1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستجرمنی

جرمنی میں حکمران تین جماعتی مخلوط حکومتی اتحاد ٹوٹ گیا

7 نومبر 2024

اقتصادی امور پر اختلافات کے سبب جرمن چانسلر شولس نے اپنے وزیر خزانہ کو برطرف کر دیا تھا، جس کے بعد یہ سیاسی بحران پیدا ہوا۔ ان کا کہنا ہے کہ آئندہ جنوری میں وہ اعتماد کا ووٹ حاصل کریں گے۔

اولاف شولس اپنے کابینی رفقا کے ساتھ
چانسلر شولس کا کہنا ہے کہ سابق وزیر خزانہ نے ان کے 'اعتماد کو دھوکہ' دیا اور اپنی پارٹی کے بنیادی مفادات کو ملک کے مفادات پر ترجیح دیتصویر: picture alliance/dpa

جرمن چانسلر اولاف شولس کی قیادت والی مخلوط حکومت میں شامل فری ڈیموکریٹک پارٹی (ایف ڈی پي) نے اپنی حمایت واپس لے لی ہے اور اس طرح حکمران اتحاد سیاسی بحران کا شکار ہو گیا ہے۔ اس بحران کی وجہ سے اب قبل از وقت نئے عام انتخابات ہونے کا بھی امکان ہے۔

یہ سیاسی بحران اس وقت پیدا ہوا، جب اقتصادی امور پر شدید اختلافات کی بنا پر چانسلر اولاف شولس نے اپنے وزیر خزانہ کرسٹیان لنڈنر کو برطرف کر دیا۔ شولس نے کہا کہ انہیں وزیر خزانہ کرسٹیان لنڈنر پر کوئی بھروسہ نہیں رہا۔

جرمنی میں سیکسنی اور تھیورنگیا کے پارلیمانی الیکشن میں کانٹے دار مقابلہ

اس اعلان کے فوری بعد ایف ڈی پی نے شولس کی کابینہ میں شامل اپنے تمام وزرا کے استعفے سونپ دیے اور حکومت سے حمایت واپس لینے کا اعلان کر دیا۔ 

ایف ڈی پی کے پارلیمانی گروپ کے رہنما کرسٹیان لنڈر نے برلن میں اعلان کیا کہ سن 2021 کے اواخر میں تشکیل کردہ تین جماعتوں پر مبنی اتحاد کو وہ باضابطہ طور پر ختم کر رہے ہیں۔

جرمن چانسلر انتہائی دائیں بازو کی جماعت پر پابندی کے مخالف

واضح رہے کہ چانسلر شولس کی قیادت والی مخلوط حکومت، ان کی اپنی جماعت سوشل ڈیموکریٹس، ایف ڈی پی اور گرینز کے ساتھ اتحاد پر مبنی ہے، جو 2021 سے ہی حکومت کرتا رہا ہے۔ اس اتحاد کا نام "ٹریفک لائٹ" رکھا گیا تھا۔

جرمن سیاست دان کی قبر کی بے حرمتی کا معاملہ کیا ہے؟

اعتماد کا ووٹ اور جلد انتخاب کا امکان

حکومت سے حمایت واپس لینے کا کا مطلب یہ ہوا کہ شولس کی حکومت کو اب پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل نہیں رہی۔ چانسلر نے اعلان کیا ہے کہ وہ آئندہ جنوری میں اعتماد کا ووٹ حاصل کر سکتے ہیں، جس سے مارچ تک قبل از وقت انتخابات کا راستہ بھی ہموار ہو سکتا ہے۔

چانسلر شولس کی قیادت والی مخلوط حکومت، ان کی اپنی جماعت سوشل ڈیموکریٹس، ایف ڈی پی اور گرینز کے ساتھ اتحاد پر مبنی ہے، جو 2021 سے ہی حکومت کرتا رہا ہےتصویر: Mike Schmidt/IMAGO

چانسلر شولس نے کہا کہ 15 جنوری 2025 کو ان کی حکومت پر اعتماد کا ووٹ لیا جائے گا۔ اس اقدام سے جرمنی کے پارلیمانی انتخابات، جو 2025 کے موسم خزاں میں ہونے طے تھے اب شیڈول سے چھ ماہ قبل مارچ 2025 میں ہونے کا امکان ہے۔

چانسلر کا کہنا ہے کہ انہوں نے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کا منصوبہ تیار کیا ہے تاکہ اراکین پارلیمنٹ "یہ فیصلہ کر سکیں کہ قبل از وقت انتخابات کا راستہ ہوار کیا جا سکے۔ "

جرمنی میں اسلامی قانون کے حامیوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ

جرمن سیاست اور معاشی افراتفری

ٹریفک لائٹ اتحاد کے اندر بحران نے یورپ کی سب سے بڑی معیشت کو سیاسی افراتفری میں ڈال دیا ہے اور ٹرمپ کی فتح کے چند گھنٹوں بعد ہی اس پیش رفت نے یورپ کی سب سے بڑی معیشت اور اس کی سلامتی کے مستقبل کے بارے میں غیر یقینی صورتحال پیدا ہو گئی۔

کہا جا رہا ہے کہ بدھ کی رات کو اختلاف منظر عام پر آنے سے پہلے سے ہی اندرونی تناؤ ہفتوں سے ابل رہا تھا۔

