جرمنی میں جسم فروشوں کے تحفظ کی خاطر نافذ العمل قانون سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکے ہیں۔ اس قانون کے تحت جسم فروشوں کو سوشل سکیورٹی فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
اشتہار
ایک تازہ رپورٹ کے مطابق جرمنی میں جسم فروش افراد کے تحفظ کے لیے متعارف کرائے قانون سے مطلوبہ اہداف حاصل نہیں ہو سکے۔ اس قانون کے تحت جرمنی میں جسم فروش خود کو رجسٹر کرا کے سوشل سکیورٹی سے متعلق مراعات حاصل کر سکتے ہیں۔
تاہم ایک تازہ رپورٹ کے مطابق انتہائی کم تعداد میں جسم فروش افراد نے خود کو رجسٹر کرایا۔ ایک اندازے کے مطابق جرمنی میں تقریباﹰ دو لاکھ خواتین جسم فروشی کے کاروبار سے منسلک ہیں۔ تاہم سن دو ہزار اٹھارہ میں ایسی صرف چوہتر خواتین نے سوشل سکیورٹی حاصل کرنے کی خاطر اپنی رجسٹریشن کرائی۔
جرمن روزنامے ’دی ویلٹ‘ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق سن دو ہزار دو میں نافذ کیے گئے اس قانون کے مطابق جسم فروش سرکاری ہیلتھ سروسز، پینشن، اور بے روزگاری الاؤنس جیسی مراعات حاصل کر سکتے ہیں۔
اس قانون کا مقصد جرمنی میں جسم فروشی سے وابستہ افراد کی اقتصادی حالت کو بہتر بنانا ہے۔ اس قانون کی وجہ سے جسم فروشوں کو قانونی تحفظ بھی فراہم کیا گیا ہے۔
جرمن پارلیمان میں ترقی پسندوں کی سیاسی جماعت فری ڈیموکریٹک پارٹی کے استفسار پر متعلقہ حکام نے یہ اعداد و شمار پارلیمان کو مہیا کیے۔ ناقدین نے اس تناظر میں شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے کہ یہ قانون غالباﹰ جسم فروشوں کو اپنی طرف مائل کرنے میں ناکام رہا ہے۔
حکام کے مطابق جرمنی میں جسم فروشی کا کام کرنے والی خواتین نے مختلف پروفیشنل کیٹیگریز میں خود کو رجسٹر کرا رکھا ہے، جس کے باعث ان کی پہچان بھی خفیہ ہے اور وہ مراعات بھی حاصل کر رہی ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ یہی وجہ ہے کہ حکومت کا یہ منصوبہ کچھ زیادہ کارگر ثابت نہیں ہوا۔
جرمنی میں سن دو ہزار سترہ میں ایک اور قانون بھی منظور کیا گیا تھا، جس کے تحت جسم فروش خواتین کو مقامی سطح پر رجسٹریشن کرانا ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ان کا طبی معائنہ بھی باقاعدہ بنیادوں پر کیا جاتا ہے۔
اس کا مقصد جبری جسم فروشی کا خاتمہ ممکن بنانا ہے۔ تاہم یہ حکومتی اقدامات بھی زیادہ مؤثر ثابت نہیں ہو سکے۔ اس قانون کے تحت سال دو ہزار سترہ کی پہلی ششماہی میں تقریباﹰ سات ہزار خواتین نے خود کو رجسٹر کرایا۔
ع ب / م م / خبر رساں ادارے
سنگ دل جاپانی بیوی سے سیلیکون کی گڑیا اچھی
جاپانی معاشرے میں تنہائی کے شکار مردوں کا کہنا ہے کہ جاپانی خواتین بہت کٹھور دل کی ہوتی ہیں۔ شاید اسی لیے اُنہوں نے سیلیکون کی بنی خوبصورت گڑیوں میں اپنے لیے دلچسپی کا سامان تلاش کر لیا ہے۔
تصویر: Getty Images/B.Mehri
سفر حسین ہے
جاپانی فزیوتھیراپسٹ ماسایوکی اوزاکی اپنی سیلیکون سے بنی محبوبہ کے ہمراہ کہیں جا رہے ہیں۔ سیلیکون ڈولز کا جسمانی سائز ایک نوجوان لڑکی جیسا ہے اور اُن کے جسمانی خطوط بھی دلفریب انداز میں تیار کیے گئے ہیں۔ ایسی مصنوعی ذہانت کی حامل سیلیکون ڈولز کی قیمت پانچ ہزار ڈالر سے پندرہ ہزار ڈالر تک بتائی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/B.Mehri
ساحل سمندر کی سیر اکیلے کیوں؟
ماسایوکی اپنی سیلیکون کی گڑیا کے ساتھ وقت اسی انداز میں گزارتے ہیں جیسے عام طور سے اپنے قریبی ساتھی کے ساتھ گزارا جاتا ہے۔ لمبی ڈرائیو پر جانا ہو یا ساحل سمندر کی سیر، اوزاکی کی محبوبہ اُن کے ساتھ ساتھ ہے۔
تصویر: Getty Images/B.Mehri
ہوٹل میں قیام
اوزاکی نے اپنی ساتھی ڈول کے ہمراہ ایک ہوٹل میں بھی قیام کیا۔ ہوٹل سے رخصت ہونے کے بعد وہ غالباﹰ کسی پارک میں سیر کرنے جائیں گے۔
تصویر: Getty Images/B.Mehri
مصنوعی خوبصورتی
جاپانی مرد حضرات ایک بیوی کے ہوتے ہوئے بھی ایسی سیلیکون گڑیوں کے مشتاق ہیں۔ سماجی ماہرین کے مطابق اس حوالے سے بھی سوچا جانا چاہیے کہ مصنوعی دانش سے آراستہ ایک عام جوان لڑکی جیسی سیلیکون ڈالز سے معاشرتی اقدار پر کیا اثر پڑے گا اور کیا یہ صرف ایک شوق اور بھیڑ چال کا رویہ ثابت ہو گا؟
تصویر: Getty Images/B.Mehri
سرد مہر جاپانی بیویاں
جاپانی مردوں کا کہنا ہے کہ اُن کی بیویاں بہت سرد مہر اور غیر رومانوی ہوتی ہیں۔ اسی لیے اوزاکی نے بیوی کی موجودگی میں سیلیکون سے بنی گڑیا رکھنا پسند کیا۔ اس تصویر میں اوزاکی اپنی ڈول کو پارک کی سیر کرا رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/B.Mehri
مایو اچھی ہے
اوزاکی کہتے ہیں کہ اُن کی مایو دوسری عورتوں کی طرح نہیں ہے۔ جب وہ شام کو گھر آتے ہیں تو وہ پوری توجہ سے اُن کی ہر بات سنتی ہے۔
تصویر: Getty Images/B.Mehri
زندگی کا رومان
ٹوکیو کے رہائشی اوزاکی نے اپنی رومانوی زندگی کی کمی کو پورا کرنے کے ایک منفرد راستہ چنا ہے۔ جب سے وہ سیلیکون سے بنی گڑیا گھر لے کر آئے ہیں اُن کی ’زندگی خوشگوار ‘ ہو گئی ہے۔
تصویر: Getty Images/B.Mehri
ایک ڈول چھ ہزار ڈالر کی
جاپان میں ہر سال دو ہزار کے قریب سیلیکون ڈولز فروخت ہوتی ہیں۔ ان کی قیمت قریب چھ ہزار ڈالر تک ہوتی ہے۔ ان گڑیوں کی انگلیوں اور سر میں ردو بدل ممکن ہے۔ اس تصویر میں ایسی گڑیاں بنانے کا ماہر ایک شخص سیلیکون ڈول کے سر پر کام کر رہا ہے۔