جرمنی: توانائی کے لیے کوئلے کا استعمال، بروقت خاتمہ اب خواب
12 نومبر 2023
جرمنی میں سن دو ہزار تیس تک توانائی کے ایک ذریعے کے طور پر کوئلے کا استعمال ترک کر دینے کا طے شدہ منصوبہ اب ’ایک خواب‘ بن گیا ہے۔ وفاقی جرمن وزیر خزانہ کے مطابق اس مقصد کے لیے دیکھا جانے والا ’خواب اب ترک کرنا‘ ہو گا۔
اشتہار
جرمنی میں چانسلر اولاف شولس کی قیادت میں موجودہ مخلوط حکومت کے اقتدار میں آنے سے پہلے تینوں حکومتی جماعتوں، سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی)، ترقی پسندوں کی فری ڈیموکریٹک پارٹی (ایف ڈی پی) اور ماحول پسندوں کی گرین پارٹی کے مابین مشترکہ حکومتی ایجنڈے کے لیے جو معاہدہ دو سال قبل طے پایا تھا، اس میں کئی امور پر مستقبل کے پالیسی خطوط واضح کر دیے گئے تھے۔
ان میں سے توانائی کے ماحول دوست ذرائع کے استعمال کو رواج دینے کی سیاسی خواہش کا ایک نتیجہ یہ طے پا جانا بھی تھا کہ جرمنی میں توانائی کے حصول کے لیے معدنی ایندھن کے طور پر کوئلے کا استعمال 2030ء تک بتدریج ختم کر دیا جائے گا۔
خواب اور اس کی تعبیر میں فاصلہ
اب لیکن فری ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر خزانہ کرسٹیان لِنڈنر نے کہا ہے کہ توانائی کے لیے کوئلے کے استعمال کے اب تک طے شدہ مدت کے اندر خاتمے کی منزل ممکن نہیں رہی۔
لِنڈنر نے کولون سے شائع ہونے والے اخبار 'کوئلنر اشٹڈ انسائگر‘ کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ اس حوالے سے دیکھا جانے والا خواب قابل عمل نہیں رہا۔ وزیر خزانہ کے الفاظ میں، ''جب تک یہ واضح نہیں ہوتا کہ توانائی دستیاب ہے اور وہ بھی ایسی قیمتوں پر جن کی ادائیگی کا متحمل ہوا جا سکے، تب تک ہمیں یہ خواب دیکھنا بند کرنا ہو گا کہ ہم 2030ء تک کوئلے کا توانائی کے حصول کے لیے استعمال بتدریج ختم کر سکیں گے۔‘‘
ماضی میں جرمنی میں حکومتی سطح پر یہ طے کیا گیا تھا کہ کوئلے کے 'فیز آؤٹ پلان‘ پر 2038ء تک عمل درآمد ہو جائے گا۔ لیکن دو سال قبل جب ایس پی ڈی، ایف ڈی پی اور گرین پارٹی نے آپس میں شراکت اقتدار کا معاہدہ طے کیا تھا، تو اس میں کہا گیا تھا، ''بہترین حل تو یہ ہو گا کہ یہ ہدف 2038ء سے آٹھ سال قبل 2030ء تک ہی حاصل کر لیا جائے۔‘‘
اشتہار
ہدف کے حصول میں تاخیر
فری ڈیموکریٹ سیاستدان کرسٹیان لِنڈنر کے مطابق ایسا نہیں کہ جرمنی توانائی کے لیے کوئلے کا استعمال ختم نہیں کر سکتا۔ ان کے بقول ایسا ہو گا اور ہونا ہی ہے، تاہم اگلے سات برسوں میں اس ہدف کا حاصل کیا جانا بہت مشکل ہے۔
کرسٹیان لِنڈنر نے اپنے اس انٹرویو میں یہ بھی کہا جرمنی زیادہ سے زیادہ حد تک انحصار ایسی قدرتی گیس پر کرنا چاہتا ہے، جو اندرون ملک دستیاب ذرائع سے حاصل کی جائے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ قدرتی گیس کی اندرون ملک پیداوار میں بہت زیادہ اضافہ کیا جائے اور ساتھ ہی قابل تجدید ذرائع سے توانائی کے حصول کے ملکی نظام کو بھی تیز رفتاری سے مزید وسعت دی جائے۔
جرمنی یورپی یونین کا سب سے زیادہ آبادی والا رکن ملک ہے اور دنیا کی سب سے بڑی معیشتوں میں شمار ہوتا ہے۔ یورپی یونین کے اقتصادی 'پاور ہاؤس‘ کے طور پر جرمنی میں توانائی کی طلب بھی بہت زیادہ ہے۔
اس کے باوجود حکومت توانائی کے معدنی ذرائع کے استعمال کو بتدریج کم کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ ماحول دوست توانائی استعمال کرنا چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جرمنی میں ہوا، پانی اور شمسی توانائی سے سالانہ جتنی بھی بجلی پیدا کی جاتی ہے، حکومت اس میں مسلسل اضافے کے لیے کوشاں ہے۔
م م / ش ر (ڈی پی اے)
جرمنی میں کوئلے کی کان کنی کا اختتام
جرمنی کی ڈیڑھ سو سالہ صنعتی ترقی میں سیاہ کوئلے کی کان کنی کو انتہائی اہمیت حاصل ہے۔ اب اس کان کنی کے سلسلے کی آخری کان ’پراسپر ہانیل‘ کو بھی بند کر دیا گیا ہے۔ اس آخری کان کے بند ہونے پر کئی افراد افسردہ بھی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Stratenschulte
’اداس تبدیلی‘
جرمنی کے رُوہر علاقے کے شہر بوٹراپ کے بعض مکین ’پراسپر ہانیئل‘ کان کو بند کرنے پر کسی حد تک افسردہ بھی تھے۔ یہ وہ لوگ تھے، جن کے خاندان ان کانوں میں گزشتہ تین نسلوں سے کام کرتے چلے آئے تھے۔ یہ کان جرمنی میں سیاہ کوئلے کی آخری کان تھی۔ اس کان سے نکالا گیا آخری کوئلہ جرمن صدر فرانک والٹر اسشٹائن مائر کو تحفہ کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C. Seidel
سیاہ سونا
کوئلہ ایک ایسی شے ہے، جس کو کھلے موسم میں بھی ذخیرہ کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ تصویر میں بھی دکھائی دے رہا ہے۔ کوئلے کو ریل گاڑیوں کے ذریعے کھپت کے لیے مختلف مقامات تک پہنچایا جاتا تھا۔ ایک بڑی مقدار میں کوئلہ جرمنی سے برآمد بھی کیا جاتا تھا۔ جرمنی کے سخت سیاہ کوئلے کی مانگ دنیا بھر میں بہت زیادہ رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Weihrauch
کان کنی کے کام کی وقعت
جرمنی میں کان کنی صرف ایک مناسب آمدن کا ذریعہ ہی نہیں تھا بلکہ کانوں میں کام کرنے والوں کو بڑی عزت کی نگاہ سے بھی دیکھا جاتا تھا۔ کانوں میں کام کرنے والے بھی آپس میں بہت گہرے تعلق میں بندھے رہتے تھے۔ اُن کی یکجہتی پیشہ ورانہ تفاخر کا مظہر خیال کی جاتی رہی ہے۔ تصویر میں پراسپر ہانیئل کان کے کان کن کھڑے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Heyder
کام اور زندگی
کوئلے کی کانوں کے مالکان ہی کان کنوں کے مکانات کی تعمیر کیا کرتے تھے اور یہ مکانات کان کے قریبی علاقوں میں تعمیر کیا جاتے تھے۔ مکانات کے اردگرد باغات بنانے کا رواج بھی رہا ہے۔ کانوں میں کام کرنے والے کان کن اپنے شوق کے لیے مرغیاں اور سور بھی پالتے تھے۔ بعض کان کن کبوتروں کے ڈربے بھی رکھتے تھے۔ یہ مکانات رفتہ رفتہ عام لوگوں میں مقبول ہونے لگے کیونکہ یہ ایک طرح سے باغ دکھائی دیتے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Schulte
اناطولیا کے ساتھی
دوسری عالمی جنگ کے بعد جنوبی یورپ اور ترک علاقے اناطولیا سے بھی کان کن جرمن کانوں میں کام کرنے کے لیے آئے۔ کئی ایسے کان کن پولینڈ میں واقع کوئلے کی کانوں میں بھی کام کرتے تھے۔ ایسے کئی کان کنوں نے ہمیشہ کے لیے جرمنی اور پولینڈ میں رہنے کو ترجیح دی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اولین دراڑیں
سن 1950 اور 1960 کی دہائیاں جرمن علاقے رُوہر کی کان کنی کی صنعت کے لیے ’سنہرا دور‘ تصور کی جاتی ہیں۔ ان کانوں میں زوال کی دراڑیں تب پیدا ہونا شروع ہوئیں جب ان کی زیر زمین گہرائی بڑھتی گئی۔ جتنی گہرائی بڑھتی ہے اتنی ہی کان کنی مہنگی سے مہنگی تر ہوتی جاتی ہے۔ کئی کانیں پندرہ سو میٹر تک گہری تھیں۔ کان کنی کے مہنگا ہونے سے جرمن کوئلے کی مانگ میں کمی پیدا ہونے لگی۔
تصویر: picture-alliance/KPA
ماحول کے لیے نقصان دہ
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ رُوہر کا علاقہ اپنی کثیف ہوا کی وجہ سے بدنام رہا ہے۔ کوئلے کی کانوں کے پاس کے علاقے میں سیاہ خاک کی تہہ کھلے عام رکھی اشیا پر جم جاتی تھی۔ اس تصویر میں اوبرہاؤزن شہر کی فضا میں پھیلا دھواں دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ شہر بوٹراپ سے زیادہ دور نہیں ہے۔
تصویر: Getty Images/L. Schulze
کان کنی سے زیر زمین عدم استحکام
رُوہر علاقے میں کان کنی اب بند ہو چکی ہے لیکن اب بھی زیر زمین گہری کانوں کی کھدائی سے عدم استحکام کی کیفیت محسوس کی جاتی ہے۔ ان اندرونی کانوں کے اچانک منہدم ہونے سے ریلوے ٹریک اور مکانات کو کئی مرتبہ نقصان پہنچ چکا ہے۔
تصویر: Imago/J. Tack
یہ کام ابھی تک نہیں ہوا
رُوہر علاقے میں کئی مقامات گزشتہ ڈیڑھ سو برسوں کی کان کنی کی وجہ سے پچیس میٹر تک نیچے دھنس چکے ہیں۔ زیر زمین کانوں کی کھدائی کے نقصانات ابھی تک دیکھے جا رہے ہیں۔ کئی علاقوں میں زیر زمین پانی کی سطح اچانک بلند ہو کر مکانات کے لیے نقصان کا باعث بن جاتی ہے۔ اس پانی کی بلند سطح کو پمپوں کے ذریعے نکالا جاتا ہے۔ اس نقصان کا ازالہ ابھی تک ممکن نہیں ہو سکا اور اسے ’آفاقی نقصان‘ قرار دیتے ہیں۔
تصویر: Imago/blickwinkel
اب باقی کیا بچا ہے؟
کان کنی کے اختتام کے بعد اب کانوں کے علاقے میں بنایا گیا مینار گرا دیا گیا ہے۔ کئی قریبی علاقوں میں کئی عمارتوں کو بھی منہدم کیا جا چکا ہے اور کانوں کے ارد گرد کے علاقوں کو ہرا بھرا کیا جا چکا ہے۔ بعض صنعتی علاقوں کو تفریحی پارکوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود بہت سارے علاقے ابھی باقی ہیں۔ ایسن شہر کا زولفرائن کو اس کی شناخت کے حوالے سے یونیسکو کے عالمی ورثے میں شامل کر لیا گیا ہے۔