چانسلر شولس نے اس حوالے سے اپنے ایک بیان میں کہا کہ سابق وزیر خزانہ نے "میرے اعتماد کو دھوکہ دیا" اور اپنی پارٹی کے بنیادی مفادات کو ملک کے مفادات پر ترجیح دی۔

دائیں بازو کے ایک جرمن سیاستدان سے امریکی ایف بی آئی کی پوچھ گچھ

انہوں نے مزید کہا کہ جرمنی کو یہ ظاہر کرنے کی ضرورت ہے کہ دوسرے ممالک، خاص طور پر امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخاب کے بعد، بھی اس پر انحصار کر سکتے ہیں۔

ادھر لِنڈنر نے شولس پر یہ الزام لگایا کہ وہ "جرمنی کو غیر یقینی صورتحال کی طرف لے جا رہے ہیں۔"

جرمن چانسلر کا کہنا ہے کہ وہ کرسچن ڈیموکریٹس کے اپوزیشن لیڈر فریڈرک مرز سے رابطہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ جرمن معیشت اور دفاع کو مضبوط کرنے کے لیے فوری مشترکہ حل کا جائزہ لیا جا سکےتصویر: REUTERS

اگلا اقدام کیا ہو سکتا ہے؟

توقع ہے کہ اب اولاف شولس اپنے سوشل ڈیموکریٹس اور گرینز کے ساتھ مل کر ایک اقلیتی حکومت کی قیادت کریں گے۔ تاہم انہیں قوانین کی منظوری کے لیے پارلیمانی اکثریت پر انحصار کرنا پڑے گا۔

جرمن چانسلر اولاف شولس کا کہنا ہے کہ وہ کرسچن ڈیموکریٹس کے اپوزیشن لیڈر فریڈرش میرس سے رابطہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ جرمن معیشت اور دفاع کو مضبوط کرنے کے لیے فوری مشترکہ حل کا جائزہ لیا جا سکے۔

سوشل ڈیموکریٹک رہنما نے برلن میں کہا، "اب میں بہت جلد اپوزیشن لیڈر فریڈرش میرس سے بات چیت کرنے کی کوشش کروں گا۔"

کیا نوجوان جرمن ووٹر دائیں بازو کی سیاست میں پھنس سکتے ہیں؟

چانسلر نے کہا کہ وہ میرس کو دو یا اس سے بھی زیادہ ایسے مسائل پر مل کر کام کرنے کا موقع فراہم کرنا چاہتے ہیں "جو ہمارے ملک کے لیے بہت اہم ہیں: ہماری معیشت اور ہمارے دفاع کی تیزی سے مضبوطی کے لیے۔"

شولس نے کہا کہ جرمن معیشت نئے انتخابات ہونے تک انتظار نہیں کر سکتی۔

انہوں نے کہا، "اور ہمیں اب اس بات پر وضاحت کی ضرورت ہے کہ ہم ملک میں ہم آہنگی کو خطرے میں ڈالے بغیر آنے والے سالوں میں اپنی سلامتی اور دفاع کے لیے کس طرح ٹھوس مالی امداد کر سکتے ہیں۔"

امریکی انتخابات کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اب یہ "شاید پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہے۔ ہمارے ملک کو ابھی جس کی اشد ضرورت ہے ان امور پر فیصلہ کرنے کے بارے میں، میں ذمہ دار اپوزیشن کے ساتھ بات چیت کی کوشش کروں گا۔"

برلن میں ہزارہا شہریوں کا دائیں بازو کے انتہا پسندی خلاف احتجاجی مظاہرہ

جرمنی کو جلد انتخابات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے

جرمن آئین کے مطابق قبل از وقت وفاقی انتخابات کے انعقاد کا فیصلہ نہ تو پارلیمنٹ کے ایوان زیریں، بنڈسٹاگ کے اراکین کر سکتے ہیں اور نہ ہی چانسلر کے پاس اس کا کوئی اختیار ہے۔

پارلیمنٹ کی جلد از جلد تحلیل بھی دو طریقوں میں سے کسی ایک طریقے سے ہی ہو سکتی ہے۔

پہلی صورت میں اگر چانسلر کے لیے کوئی بھی امیدوار مطلق پارلیمانی اکثریت حاصل نہیں کرتا، جس کے لیے 733 نشستوں والے ایوان میں کم از کم 367 ووٹ درکار ہوتے، تو جرمن صدر پارلیمان کو تحلیل کر سکتا ہے۔ وفاقی جمہوریہ جرمنی کی تاریخ میں ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔

دوسری صورت یہ ہے کہ چانسلر اس بات کی تصدیق کے لیے ایوان میں اعتماد کا ووٹ طلب کرے کہ آیا اسے ابھی بھی پارلیمان میں مطلوبہ حمایت حاصل ہے یا نہیں۔ اگر چانسلر اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے، تو وہ باضابطہ طور پر صدر کو 21 دنوں کے اندر پارلیمان کو تحلیل کرنے کا مشورہ دے سکتا ہے۔

پارلیمنٹ کی تحلیل کے بعد 60 دن کے اندر نئے انتخابات کا انعقاد ضروری ہے۔ اس سے پہلے جرمنی میں تین بار اس طرح کے قبل از وقت انتخابات ہو چکے ہیں۔

ص ز/ ج ا (اے پی، ڈی پی اے، اے ایف پی، روئٹرز)

اولاف شولس کا ایک سال

03:25

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں