لبنانی تنظیم حزب اللہ کے کارکنوں اور حامیوں کو اب جرمنی میں سرگرمیاں بند کرنا پڑیں گی۔ جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر نے اس شیعہ تنظیم کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی عائد کر دی ہے۔
اشتہار
جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر کی جانب لبنانی حزب اللہ پر پابندی کے اعلان کے ساتھ ہی پولیس نے اس سے وابستگی رکھنے والی چار دیگر تنظیموں کے خلاف آج جمعرات کی صبح سے مختلف شہروں میں چھاپے مارنا شروع کر دیے ہیں۔ وفاقی وزات داخلہ نے اس سلسلے میں مزید بتایا کہ اس دوران مختلف مساجد، کمیونٹی سینٹرز اور انجمنوں کے دفاتر کی تلاشی لی گئی۔ جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر کے بقول،’’اقدامات کیے جا رہے ہیں اور بحران کے دوران بھی قانون کی حکمرانی کو عملی طور پر یقینی بنایا جا رہا ہے۔‘‘
مساجد اور تنظیموں کے دفاتر پر چھاپے
جرمنی کے سلامتی کے اداروں کا اندازہ ہے کہ ملک میں حزب اللہ سے وابستہ افراد کی تعداد تقریباﹰ ایک ہزار پچاس ہے اور یہ لوگ انفرادی سطح پر مقامی مساجد میں ملاقاتیں کیا کرتے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ اس موقع پر برلن، ڈورٹمنڈ، بریمن اور میونسڑر میں حزب اللہ کی حامی ان تنظیموں کے خلاف کارروائی کی ایک وجہ اس سال منائے جانے والے ’یوم القدس‘ میں اس تنظیم کی متوقع شرکت ہے۔ اس روز اسرائیل کے خلاف مظاہرے کیے جاتے ہیں۔ اس سال ’یوم القدس‘ سولہ مئی کو منایا جا رہا ہے۔
دہشت گرد تنظیم
برطانیہ نے فروری 2019ء میں حزب اللہ کے سیاسی بازو پر پابندی عائد کر چکا ہے۔ اس سے قبل 2013ء میں یورپی یونین کے وزرائے خارجہ یورپی یونین حزب اللہ کے عسکری بازوکو کالعدم دہشت گرد گروپوں کی فہرست میں شامل کر چکے ہیں جبکہ اس کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد نہیں کی گئی تھی۔ تاہم اس کے نتیجے میں اس کی عسکری قیادت پر پابندیاں عائد کرنا ممکن ہو گیا تھا۔
اسرائیلی ردعمل
اسرائیلی وزیر خارجہ اسرائیل کاٹز نے عالمی سطح پر جاری انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کے تناظر میں اسے ایک انتہائی اہم، گراں قدم اور معنی خیز فیصلہ قرار دیا ہے۔ ان کے بقول،’’میں اس سلسلے میں دیگر یورپی ممالک اور یورپی یونین سے بھی ایسا ہی کرنے کے لیے کہوں گا۔ حزب اللہ کے تمام حصے سماجی، سیاسی اور عسکری دھڑے دہشت گرد تنظیمیں ہیں اور انہیں اس طرح سے دیکھا جانا چاہیے۔‘‘
امریکا، اسرئیل، خلیجی عرب ممالک اور عرب لیگ پہلے ہی جزب اللہ کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے چکے ہیں۔ امریکا اور اسرائیل طویل عرصے سے برلن حکومت پر حزب اللہ کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دینے کے لیے دباؤ ڈال رہے تھے۔
گزشتہ برس ستمبر سے جرمن حکومت نے اس تنظیم کے خلاف اپنی پالیسیاں سخت کرنا شروع کر دی تھیں۔ دسمبر 2019ء میں جرمن پارلیمان نے خاص طور پر شام میں حزب اللہ کی ’دہشت گردانہ‘ کارروائیوں کیوجہ سے اس پر پابندی عائد کرنے کی ایک قرارداد منظور کی تھی۔
حزب اللہ یا ’ خدا کی جماعت‘1980ء کی دہائی کے اوائل میں جنوبی لبنان پر اسرائیل کے حملے کے بعد ایران کے تعاون سے وجود میں آئی تھی۔ حزب اللہ کا مرکز لبنان ہے اور اس تنظیم پر اسرائیل کے خلاف تشدد اور اس پر حملے کرنے کے الزامات ہیں اور اس کے علاوہ یہ اسرائیل کے وجود کے حق سے بھی انکاری ہے۔
حزب اللہ، ایرانی پشت پناہی رکھنے والی لبنانی تنظیم
