1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں جسم فروشی: ’اس جہنم سے نجات کسی کسی کو ہی ملتی ہے‘

21 جون 2018

جرمنی میں جسم فروشی کا کاروبار زیادہ تر جرائم پیشہ عناصر کے منظم گروہوں کے ہاتھوں میں ہے۔ ان کا پیچھا کرتے ہوئے انہیں سزائیں دلوانا انتہائی مشکل عمل ثابت ہوتا ہے کیونکہ اکثر خواتین مجرموں کے خلاف بیان دینے سے ڈرتی ہیں۔

تصویر: picture-alliance/dpa/A. Vogel

سوال یہ ہے کہ اس بارے میں جرمنی کے تجربہ کار تفتیشی ماہرین کیا کہتے ہیں؟ یہ جاننے کے لیے ڈوئچے ویلے نے جرمنی کے جنوبی صوبے باڈن ورٹمبرگ میں جرائم کی تحقیقات کرنے والے صوبائی ادارے کے اعلیٰ اہلکار وولفگانگ فِنک کے ساتھ بات چیت کی۔ فِنک گزشتہ ایک عشرے سے بھی زائد عرصے سے منظم جرائم پیشہ گروپوں اور انسانوں کی تجارت سے متعلقہ جرائم کی چھان بین کر رہے ہیں۔

ڈوئچے ویلے کی دو خاتون صحافیوں ایستھر فیلڈن اور نومی کونراڈ کے ساتھ اس انٹرویو میں وولفگانگ فِنک نے اس امر پر روشنی ڈالی کہ جرمنی میں، جو یورپی یونین کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے، جسم فروشی یا ’ریڈ لائٹ اکانومی‘ کس طرح کام کرتی ہے اور اس شعبے میں فعال خواتین کو کس کس طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اس سوال کے جواب میں کہ جرمنی میں جسم فروشی کرنے والی خواتین کس طرح کے حالات میں یہ کام کرتی ہیں، وولفگانگ فِنک نے بتایا، ’’سب سے پہلے تو ان خواتین میں تفریق کرنا پڑے گی، جو کسی قحبہ خانے میں جسم فروشی کرتی ہیں اور وہ جو سڑکوں اور شاہراہوں پر لوگوں کو جنسی خدمات کی پیشکش کرتی ہیں۔ قحبہ خانوں میں کام کرنے والی خواتین کے حالات کار معمولی سے بہتر ہوتے ہیں جبکہ سڑکوں پر جسم فروشی کرنے والی عورتوں کے حالات کار زیادہ پرخطر ہوتے ہیں۔ دوسری طرف قحبہ خانے دن رات کھلے رہتے ہیں اور وہاں ہر وقت لوگوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔ وہاں کام کرنے والی عورتیں اکثر باہر نکلتی ہی نہیں۔ ہمیں کئی بار مختلف واقعات میں تفتیش کے دوران پتہ چلا کہ ان خواتین میں سے بہت سی تو یہ بھی نہیں جانتی تھیں کہ جس دن ان سے پوچھ گچھ کی جا رہی تھی، اس دن مہینہ اور تاریخ کیا تھے۔‘‘

تصویر: picture-alliance/rolf kremming

وولفگانگ فِنک کے بقول جرمنی میں مقیم تارکین وطن کے پس منظر کی حامل خواتین میں جرمنی میں یا ان  کے آبائی ممالک میں غربت کے باعث ’مالی محرومی کی وجہ سے جسم فروشی‘ کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے اور ان خواتین کو ان کی جنسی خدمات کے عوض ملنے والا معاوضہ افراط زر میں اضافے کے باوجود کم بھی ہوا ہے۔ فِنک نے بتایا کہ مختلف شہروں کے ریڈ لائٹ علاقوں میں بہت سی خواتین کو ان کی جسمانی خدمات کے عوض ملنے والا معاوضہ تیس یا چالیس یورو فی بیس منٹ تک ہوتا ہے اور اسی وجہ سے یہ رجحان بھی دیکھنے میں آ رہا ہے کہ اب جسم فروشی کے لیے مختلف شہروں کے مخصوص علاقوں کے مقابلے میں انٹرنیٹ کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے۔

