نہ کوئی خاندانی قبرستان، نہ دوست، نہ عزیز۔ جرمنی میں تنہا مرنے اور دفن کیے جانے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ معاملہ کسی خاص نسل تک محدود نہیں رہا ہے۔
اشتہار
یوں لگتا ہے، اسے یاد کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ 46 سالہ متوفی کی لاش موت کے آٹھ مہینے بعد روہر خطے کے گیلزنکِرشن کے علاقے سے ملی۔ جرمنی کا یہ سب سے بڑا صنعتی علاقہ ہے۔
اس علاقے کے باسی سوسانا ہانسیک اس بارے میں بات کرتے ہیں، توانا اور زندگی سے بھرپور آواز جیسے بیٹھتی چلی گئی۔ ’’میں حیران ہوں کہ ہمسایوں تک نے اس شخص کی کمی محسوس نہ کی، یا وہ مکمل طور پر اس صورت حال سے کٹ کر رہتے رہے۔ ہمارے معاشرے سے یوں تنہا چلے جانے والے افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے اور کسی کو جیسے کوئی پروا نہیں۔ ان کی موت ہی یوں تنہائی میں نہیں ہوتی، ان کی زندگی بھی تنہا ہوتی ہے۔‘‘
گیلزنکِرشن کے اس متوفی کی بابت سوسانا ہانسیک کو فقط دو باتیں یاد ہیں، اس کا نام اور پتا۔ نہ اس کے رشتہ داروں کا کچھ پتا ہے اور نہ کسی دوست کا۔ اس کے ہم سایے میں رہنے والوں تک کو اس شخص کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا۔
پروٹیسٹنٹ پادری سوسانا کی جانب سے مرنے والے کو ایک باوقار اور پرسوز انداز سے آخری سلام کہا گیا اور کیتھولک پادری کے موجودگی میں اسے دفن کر دیا گیا۔ اس شخص کی آخری رسومات عوامی طور پر کی گئیں، جن میں کوئی رشتہ دار موجود نہیں تھا، فقط میونسپل افسر برائے امن عامہ اور ان رسومات کا انتظام کرنے والے اہلکار موجود تھے۔
موت کے لیے گھر کا انتخاب
جاپان میں شدید بیمار افراد کی اکثریت ہسپتال ہی میں مرنا پسند کرتی ہے مگر کچھ ایسے بھی ہیں، جو ہسپتال کا خرچ برداشت نہیں کر سکتے اور اپنے گھر میں مکمل تنہائی میں ہی موت سے جا ملتے ہیں۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
کتے کے ساتھ
جب میتسُورو نینُوما کو معلوم ہوا کہ وہ پھیپھڑوں کے کینسر کی وجہ سے بس موت کے منہ میں جانے والے ہیں، تو انہوں نے ہسپتال کی بجائے گھر میں مرنا پسند کیا۔ اس طرح انہیں اپنے پوتے کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے کا موقع ملا اور رِن نامی اپنے کتے کے ساتھ بھی۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
اپنے گھر کی چار دیواری
69 سالہ میتسُورو کے سونے کے کمرے کی یہ چار دیواری رنگوں سے روشن ہے، یہ رنگ انہوں نے اپنے پوتے کے ساتھ بکھیرے۔ ایک فزیکل تھراپسٹ ان کے معائنے کو آتا ہے، مساج کرتا اور ان کی ٹانگوں کو جنبش دیتا ہے۔ وہ کئی ماہ سے بسترِ مرگ پر ہیں۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
ہسپتال میں ڈیمینشیا مزید بگڑ گیا
یاسودو تویوکو ٹوکیو میں اپنی بیٹی کے ہاں رہ رہے ہیں۔ اس 95 سالہ مریضہ کو معدے کے سرطان اور ڈیمینشیا کا مرض لاحق ہے۔ ان کی بیٹی ہی ان کا خیال رکھتی ہے۔ یاسوڈو کو ان کی بیٹی ہسپتال سے گھر اس لیے لے آئیں، کیوں کہ انہیں لگا کہ ان کی والدہ ہسپتال میں کم زور ہو گئیں تھیں اور ان کا ڈیمینشیا کا مرض بگڑ گیا تھا۔ جاپان میں مریضوں کی گھر میں دیکھ بھال ایک غیرعمومی بات ہے۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
طویل انتظار
ہر کوئی رضاکارانہ طور پر اپنی زندگی کے آخری چند ہفتے گھر پر رہنا پسند نہیں کرتا۔ کاتسو سایتو کو جب معلوم ہوا کہ انہیں لیکیومیا لاحق ہے، تو انہوں نے قریب المرگ مریضوں کے لیے مخصوص قیام گاہ (ہوسپیس) کا انتخاب کیا، مگر وہاں جگہ ملنے میں انہیں طویل انتظار کرنا پڑا۔ انہیں جب وہاں منتقل کیا گیا، تو وہ فقط دو ہی روز بعد انتقال کر گئے۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
ہسپتالوں میں جگہ کا فقدان
ہسپتالوں اور قریب المرگ مریضوں کی قیام گاہوں (ہوسپیس) میں بستروں کی کمی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ جاپان میں طویل العمر افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے اور اس وقت جاپان میں ہر چار میں سے ایک شخص 65 برس سے زائد عمر کا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق سن 2030 میں جاپانی ہسپتالوں کو قریب نصف ملین بستروں کی کمی کا سامنا ہو گا۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
ہسپتالوں کے مہنگے کمرے
یاشوہیرو ساتو پیپھڑوں کے سرطان کے باعث انتقال کے قریب ہیں۔ وہ ہسپتال کے ایک انفرادی کمرے میں رہنا چاہتے ہیں مگر چوں کہ ریٹائرڈ افراد کمرے کا کرایہ ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتے اور ہیلتھ انشورنس انفرادی کمروں کے لیے پیسے نہیں دیتی، وہ ٹوکیو میں ایک اپارٹمنٹ میں رہ رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
چلتے ڈاکٹر
فزیشن یو یاسوئی (دائیں) نے ایک موبائل کلینک قائم کر رکھا ہے، جو قریب المرگ افراد کو ان کے گھروں میں نگہداشت فراہم کرتا ہے۔ 2013ء میں قائم ہونے والا یہ کلینک اب تک پانچ سو افراد کو گھروں میں فوت ہونے والے افراد کی دیکھ بھال کر چکا ہے۔ یو یاسوئی کے مطابق زندگی کے آخری دنوں میں طبی نگہداشت بہت کارگر ہوتی ہے۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
موت تنہائی میں
یاسوئی کے چند مریض اپنے گھر والوں کے ساتھ رہتے ہیں یا ان کے خاندان یا دوست انہیں باقاعدگی سے دیکھنے آتے ہیں مگر کچھ ایسے بھی ہیں، جنہیں کوئی ڈاکٹر یا نگہداشت کرنے والوں کے علاوہ کوئی دیکھنے نہیں آتا۔ ٹوکیو میں یاسوہیرو کا کوئی نہیں۔ وہ ٹوکیو کے اس فلیٹ میں مکمل طور پر تنہا ہیں۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
شاید بعد کی زندگی بہتر ہو
یاسوہیرو کا کہنا ہے کہ وہ یہاں کسی پر بوجھ نہیں بننا چاہتے کیوں کہ ’انہیں موت کے بعد کی بہتر زندگی درکار ہے‘۔ 13 ستمبر کو یوسوہیرو کی سانس بند ہو گئی تھی اور اس وقت ان کے پاس ان کے فلیٹ میں ڈاکٹروں اور نرسوں کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
9 تصاویر1 | 9
جرمنی میں گورکنوں کی وفاقی تنظیم کے جنرل سیکرٹری شٹیفان نوئزر کے مطابق، ’’جرمنی میں یوں بے یار مرنے والوں کی تعداد کے حوالے سے قومی اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔ مگر چوں کہ جرمنی میں قریب 81 فیصد گورکن ہماری تنظیم سے وابستہ ہیں، اس لیے ہم اس انداز کی آخری رسومات کی بابت یہ بتا سکتے ہیں کہ ان میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور یہ تعداد خصوصاﹰ ان علاقوں میں بڑھ رہی ہے، جو گنجان آباد ہیں۔‘‘
اس حوالے سے جرمنی کا بڑا شہر ہیمبرگ نمایاں نظر آتا ہے، جہاں سن 2007 تا 2017 اس طرح کی عوامی تدفین دوگنا اضافہ ہو چکا ہے۔ گزشتہ برس اس انداز کی پبلک ہیلتھ تدفین کی تعداد 1200 سے زائد تھی۔