جرمنی میں تین روزہ ہڑتال کے بعد ریلوے نظام دوبارہ معمول پر
13 جنوری 2024
جرمنی میں یہ تین روزہ ہڑتال سب سے بڑی ریل کمپنی ڈوئچے بان کے ہزارہا ٹرین ڈرائیوروں کی یونین کی طرف سے بدھ سے جمعے کو رات گئے تک کی گئی تھی، لیکن اس کے باوجود کارکنوں کے ہفتہ وار اوقات کار سے متعلق تنازعہ حل نہ ہو سکا۔
اشتہار
جرمنی میں ڈوئچے بان کے ڈرائیوروں کی یونین کا نام جی ڈی ایل ہے اور اس نے ملک گیر سطح پر تقریباﹰ 72 گھنٹے کی اس ہڑتال کا فیصلہ کمپنی پر ڈرائیوروں کی اجرتوں اور ان کے اوقات کار سے متعلق تعطل کا شکار مذاکرات میں کامیابی کے لیے ڈالا تھا۔
کارکنوں اور آجرین کے نمائندوں کے مابین گزشتہ مذاکرات جب ناکام رہے، تو جی ڈی ایل نے اس ہڑتال کی کال دے دی تھی۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف ہزاروں ٹرینوں کی آمد و رفت معطل یا متاثر ہوئی بلکہ کئی ملین مسافروں کو بھی تین دن تک شدید مسائل کا سامنا رہا۔
ریلوے نظام دوبارہ معمول پر
ڈوئچے بان نے ہفتہ تیرہ جنوری کی صبح بتایا کہ اس ہڑتال کی اعلان کردہ مدت پوری ہو جانے کے بعد مسافر اور مال بردار ریل گاڑیوں کی آمد و رفت اب دوبارہ معمول پر آ گئی ہے۔
دوسری طرف ٹرین ڈرائیوروں کی یونین نے کہا ہے کہ ابھی تک اس کے مطالبات منظور نہیں ہوئے، لہٰذا آئندہ اس سے بھی بڑی ہڑتال کی جائے گی۔
جرمن ریل آپریٹر ڈوئچے بان ماضی میں پوری طرح ایک ریاستی ادارہ تھی۔ یہ اب بھی زیادہ تر وفاق کی ملکیت میں ہے۔ اس کمپنی کے ایک ترجمان کے مطابق آج ہفتے کے دن ریل گاڑیوں کی آمد و رفت اسی معمول پر لوٹ آئی، جس پر وہ ہڑتال سے پہلے تک تھی۔
تین روزہ ہڑتال کے دوران ڈوئچے بان کی مسافر گاڑیاں بہت کم تعداد میں لیکن ایک ایمرجنسی پلان کے تحت چلتی رہی تھیں۔
اشتہار
مذاکرات کا اگلا دور کب؟
ابھی تک یہ واضح نہیں کہ ٹرین ڈرائیوروں کے اوقات کار اور اجرتوں سے متعلق مطالبات پر جی ڈی ایل اور ڈوئچے بان کے نمائندوں کے مابین مذاکرات کا اگلا مرحلہ کب شروع ہو گا۔
جی ڈی ایل کے سربراہ کلاؤس ویزیلسکی نے جمعے کی رات برلن میں تاہم صحافیوں کو بتایا، ’’اس ہڑتال کے بعد، جو اب ختم ہو رہی ہے، ہم کمپنی کو کچھ وقت دے رہے ہیں تا کہ وہ ہوش کے ناخن لے۔‘‘
ساتھ ہی ویزیلسکی نے خبردار کرتے ہوئے یہ بھی کہا، ’’اگر ڈوئچے بان نے دانش مندی سے کام نہ لیا، تو پھر ہم اپنا اگلا قدم اٹھائیں گے، جس کا دورانیہ بھی زیادہ طویل ہو گا اور جس سے کمپنی کو نقصان بھی اور زیادہ ہو گا۔‘‘
یونین کے مطالبات ہیں کیا؟
ٹرین ڈرائیوروں کی ٹریڈ یونین جی ڈی ایل کا مطالبہ ہے کہ شفٹوں میں کام کرنے والے تمام کارکنوں کے لیے اوقات کار کا ہفتہ وار دورانیہ موجودہ 38 گھنٹوں سے کم کر کے اس طرح 35 گھنٹے کر دیا جائے کہ ان کی موجودہ تنخواہوں یا اجرتوں میں کوئی کٹوتی نہ ہو۔
اس کے برعکس ڈوئچے بان کا اب تک موقف یہ ہے کہ اس کے لیے یونین کا یہ مطالبہ تو ناقابل قبول ہے، تاہم وہ اپنے کارکنوں کے لیے وضع کردہ کام کے لچک دار اوقات کے ماڈلز میں توسیع پر تیار ہے۔
اس کے علاوہ ڈوئچے بان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جو ڈرائیور ہر ہفتے 38 کے بجائے صرف 35 گھنٹے کام کرنا چاہتے ہیں، وہ ایسا کر تو سکتے ہیں مگر پھر ان کی اجرتوں میں اسی تناسب سے کمی بھی لازماﹰ ہو گی۔
ف ن / م م (ڈی پی اے)
600 کلومیٹر فی گھنٹہ سے زیادہ رفتار، دنیا کی تیز ترین ریل گاڑیاں
حال ہی میں جاپان نے دنیا کی تیز ترین ریل گاڑی کا کامیاب تجربہ کیا تھا۔ میگلیو ٹرین نامی یہ ریل گاڑی چھ سو کلومیٹر فی گھنٹہ سے زائد رفتار سے دوڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ دنیا کی تیز ترین ریل گاڑیوں پر ایک نظر۔
تصویر: picture-alliance/AP/Yomiuri Shimbun
بے مثل اور تیز ترین
میگلیو کا مطلب ’مقناطیسی پرواز‘ ہے۔ مقناطیسی طاقت کی وجہ سے ٹرین اپنے ٹریک پر تیرتے ہوئے آگے کی طرف سفر کرتی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو یہ ٹرین ہوا میں معلق رہتی ہے اور رگڑ نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP/Yomiuri Shimbun
جیسے ہوائی جہاز
ریل گاڑی پر سوار مسافروں کا کہنا تھا کہ اس ٹرین میں بیٹھ کر سفر ہوائی جہاز جیسا معلوم ہوتا ہے۔ اس ٹرین پر صرف مخصوص لوگوں کو سفر کی اجازت تھی۔ عوام کے لیے یہ ٹرین سن 2027ء میں ٹوکیو اور ناگویا کے درمیان چلائی جائے گی۔ ان دونوں شہروں کے مابین پانچ سو کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ٹرانس ریپیڈ شنگھائی
دنیا کی دوسری تیز ترین آپریٹنگ ٹرین چین کی ’ٹرانس ریپیڈ شنگھائی‘ نامی ٹرین ہے۔ اس ریل گاڑی تیاری میں بھی وہی مقناطیسی ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے، جواب جاپان نے میگلیو کے لیے کی ہے۔ یہ ٹرین مسافروں کو شنگھائی ایئر پورٹ تک لے کر آتی ہے۔ تیس کلومیٹر کا فاصلہ صرف آٹھ منٹ میں طے کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
فرانسیسی ریسر
فلیش بیک: اس ٹرین نے سن 1998ء میں تیز رفتار ریل گاڑیوں کی دنیا میں انقلاب کی بنیاد رکھی تھی۔ فرانسیسی ٹرین ٹی جی وی تجارتی بنیادوں پر چلائی جانے والی وہ پہلی ریل گاڑی تھی، جس کی رفتار 250 کلومیٹر فی گھنٹہ تھی۔ اسی ٹرین کے جدید ماڈل نے سن 2007ء میں 574 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار کے ساتھ ایک ورلڈ ریکارڈ قائم کیا تھا تاہم اب اسے 320 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے تیز نہیں چلایا جاتا۔
تصویر: AP
تیز رفتار ٹرین کا طویل ترین ٹریک
دنیا کی چوتھی تیز ترین ٹرین بھی 340 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چین ہی میں بیجنگ سے شنگھائی تک چلتی ہے۔ اس کے علاوہ تیز رفتار ٹرین کا طویل ترین ٹریک بھی چین ہی میں ہے۔ یہ ٹرین مسافروں کو شہر گوانگ ژو سے محض آٹھ گھنٹوں میں دارالحکومت بیجنگ تک پہنچاتی ہے۔ ان دونوں شہروں کا درمیانی فاصلہ قریب تین ہزار کلومیٹر ہے اور اب سے پہلے یہ سفر 22 گھنٹوں میں طے کیا جاتا تھا۔
تصویر: imago/UPI Photo
انٹر سٹی ایکسپریس
جرمنی میں تیز رفتار ٹرین کا نام آئی سی ای یعنی انٹرسٹی ایکسپریس ہے۔ یہ ٹرین ماضی میں 406 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ریکارڈ قائم کر چکی ہے۔ مخصوص سرخ پٹی والی یہ ٹرینیں سن 1991ء سے ٹریک پر ہیں۔ ان ٹرینوں کے موجودہ ماڈل ICE 3 کی اوسطاﹰ رفتار 280 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔
تصویر: imago/imagebroker
تھالیس
اس ریل گاڑی کا شمار بھی یورپ کی تیز رفتار ٹرینوں میں ہوتا ہے۔ اس کا آغاز سن 1997ء میں کیا گیا تھا اور تکنیکی طور پر اس کو فرانسیسی ٹرین TGV کے ماڈل پر بنایا گیا ہے اور اس کی اوسطا رفتار 300 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔ یہ ٹرینیں جرمنی سے فرانس اور پولینڈ سے فرانس تک جاتی ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images
ایکسلریشن ایکسپریس
تیز رفتار ٹرینوں کی دنیا میں امریکا نے نسبتاﹰ دیر سے قدم رکھا۔ Acela Express کو سن 1999ء میں بوسٹن، نیویارک اور واشنگٹن کے درمیان چلایا گیا۔ شمالی امریکا میں چلنے والی یہ واحد تیز رفتار ٹرین ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images
شینکانسن
اس ریل گاڑی کا شمار بھی جاپان کی تیز ترین ٹرینوں میں ہوتا ہے۔ اس کا آغاز سن 1964ء میں کیا گیا تھا۔ اس کے پرانے ماڈلز کی اوسطا رفتار 200 کلومیٹر فی گھنٹہ تھی لیکن اس کے موجودہ ماڈل کی رفتار 300 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