وولفگانگ فِنک نے اس انٹرویو میں جو بہت تکلیف دہ بات بتائی وہ یہ تھی کہ اس شعبے میں خواتین کو اکثر ایک ’تجارتی شے‘ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور اس ’شے‘ کے حصول کے لیے انٹرنیٹ پر آرڈر بھی ایسے دیے جاتے ہیں جیسے کوئی کسی آن لائن کیٹیلاگ سے اپنے لیے جوتوں یا روزمرہ استعمال کی کسی ’چیز‘ کا آرڈر دیتا ہو۔

جسم فروشی کے لیے جرمنی آنے والی یا جرائم پیشہ منظم گروہوں کی طرف سے اس ملک میں لائی جانے والی ایسی غیر ملکی خواتین جرمنی ہی کا رخ کیوں کرتی ہیں؟ اس سوال کے جواب میں وولفگانگ فِنک نے کہا، ’’بڑی وجہ بطور ایک ریاست جرمنی کی بہت اچھی مالی حالت بھی ہے۔ جرمنی میں ایسی بہت سی خواتین کا تعلق مشرقی یورپی ممالک سے ہوتا ہے، جو اپنے آبائی ممالک میں اقتصادی اور مالیاتی دباؤ کے باعث اس ملک کا رخ کرتی ہیں۔ ایسی اکثر لڑکیوں اور خواتین کو یہ علم بھی ہوتا ہے کہ وہ جرمنی میں جسم فروشی کریں گی یا بظاہر کسی بار میں ملازمت کریں  گی۔ لیکن جو بات وہ نہیں جانتی ہوتیں، وہ یہ ہوتی ہے کہ ان سے ان کی ساری کمائی بھی چھین لی جائے گی۔‘‘

اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ جو خاتون ایک بار اس شعبے میں داخل ہو جاتی ہے، اس کے لیے اس پیشے کو ترک کرنا اور ساتھ ہی اپنی سلامتی کو یقینی بھی بنانا تقریباﹰ ناممکن ہو جاتا ہے۔ فِنک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہم جن جرائم پیشہ گروپوں کے مبینہ ارکان کو گرفتار کر بھی لیتے ہیں، وہ کئی واقعات میں اس لیے بھی سزاؤں سے بچ جاتے ہیں کہ یہی خواتین اپنی جان کو درپیش خطرات کے باعث اپنا استحصال کرنے والے ایسے جرائم پیشہ افراد اور انسانوں کے اسمگلروں کے خلاف کوئی بھی بیان دیتے سے کتراتی ہیں۔‘‘

فِنک کے بقول اس شعبے میں کام کرنے والی خواتین کی اکثریت ایک ایسی جہنم میں رہ رہی ہوتی ہے، ’جس سے نکلنا شاذ و نادر ہی ممکن‘ ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں ریاست اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی اپنی کوششیں کرتے ہیں اور ایسی خواتین کی مدد کرنے والی غیر سرکاری تنظیمیں بھی، لیکن ان خواتین سے جسم فروشی کروانے والے جرائم پیشہ گروہ، ان خواتین کو دی جانے والی جان کی دھمکیاں اور ’بند گلی میں پھنس جانے کا احساس‘ ان کی مدد کی کوششوں کی راہ میں حائل بڑی رکاوٹیں ہیں۔

جرمنی میں جسم فروشی کرنے والی خواتین کی عمر زیادہ تر کیا ہوتی ہے؟ اس سوال کے جواب میں تجربہ کار سرکاری تفتیش کار وولفگانگ فِنک نے بتایا، ’’ان خواتین سے جسم فروشی کروانے والے تو یہ چاہتے ہیں کہ وہ جتنی بھی کم عمر ہوں، اتنا ہی اچھا ہے۔ جرمنی میں اٹھارہ برس سے کم عمر کی لڑکیوں کی طرف سے جسم فروشی قانوناﹰ ممنوع ہے۔ لیکن میں ذاتی طور پر اسے ملکی سیاسی شعبے کی ناکامی ہی کہوں گا کہ وہ جسم فروشی سے متعلق نئے وفاقی قانون میں بھی اس تسلیم شدہ پیشے کے لیے کم از کم عمر کی حد بڑھا کر اکیس برس نہیں کر سکا۔‘‘

م م / ش ح / ایستھر فیلڈن، نومی کونراڈ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں