پہلے یہاں شراب کشید کی جاتی تھی، پھر دوسری عالمی جنگ کے زمانے میں یہ ایک بیگار کیمپ تھا اور پھر اس عمارت میں مشرقی جرمنی کے سیاسی قیدیوں کو رکھا گیا۔ سابقہ جیل کی یہ عمارت اب برائے فروخت ہے۔
اشتہار
جرمن ریاست تھیورنگیا میں واقع اس سابقہ جیل کی قیمت تقریباً تین لاکھ یورو لگائی گئی ہے۔ یہ عمارت گیرا نامی شہر میں واقع ہے، جس کی آبادی ایک لاکھ کے لگ بھگ ہے۔
اس عمارت کی دیواریں چھ میٹر اونچی ہیں۔ اس میں قیدیوں کی کوٹھریاں اور گاڑیوں کے کھڑے کرنے کے لیے ایک وسیع علاقہ بھی ہے۔ اس جگہ کا رقبہ تقریباً ساڑھے سات ہزار مربع میٹر پر بنتا ہے۔
اس تنصیب کو 1946ء سے 2017ء تک بطور جیل استعمال کیا گیا تھا۔ مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق اس قید خانے کو قبل از وقت ہی بند کر دیا گیا ہے کیونکہ زویکاؤ نامی شہر میں اس کے متبادل جیل کا 2023ء سے قبل افتتاح نہیں کیا جائے گا۔
اوسٹ تھیورنگر نامی اخبار نے ریاستی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے،’’بنیادی طور پر ریاست بہتر ساکھ اور قابل احترام بولی لگانے والے ہر اس خریدار کی پیشکش میں دلچسپی ظاہر کرے گی، جو اس جائیداد کو پائیدار انداز سے استعمال کرنے کا منصوبہ پیش کرے گا۔‘‘
جرمنی کے دس انتہائی حیران کن ہوٹل
کیا آپ نے کبھی ہوٹل میں شب بسری کے نام پر کسی جیل میں رہنے کا سوچا ہے؟ اگر تعطیلات کے دوران اگلی مرتبہ آپ کسی نئی جگہ کا انتخاب کرنا چاہیں تو جرمنی میں برلن سے لے کر اوبرسٹ ڈورف تک ایسی دس انتہائی منفرد جگہیں موجود ہیں۔
تصویر: Tree Inn
آرٹ ورک میں شب بسری
ہر کمرہ منفرد ہے۔ ایک کمرے میں آپ تابوت میں سو سکتے ہیں تو دوسرے میں فرنیچر چھت سے لٹکا ہوا ہے۔ سب سے خاص کئی کونوں والا وہ کمرہ ہے، جس میں ہر طرف شیشے لگے ہوئے ہیں۔ برلن کا پروپیلر آئی لینڈ نامی یہ ہوٹل ہر حوالے سے آرٹ کا نمونہ ہے، جسے لارس سٹروشن نے ڈیزائن کیا ہے۔ انہوں نے ہر کمرے کے لیے خاص پس منظر موسیقی بھی ترتیب دی ہے۔
تصویر: Propeller Island
فرسٹ کلاس سلیپر میں نیند
برلن سے ساٹھ کلومیٹر دور یُوئٹربوگ میں آپ کئی روز تک ٹرانس سائبیریئن ایکسپریس میں سفر کیے بغیر اس میں سو سکتے ہیں۔ اس ’سلیپنگ کار ہوٹل‘ میں پچیس مہمانوں کے لیے شب بسری کی گنجائش ہے۔ ہر حصے میں ایک ڈبل بیڈ ہے اور ساتھ ہی ایک ڈرائنگ روم، جس کے ساتھ ایک باتھ روم بھی ہے۔
تصویر: Schlafwagenhotel
سوٹ کیس ہوٹل
اگر آپ چاہیں تو اسے دنیا کا سب سے چھوٹا ہوٹل بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس کا نام کوفٹیل ہے، جو کَیمنِٹس کے قریب لُنسیناؤ میں واقع ہے۔ 2004ء میں قائم کیا گیا یہ ہوٹل ایک سلیپنگ کیبن ہے، جو ایک سوٹ کیس کی شکل کا ہے۔ اس کی چوڑائی ڈیڑھ میٹر، لمبائی تین میٹر اور موٹائی دو میٹر ہے۔ اس سوٹ کیس میں اپنے ذاتی سلیپنگ بیگ میں رات بسر کرنے کی قیمت 15 یورو ہے۔
تصویر: Zum Prellbock
’ہَوبِٹ‘ کی سرنگ میں خواب
اگر آپ کسی ’ہَوبِٹ‘ کی سرنگ میں رات گزارنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے نہ تو ’مڈل ارتھ‘ تک سفر کی ضرورت ہے اور نہ ہی نیوزی لینڈ میں کسی فلم کے سیٹ پر جانے کی۔ یہ ہوٹل تھیورنگیا کے جنگلات میں ’آؤاَین لینڈ‘ کے تعطیلاتی گاؤں میں واقع ہے۔ اس ہوٹل میں مہمانوں کو ایسے اپارٹمنٹس دستیاب ہیں، جن میں خواب گاہ، نشست گاہ اور غسل خانہ سب شامل ہوتے ہیں۔