لبنان کی شیعہ تنظیم حزب اللہ کے سیاسی اور عسکری گروپ ملک میں نہایت طاقتور تصور کیے جاتے ہیں۔ تاہم اس کی طاقت، لبنان سمیت اس خطے میں تناؤ کا باعث ثابت ہو رہی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Taher
حزب اللہ کا قیام
حزب اللہ یا ’ خدا کی جماعت‘ کی بنیاد مذہبی رہنماؤں کی جانب سے جنوبی لبنان پر اسرائیل کے 1982ء میں کیے جانے والے حملے کے ردعمل میں ڈالی گئی تھی۔ اس جماعت کے دو گروپ ہیں۔ ایک سیاسی اور دوسرا عسکری۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اسرائیل کے خلاف قومی حمایت
1980ء کی دہائی میں حزب اللہ بطور شیعہ ملیشیا کے ابھر کر سامنے آئی جس نے لبنان کی خانہ جنگی میں بڑا کردار ادا کیا۔ سن 2000ء میں اسرائیلی فوج کے جنوبی لبنان چھوڑنے کے پیچھے حزب اللہ کی ہی گوریلا کارروائیاں تھیں۔ پھر اسرائیل اور حزب اللہ کے مابین 2006ء میں جنگ ہوئی اور اسرائیل کے مقابلے میں لبنان کا دفاع کرنے کے سبب حزب اللہ کے لیے مذہب ومسلک سے مبراء ہو کر ملکی حمایت میں اضافہ کیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Zaatari
ایران کی پشت پناہی
اپنے معرض وجود میں آنے کے بعد حزب اللہ کو ایران اور شام سے عسکری، معاشی اور سیاسی حمایت حاصل رہی ہے۔ اس وقت اس جماعت کا عسکری ونگ، ملکی ا فوج سے زیادہ طاقتور اور خطے میں میں اثر ورسوخ کا حامل ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
سیاسی آلہ کار
لبنان میں 1975ء سے 1990ء تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کے اختتام پر اس جماعت نے اپنی توجہ سیاست کی جانب مبذول کر لی۔ حزب اللہ لبنان کی اکثریتی شیعہ آبادی کی نمائندگی کے علاوہ ملک میں موجود دیگر فرقوں مثلاﹰ مسیحیوں کی اتحادی بھی ہے۔ حزب اللہ میں یہ سیاسی تبدیلی تنظیم کے موجودہ سربراہ حسن نصر اللہ کی سربراہی میں ہوئی جنہوں نے 1992ء سے اس تنظیم کی باگ ڈور سنبھالی ہوئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
عسکری بازو
خانہ جنگی کے بعد لبنان کی دیگر جماعتوں کے بر عکس حزب اللہ نے اپنی جماعت کے عسکری بازو کو تحلیل نہیں کیا۔ اس پر ملک کی چند سیاسی جماعتوں نے اعتراض بھی کیا تاہم حزب اللہ کا مؤقف ہے کہ عسکری بازو کی موجودگی اسرائیل اور دیگر بیرونی خطرات سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AA
دہشت گرد گروپ؟
چند ممالک مثلاﹰ امریکا، اسرائیل، کینیڈا اور عرب لیگ کی جانب سے اس جماعت کو دہشت گرد تنظیم گردانا جاتا ہے۔ تاہم برطانیہ، آسٹریلیا اور یورپی یونین اس کی قانونی سیاسی سرگرمیوں اور عسکری بازو کے درمیان فرق کو ملحوظ رکھتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Pacific Press/I. Press
شامی خانہ جنگی میں موجودگی
حزب اللہ شام میں صدر بشار الاسد کی حمایت کر رہی ہے۔ حزب اللہ کی شامی خانہ جنگی میں شمولیت نے نہ صرف صدر بشار الاسد کو محفوظ کیا بلکہ شامی افواج کے لیے ہتھیاروں کی ترسیل کے راستے محفوظ کیے اور لبنان کے ارد گرد ایسا محفوظ علاقہ تشکیل دیا ہے جو ان سنی عسکری جماعتوں کو شام سے دور رکھنے کا سبب ہے، جن سے شام کو خطرہ ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Syrian Central Military Media
فرقہ بندی
لبنان ایک طویل عرصے سے خطے میں خصوصی طور پر ایران اور سعودی عرب کے مابین طاقت کی جنگ میں مرکزی حیثیت کا حامل رہا ہے۔ تاہم حزب اللہ کے سیاسی اور عسکری غلبے اور شام کی جنگ میں شمولیت کے باعث لبنان سمیت خطے میں فرقوں کے درمیان تناؤ میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