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/N. Denette
۲۔ امریکا
انڈیکس میں امریکا دوسرے نمبر پر ہے جس کا مجموعی اسکور 54 رہا۔ امریکی پاسپورٹ حاصل کرنے والے افراد اور ترک وطن پس منظر رکھنے والوں کو حقیقی امریکی شہری کے طور پر ہی سماجی سطح پر قبول کیا جاتا ہے۔
تصویر: Picture-Alliance/AP Photo/S. Senne
۳۔ جنوبی افریقہ
تارکین وطن کی سماجی قبولیت کے انڈیکس میں 52 کے مجموعی اسکور کے ساتھ جنوبی افریقہ تیسرے نمبر پر ہے۔ مختلف مذاہب کے پیروکار غیر ملکیوں کی سماجی قبولیت کی صورت حال جنوبی افریقہ میں کافی بہتر ہے۔ تاہم 33 کے اسکور کے ساتھ معاشرتی سطح پر شہریت کے حصول کے بعد بھی غیر ملکیوں کو بطور ’حقیقی‘ شہری تسلیم کرنے کا رجحان کم ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Khan
۴۔ فرانس
چوتھے نمبر پر فرانس ہے جہاں سماجی سطح پر غیر ملکی ہم جنس پرست تارکین وطن کی سماجی قبولیت دیگر ممالک کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔ تاہم جنوبی افریقہ کی طرح فرانس میں بھی پاسپورٹ حاصل کرنے کے باوجود تارکین وطن کو سماجی طور پر حقیقی فرانسیسی شہری قبول کرنے کے حوالے سے فرانس کا اسکور 27 رہا۔
تصویر: Reuters/Platiau
۵۔ آسٹریلیا
پانچویں نمبر پر آسٹریلیا ہے جس کا مجموعی اسکور 44 ہے۔ سماجی سطح پر اس ملک میں شہریت حاصل کر لینے والے غیر ملکیوں کی بطور آسٹریلین شہری شناخت تسلیم کر لی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں غیر ملکی افراد کے ہاں پیدا ہونے والے بچوں کو بھی معاشرہ حقیقی آسٹریلوی شہری قبول کرتا ہے۔
تصویر: Reuters
۶۔ چلی
جنوبی افریقی ملک چلی اس فہرست میں بیالیس کے اسکور کے ساتھ چھٹے نمبر پر ہے۔ ہم جنس پرست غیر ملکی تارکین وطن کی سماجی قبولیت کے حوالے سے چلی فرانس کے بعد دوسرا نمایاں ترین ملک بھی ہے۔ تاہم دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو ملکی مرکزی سماجی دھارے کا حصہ سمجھنے کے حوالے سے چلی کا اسکور محض 33 رہا۔
تصویر: Reuters/R. Garrido
۷۔ ارجنٹائن
ارجنٹائن چالیس کے مجموعی اسکور کے ساتھ اس درجہ بندی میں ساتویں نمبر پر ہے۔ تارکین وطن کی دوسری نسل اور ہم جنس پرست افراد کی سماجی سطح پر قبولیت کے حوالے سے اجنٹائن کا اسکور 65 سے زائد رہا۔
تصویر: Reuters/R. Garrido
۸۔ سویڈن
سویڈن کا مجموعی اسکور 38 رہا۔ ہم جنس پرست تارکین وطن کی قبولیت کے حوالے سے سویڈن کو 69 پوائنٹس ملے جب کہ مقامی پاسپورٹ کے حصول کے بعد بھی تارکین وطن کو بطور حقیقی شہری تسلیم کرنے کے سلسلے میں سویڈن کو 26 پوائنٹس دیے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
۹۔ سپین
تارکین وطن کی سماجی قبولیت کے لحاظ سے اسپین کا مجموعی اسکور 36 رہا اور وہ اس فہرست میں نویں نمبر پر ہے۔ ہسپانوی شہریت کے حصول کے بعد بھی غیر ملکی افراد کی سماجی قبولیت کے ضمن میں اسپین کا اسکور محض 25 جب کہ تارکین وطن کی دوسری نسل کو حقیقی ہسپانوی شہری تسلیم کرنے کے حوالے سے اسکور 54 رہا۔
تصویر: picture-alliance/Eventpress
۱۰۔ برطانیہ
اس درجہ بندی میں پینتیس کے مجموعی اسکور کے ساتھ برطانیہ دسویں نمبر پر ہے۔ اسپین کی طرح برطانیہ میں بھی تارکین وطن کی دوسری نسل کو برطانوی شہری تصور کرنے کا سماجی رجحان بہتر ہے۔ تاہم برطانوی پاسپورٹ حاصل کرنے کے بعد بھی تارکین وطن کو حقیقی برطانوی شہری تسلیم کرنے کے حوالے سے برطانیہ کا اسکور تیس رہا۔
تصویر: Reuters/H. Nicholls
۱۶۔ جرمنی
جرمنی اس درجہ بندی میں سولہویں نمبر پر ہے۔ جرمنی میں دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کی سماجی قبولیت کینیڈا اور امریکا کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔ اس حوالے سے جرمنی کا اسکور محض 11 رہا۔ اسی طرح جرمن پاسپورٹ مل جانے کے بعد بھی غیر ملکیوں کو جرمن شہری تسلیم کرنے کے سماجی رجحان میں بھی جرمنی کا اسکور 20 رہا۔
تصویر: Imago/R. Peters
۲۱۔ ترکی
اکیسویں نمبر پر ترکی ہے جس کا مجموعی اسکور منفی چھ رہا۔ ترکی میں دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو سماجی سطح پر ترک شہری تسلیم نہیں کیا جاتا۔ اس ضمن میں ترکی کو منفی بارہ پوائنٹس دیے گئے۔ جب کہ پاسپورٹ کے حصول کے بعد بھی تارکین وطن کو حقیقی ترک شہری تسلیم کرنے کے حوالے سے ترکی کا اسکور منفی بائیس رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/epa/AFP/A. Altan
12 تصاویر1 | 12
اب جرمنی میں یورپی یونین کے رکن دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے غیر ملکیوں کے علاوہ یورپی یونین سے باہر کی ریاستوں سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کو بھی خوش آمدید کہا جا رہا ہے، جو یا تو پہلے ہی سے اپنے اپنے پیشہ ورانہ شعبے کے ماہر کارکن ہوتے ہیں یا پھر وہ یہاں آ کر تربیت حاصل کر سکتے ہیں اور اس کے اختتام پر اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز۔
قوانین میں تاریخی نرمی
جرمنی نے اپنے ہاں ماہر کارکنوں کی کمی کو پورا کرنے کے لیے جو نئی قانونی ترامیم کی ہیں، انہیں بہت سے ماہرین ملکی امیگریشن قوانین میں ’تاریخی حد تک نرمی‘ کا نام دے رہے ہیں۔ اب صورت حال یہ ہے کہ جو کوئی بھی تعلیم یافتہ ہو اور مناسب پیشہ ورانہ اہلیت رکھتا ہو، اور جرمن زبان بول سکتا ہو، وہ روزگار کے کسی معاہدے کے بغیر بھی جرمنی آ سکتا ہے اور یہاں آ کر اپنے لیے روزگار تلاش کر سکتا ہے۔ پہلے یہ قانون صرف یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہنر مند کارکنوں پر ہی لاگو ہوتا تھا۔ اب لیکن یہ شرط ختم کر دی گئی ہے۔
جرمنی: جرائم کے مرتکب زیادہ تارکین وطن کا تعلق کن ممالک سے؟
جرمنی میں جرائم سے متعلق تحقیقات کے وفاقی ادارے نے ملک میں جرائم کے مرتکب مہاجرین اور پناہ کے متلاشیوں کے بارے میں اعداد و شمار جاری کیے ہیں۔ اس گیلری میں دیکھیے ایسے مہاجرین کی اکثریت کا تعلق کن ممالک سے تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
1۔ شامی مہاجرین
جرمنی میں مقیم مہاجرین کی اکثریت کا تعلق شام سے ہے جو کل تارکین وطن کا قریب پینتیس فیصد بنتے ہیں۔ تاہم کُل جرائم میں شامی مہاجرین کا حصہ بیس فیصد ہے۔ سن 2017 میں تینتیس ہزار سے زائد شامی مہاجرین مختلف جرائم کے مرتکب پائے گئے۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
2۔ افغان مہاجرین
گزشتہ برس اٹھارہ ہزار چھ سو سے زائد افغان مہاجرین جرمنی میں مختلف جرائم میں ملوث پائے گئے اور مہاجرین کے مجموعی جرائم ميں افغانوں کا حصہ گیارہ فیصد سے زائد رہا۔
تصویر: DW/R.Shirmohammadil
3۔ عراقی مہاجرین
عراق سے تعلق رکھنے والے مہاجرین جرمنی میں مہاجرین کی مجموعی تعداد کا 7.7 فیصد بنتے ہیں لیکن مہاجرین کے جرائم میں ان کا حصہ 11.8 فیصد رہا۔ گزشتہ برس تیرہ ہزار کے قریب عراقی مہاجرین جرمنی میں مختلف جرائم کے مرتکب پائے گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
4۔ مراکشی تارکین وطن
مراکش سے تعلق رکھنے والے پناہ کے متلاشی افراد مجموعی تعداد کا صرف ایک فیصد بنتے ہیں لیکن جرائم میں ان کا حصہ چار فیصد کے لگ بھگ رہا۔ بی کے اے کے مطابق ایسے مراکشی پناہ گزینوں میں سے اکثر ایک سے زائد مرتبہ مختلف جرائم میں ملوث رہے۔
تصویر: Box Out
5۔ الجزائر سے تعلق رکھنے والے پناہ گزین
مراکش کے پڑوسی ملک الجزائر سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں میں بھی جرائم کی شرح کافی نمایاں رہی۔ گزشتہ برس چھ ہزار سے زائد مراکشی مختلف نوعیت کے جرائم میں ملوث پائے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Bockwoldt
6۔ ایرانی تارکین وطن
جرمنی میں جرائم کا ارتکاب کرنے میں ایرانی تارکین وطن چھٹے نمبر پر رہے۔ گزشتہ برس قریب چھ ہزار ایرانیوں کو مختلف جرائم میں ملوث پایا گیا جو ایسے مجموعی جرائم کا ساڑھے تین فیصد بنتا ہے۔
تصویر: DW/S. Kljajic
7۔ البانیا کے پناہ گزین
مشرقی یورپ کے ملک البانیا سے تعلق رکھنے والے پناہ کے متلاشی افراد بھی جرمنی میں جرائم کے ارتکاب میں ساتویں نمبر پر رہے۔ گزشتہ برس البانیا کے ستاون سو باشندے جرمنی میں مختلف جرائم کے مرتکب پائے گئے جب کہ اس سے گزشتہ برس سن 2016 میں یہ تعداد دس ہزار کے قریب تھی۔
تصویر: Getty Images/T. Lohnes
8۔ سربین مہاجرین
آٹھویں نمبر پر بھی مشرقی یورپ ہی کے ملک سربیا سے تعلق رکھنے والے مہاجرین رہے۔ گزشتہ برس 5158 سربین شہری جرمنی میں مختلف نوعیت کے جرائم میں ملوث پائے گئے جب کہ اس سے گزشتہ برس ایسے سربین مہاجرین کی تعداد ساڑھے سات ہزار سے زیادہ تھی۔
تصویر: DW/S. Kljajic
9۔ اریٹرین مہاجرین
گزشتہ برس مہاجرین کی جانب سے کیے گئے کل جرائم میں سے تین فیصد حصہ اریٹریا سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کا تھا جن میں سے پانچ ہزار پناہ گزین گزشتہ برس مختلف جرائم میں ملوث پائے گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Stache
10۔ صومالیہ کے تارکین وطن
اس ضمن میں دسویں نمبر پر صومالیہ سے تعلق رکھنے والے مہاجرین اور تارکین وطن رہے۔ گزشتہ برس 4844 صومالین باشندوں نے جرمنی میں جرائم کا ارتکاب کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Bockwoldt
11۔ نائجیرین تارکین وطن
گیارہویں نمبر پر بھی ایک اور افریقی ملک نائجیریا سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن رہے۔ سن 2017 میں نائجیریا سے تعلق رکھنے والے 4755 پناہ گزین مختلف نوعیت کے جرائم کے مرتکب ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Diab
12۔ پاکستانی تارکین وطن