تصویر: Feriendorf Auenland
بھیڑیوں کے مرکز میں قیام
شام کا وقت، بھیڑیوں کی آوازیں اور کسی دوسرے انسان کا دور دور تک کوئی پتہ نہیں۔ اتنی مہم جوئی کے ساتھ شب بسری آپ بریمن کے نردیک Tree Inn میں کر سکتے ہیں۔ یہ ’ٹری ہاؤس ہوٹل‘ ایک ایسے علاقے میں ہے، جو ’بھیڑیوں کا مرکز‘ کہلاتا ہے۔ آپ پانچ میٹر کی بلندی سے شیشے کی دیواروں میں سے بھیڑیوں کا بڑا صاف نظارہ کر سکتے ہیں۔
تصویر: Tree Inn
نکاسیٴ آب کے پائپ میں رات
بظاہر یہ پائپ نکاسیٴ آب کے پائپ جیسا ہے لیکن اس میں سے گندا پانی نہیں گزرتا۔ رُوہر کی وادی کے قصبے بوٹروپ کے پارک ہوٹل میں مہمان بڑے بڑے ڈرین پائپوں میں بنے کمروں میں سو سکتے ہیں۔ یہاں شب بسری کی کوئی مقررہ قیمت نہیں، جتنا کرایہ چاہیں، ادا کریں۔ یہ پائپ تین تین میٹر طویل ہیں اور ان میں سے ہر ایک کا وزن ساڑھے گیارہ ٹن اور قطر ڈھائی میٹر ہے۔ ہر پائپ میں ایک ڈبل بیڈ اور ایک چھوٹی میز کی جگہ موجود ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Weihrauch
جیل میں رات
یہاں مجرم قید کاٹتے تھے۔ اب سلاخوں کے پیچھے باہمت مہمان شب بشری کرتے ہیں۔ جرمن شہر کائزرزلاؤٹرن کی سابقہ جیل میں اب ’الکٹراس ایڈونچر ہوٹل‘ قائم ہے۔ ہوٹل کی بار بھی فولادی سلاخوں کے پیچھے ہے لیکن مہمانوں کو ان کی مرضی کے مطابق گھومنے پھرنے کی اجازت ہوتی ہے۔
تصویر: alcatraz
بیرل میں بستر
اس ہوٹل میں آپ وہاں سو سکتے ہیں، جہاں کبھی وائن تیار کی جاتی تھی۔ دریائے رائن کے کنارے رُیوڈس ہائم کے اپنی وائن کے لیے مشہور شہر میں ’لِنڈن وِرٹ‘ نامی ہوٹل کے صحن میں چھ بڑے وائن بیرل کمروں کا کام دیتے ہیں۔ جن میں فی کس چھ ہزار لٹر وائن تیار ہوتی تھی، ان میں سے ہر ایک بیرل میں دو مہمانوں کے سونے کی گنجائش ہے، اور ساتھ ہی ایک چھوٹا سا ڈرائنگ روم اور باتھ روم بھی۔
تصویر: Lindenwirt
شہسواروں کی طرح شبینہ قیام
جھیل کونسٹانس کے قریب آرٹُس ہوٹل میں قیام دراصل ماضی کا سفر ہوتا ہے۔ وہاں کمرے قرون وسطٰی کی سراؤں کی طرح کے ہیں۔ شہسواروں کے تہہ خانے میں قائم ریستوراں میں کنگ آرتھر کے زمانے کی سی ضیافتوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ رات کے کھانے کے دوران ایک چوبدار تاریخی انداز میں آپ کی خدمت اور رہنمائی کے لیے موجود رہتا ہے۔
تصویر: Hotel Arthus
انتہائی ٹھنڈا ہوٹل
اس اِگلُو لاج کی بار میں مشروبات بھی یخ بستہ ہوتے ہیں۔ اوبرسٹ ڈورف کے نواح میں ’ماؤنٹ نیبل ہارن‘ کی چوٹی پر یہ برفیلا ہوٹل صرف دسمبر سے اپریل کے وسط تک کھلا ہوتا ہے۔ اس ہوٹل کے اِگلُوز یا برفانی گھروں میں سے ہر ایک میں دو یا چار مہمان ٹھہر سکتے ہیں۔ وہاں کُل چالیس مہمانوں کے لیے شب بسری کی گنجائش ہے۔ دو ہزار میٹر کی بلندی پر قائم اس ہوٹل سے ایلپس کے سلسلے کی پہاڑی چوٹیوں کے نظارے کیے جا سکتے ہیں۔
تصویر: IgluLodge
10 تصاویر1 | 10
یہ عمارت 1890ء میں تعمیر کی گئی تھی اور ابتدائی طور پر یہاں شراب کشید کی جاتی تھی۔ 1940ء کی دہائی میں اسے بیگار کیمپ بنا دیا گیا جبکہ 1945ء کے بعد سے اسے جیل کے طور پر استعمال کیا گیا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد سابقہ سوویت یونین نے اس خواتین کی جیل میں بدل دیا تاہم بعد ازاں اس میں صرف مرد قیدیوں کو رکھا جانے لگا۔
سب سے زیادہ قیدی کس ملک میں؟
دنیا بھر کی جیلوں میں لاکھوں افراد قید ہیں۔ عالمی سطح پر اعدادو شمار اکھٹا کرنے والی ویب سائٹ statista نے مختلف ممالک میں قید افراد کی تعداد کے بارے میں معلومات جاری کی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/EPA/J.L.Castillo
امریکا:
21.45 لاکھ
تصویر: Getty Images/J. Moore
چین:
16.49 لاکھ
تصویر: fotolia/Benjamin Haas
برازیل:
6.59 لاکھ
تصویر: picture-alliance/dpa
روس:
6.18 لاکھ
تصویر: picture-alliance/dpa/Korotayev Artyom
بھارت:
4.19 لاکھ
تصویر: ROBERTO SCHMIDT/AFP/GettyImages
تھائی لینڈ:
3 لاکھ
تصویر: AP
میکسیکو:
2.33 لاکھ
تصویر: picture-alliance/dpa/Government Of Monterrey
ایران:
2.25 لاکھ
تصویر: Ali Ettehad
انڈونیشیا:
2.24 لاکھ
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Nagi
ترکی:
2 لاکھ
تصویر: Reuters/O. Orsal
جنوبی افریقہ:
1.61 لاکھ
تصویر: picture alliance/AP Photo
فلپائن:
1.42 لاکھ
تصویر: Getty Images/AFP/N. Celis
ویت نام:
1.30 لاکھ
تصویر: Getty Images/AFP/H. Dinh Nam
کولمبیا:
1.15 لاکھ
تصویر: Getty Images/AFP/G. Legaria
ایتھوپیا:
1.11 لاکھ
تصویر: DW/Y. Gebregziabher
مصر:
1.06 لاکھ
تصویر: Getty Images/AFP/M. Abed
برطانیہ:
85 ہزار
تصویر: Reuters/P. Nicholls
پیرو:
83 ہزار
تصویر: Reuters
پاکستان:
80.1 ہزار
تصویر: picture alliance/dpa/S. Akber
مراکش:
80 ہزار
تصویر: Jamal Amdouri
20 تصاویر1 | 20
ایک رپورٹ کے مطابق اس جیل کے آخری تیس قیدیوں کو قریب ہی واقع ہوہنلوئیبن کے مرکز میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ یہ عمارت پانچ منزلہ ہے اور اس میں کارخانے، باروچی خانہ، کپڑے دھونے کی جگہ، کوٹھریاں، دفاتر اور ملاقاتیوں کا کمرہ بھی موجود ہے۔ یہاں پر 149 قیدیوں کو رکھنے کی گنجائش تھی۔
جیل توڑ کر بھاگنے کے حیران کن واقعات
اونچی اونچی دیواروں، آہنی سلاخوں اور مسلح محافظوں کے باوجود جب سے جیلیں معرض وجود میں آئی ہیں، تب سے قیدی فرار ہونے میں کامیاب ہوتے رہے ہیں۔ ایسے ہی چند حیران کن واقعات پر ایک نظر
تصویر: imago/Kai Koehler
فلموں جیسا سین
جولائی دو ہزار اٹھارہ میں فرانس کے مطلوب ترین مجرموں میں سے ایک جیل سے فرار ہونے میں کامیاب ہوا۔ الجزائری نژاد فرانسیسی ڈکیت ریزوئن فائز کو جیل سے فرار ہونے میں صرف چند ہی منٹ لگے۔ فائز کے ساتھی ہیلی کاپٹر سے جیل میں اترے اور اسے بٹھا کر فرار ہو گئے۔ بعد ازاں یہ ہیلی کاپٹر پیرس کے مضافات سے ملا لیکن فائز ابھی تک مفرور ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. van der Hasselt
بینک ڈکیت
ہیلی کاپٹر کے ذریعے جیل سے فرار ہونے کا یہ پہلا واقعہ نہیں تھا۔ قبل ازیں سن دو ہزار سات میں فرانسیسی شہر گراس میں بھی مشین گنوں سے لیس ہیلی کاپٹر کے ذریعے ایسی ہی کارروائی کرتے ہوئے ایک بینک ڈکیت پاسکال پائیے کو آزاد کروا لیا گیا تھا۔ سن دو ہزار ایک میں پائیے کو تیس برس قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Horvat
میکسیکو کی محفوظ ترین جیل؟
جولائی دوہزار پندرہ میں میکسیکو کے ڈرگ لارڈ ایل چاپو ملک کی محفوظ ترین جیل توڑ کر فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ انہوں نے جیل کے غسل خانے میں ایک سرنگ کھودی تھی، جو جیل کے باہر ایک گھر میں جا کر نکلتی تھی۔ چودہ برسوں کے دوران چاپو کے جیل سے فرار ہونے کا یہ دوسرا واقعہ تھا۔
تصویر: Reuters/PGR/Attorney General's Office
گٹر کے پائپ کے ذریعے
دو مجرموں نے جیل کی دیواروں میں سوراخ کیے جو گٹر کے مرکزی پائپ تک جاتے تھے۔ سن دو ہزار پندرہ میں نیویارک کی انتہائی سکیورٹی والی اس جیل سے قتل کے دو مجرم پائپ میں رینگتے ہوئے ایک گلی میں جا نکلے اور فرار ہونے میں کامیاب رہے۔
تصویر: Getty Images/New York State Governor's Office/D. McGee
بریف کیس کا وزن زیادہ کیوں؟
یہ مجرم فرار ہونے میں تقریباﹰ کامیاب ہونے ہی والا تھا۔ اس بریف کیس کے ذریعے سن دو ہزار گیارہ میں منشیات کے اسمگلر خوان رامیریز کو میکسیکو کے ایک جزیرے پر قائم جیل سے فرار کروانے کی کوشش کی گئی۔ لیکن رامیریز کی بدقسمتی یہ تھی کہ جیل کے محافظوں کو بریف کیس قدرے بھاری معلوم ہوا۔ تلاشی لی گئی تو اندر سے یہ قیدی برآمد ہوا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Sspqr
برطانیہ: ایک ساتھ 38 قیدی فرار
برطانیہ میں جیل توڑ کر فرار ہونے کی یہ سب سے بڑی کارروائی تھی۔ پچیس ستمبر 1983ء کو آئرش پبلک آرمی ( آئی آر اے) کے اڑتیس قیدی ایک ساتھ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ ’میز جیل‘ کی سکیورٹی انتہائی سخت تھی۔ قیدی اندر اسمگل کیے گئے اسلحے کی مدد سے سکیورٹی اہلکاروں پر قابو پانے اور پھر فرار ہونے میں کامیاب ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Mcerlane
ایسٹر کے انڈوں کی تلاش میں
’میں ایسٹر کے انڈے تلاش کرنے کے لیے گیا تھا‘۔ یہ فقرہ سوئٹرزلینڈ میں بہت مشہور ہوا۔ یہ بیان بینک ڈکیت والٹر شٹورم نے اس وقت دیا، جب وہ 1981ء میں جیل سے فرار ہونے کے بعد دوبارہ پکڑا گیا۔ مجموعی طور پر یہ ’شریف گینگسٹر‘ آٹھ مرتبہ جیل سے فرار ہونے میں کامیاب رہا۔ قید تنہائی کے خلاف مزاحمت کی وجہ سے ملک بھر میں ان کی عزت کی جاتی تھی۔ 1999ء میں والٹر نے جیل میں ہی خودکشی کر لی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
فرار کے لیے وزن میں کمی
سیریل کِلر تھیوڈر بنڈی کا اصرار تھا کہ وہ اپنے مقدمے کا دفاع خود کرے گا۔ لیکن 1977ء میں وہ امریکی ریاست اوٹا کی جیل کی لائبریری سے فرار ہونے میں کامیاب رہا۔ دوبارہ گرفتاری کے چھ ماہ بعد وہ پھر سے جیل توڑنے میں کامیاب رہا۔ جیل کی چھت میں ایک سوراخ سے گزرنے کے لیے اس نے اپنا وزن دس کلوگرام کم کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP
الکاٹراز کا افسانہ
اس جیل سے فرار ہونے کی کارروائی کو فلمایا بھی جا چکا ہے۔ 1962ء میں چمچوں اور ڈرِل مشین کی مدد سے تین قیدی الکاٹریز جزیرے پر واقع ہائی سکیورٹی جیل سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ ان قیدیوں میں فرانک لی مورس اور دو بھائی کلیرنس اور جان اینگلین شامل تھے۔