وفاقی ادارے کی اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس اڑتیس سو پاکستانی شہری بھی جرمنی میں مختلف جرائم میں ملوث رہے جب کہ 2016ء میں تینتالیس سو سے زائد پاکستانیوں نے مختلف جرائم کا ارتکاب کیا تھا۔ مہاجرین کے جرائم کی مجموعی تعداد میں پاکستانی شہریوں کے کیے گئے جرائم کی شرح 2.3 فیصد رہی۔ جرمنی میں پاکستانی تارکین وطن بھی مجموعی تعداد کا 2.3 فیصد ہی بنتے ہیں۔
تصویر: Jodi Hilton
12 تصاویر1 | 12
اب اس سلسلے میں کلیدی شرائط دو ہیں: ہنر مندی اور جرمن زبان سے واقفیت۔ ایک شرط جو پہلے بھی لاگو ہوتی تھی، اب بھی لاگو ہوتی ہے۔ اس طرح جرمنی آنے والے کسی بھی غیر یورپی غیر ملکی کو روزگار کی تلاش کے عرصے کے دوران اپنے قیام و طعام کا خرچہ خود برداشت کرنا ہو گا اور وہ ریاست کی طرف سے دی جانے والی سماجی مالی مراعات سے فائدہ نہیں اٹھا سکے گا۔
دوطرفہ فائدہ
برلن میں وفاقی جرمن حکومت نے اس بارے میں مروجہ قوانین میں جو نرمی کی ہے، وہ شروع میں پانچ سال کے تجرباتی عرصے کے لیے ہے اور کامیابی کی صورت میں اس کی مدت میں توسیع کر دی جائے گی۔
دیکھا جائے تو جرمنی میں ماہر کارکنوں کی کمی کو پورا کرنے کے لیے یہ اقدام بھی انتہائی پرکشش ہے کیونکہ یوں دنیا بھر سے لاکھوں کی تعداد میں ایسے ماہر کارکن جرمنی آ سکیں گے، جن کا آنا جرمنی اور خود ان تارکین وطن، دونوں کے لیے مفید ثابت ہو گا۔
جرمنی: زیر تربیت مہاجرین کا تعلق ان ممالک سے ہے
گزشتہ برس مجموعی طور پر نو ہزار تین سو تارکین وطن کو مختلف جرمن کمپنیوں میں فنی تربیت (آؤس بلڈُنگ) کے حصول کی اجازت ملی۔ زیادہ تر مہاجرین کا تعلق مندرجہ ذیل ممالک سے ہے.
تصویر: D. Kaufmann
۱۔ افغانستان
افغانستان سے تعلق رکھنے والے 3470 مہاجرین اور تارکین وطن مختلف جرمن کمپنوں میں زیر تربیت ہیں۔
تصویر: DW/A. Grunau
۲۔ شام
جرمنی میں شامی مہاجرین تعداد کے حوالے سے پہلے نمبر پر ہیں، لیکن زیر تربیت مہاجرین کی تعداد محض ستائیس سو رہی، جو افغان پناہ گزینوں سے بھی کم ہے۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
۳۔ عراق
ملک بھر کی مختلف کمپنیوں میں آٹھ سو عراقی مہاجرین تربیت حاصل کر رہے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/W. Kastl
۴۔ اریٹریا
افریقی ملک اریٹریا سے تعلق رکھنے والے سات سو دس تارکین وطن کو فنی تربیت کے حصول کے لیے جرمن کمپنیوں نے قبول کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Rumpenhorst
۵۔ ایران
جرمنی میں پناہ کے متلاشی ایرانیوں کی تعداد تو زیادہ نہیں ہے لیکن فنی تربیت حاصل کرنے والے ایرانی تارکین وطن تعداد (570) کے اعتبار سے پانچویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
۶۔ پاکستان
چھٹے نمبر پر پاکستانی تارکین وطن آتے ہیں اور گزشتہ برس ساڑھے چار سو پاکستانی شہریوں کو جرمن کمپنیوں میں انٹرنشپ دی گئی۔
تصویر: DW/R. Fuchs
۷۔ صومالیہ
اس حوالے سے ساتواں نمبر صومالیہ کے تارکین وطن کا ہے۔ صومالیہ کے 320 تارکین وطن کو فنی تربیت فراہم کی گئی۔
تصویر: DW/A. Peltner
۸۔ نائجیریا
افریقی ملک نائجیریا سے تعلق رکھنے والے 280 پناہ گزینوں کو گزشتہ برس جرمنی میں فنی تربیت حاصل کرنے کا موقع ملا۔