انتخابات کے چار ماہ بعد جرمنی میں حکومت سازی کے لیے دو سب سے بڑی جماعتوں کے درمیان حکومت سازی کے لیے باقاعدہ مذاکرات کا آغاز ہو گیا ہے۔ اس حوالے سے تین سوال، تین جواب۔
اشتہار
جرمنی میں پارلیمانی انتخابات گزشتہ برس 24 ستمبر کو ہوئے تھے تاہم ابھی تک یورپ کی اس سب سے بڑی معیشت میں نئی حکومت کا قیام عمل میں نہیں آ سکا۔ ایک اتحادی حکومت کے قیام کے لیے اب جمعہ 26 جنوری سے جرمنی کی دو سب سے بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان باقاعدہ بات چیت کا آغاز ہو گیا ہے۔
چار ماہ گزرنے کے باوجود اب تک نئی حکومت کیوں نہ بن سکی؟
اس کی سب سے بڑی وجہ تو ظاہر ہے کہ ستمبر میں ہونے والے انتخابات میں کسی بھی سیاسی جماعت کی فیصلہ کن برتری حاصل کرنے میں ناکامی ہے۔ پھر جرمنی کی دوسری بڑی سیاسی جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی یا SPD کی طرف سے یہ اعلان سامنے آیا کہ وہ چانسلر میرکل کی سیاسی جماعت کے ساتھ مل کر حکومت نہیں بنائے گی۔ حالانکہ یہ جماعت گزشتہ حکومت میں بطور اتحادی شامل تھی۔ اسی باعث میرکل کی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین CDU اور اس کی حلیف جماعت کرسچن سوشل یونین CSU نے گرین پارٹی اور فری ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ مل کر اتحاد بنانے کی کوشش کی مگر اس حوالے سے بات چیت بھی نومبر میں ناکام ہو گئی۔ لہذا ایک امکان یہ باقی تھا کہ دونوں بڑی جماعتیں مل کر اتحادی حکومت قائم کر لیں۔ امید یہی کی جا رہی ہے کہ ان باقاعدہ مذاکرات کے بعد جرمنی میں اب گرینڈ کولیشن وجود میں آ سکے گا۔
گرینڈ کولیشن ہے کیا؟ اور کیا ایسا پہلے بھی کبھی ہوا ہے؟
گرینڈ کولیشن کا مطلب ہے کہ انتخابات کے نتیجے میں سب سے زیادہ ووٹ یا نشستیں حاصل کرنے والی دو سب سے بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان اتحاد۔ موجودہ صورت میں یہ گرینڈ کولیشن میرکل کی جماعت CDU اور اس کی حلیف جماعت CSU کا سوشل ڈیموکریٹک پارٹی SPD کے ساتھ ممکنہ اتحاد ہے۔ رہا سوال ماضی میں گرینڈ کولیشن کا تو جی بالکل سابقہ حکومت بھی جرمنی میں نئے سیاسی نظام اپنائے جانے کے بعد کی تیسری گرینڈ کولیشن تھی۔ اور اس سے قبل 1960ء اور 2000ء کی دہائیوں میں ایسا ہو چکا ہے۔
اگر یہ گرینڈ کولیشن وجود میں نہ آ سکی تو پھر کیا ہو گا؟
حکومت سازی کے لیے ان مذاکرات کی ناکامی جرمنی میں سیاسی اور معاشی کئی حوالوں سے پریشانی کا سبب ہے۔ اس مسئلے کے حل کا ایک بڑا امکان نئے انتخابات کرانا ہے۔ مگر جرمنی میں اس پر بھی تحفظات کا اظہار سامنے آ چکا ہے کہ ایسی صورت میں جرمن ٹیکس دہندگان کی مزید 100 ملین یورو کے قریب رقم خرچ ہو جائے گی۔ گزشتہ انتخابات پر 92 ملین یورو خرچ ہوئے تھے۔ ایک خدشہ یہ بھی ہے کہ اگر دوبارہ انتخابات ہوتے ہیں تو انتہائی دائیں بازو کی اور اسلام اور مہاجرین مخالف جماعت اے ایف ڈی مزید طاقت حاصل کر لے گی۔
اسلام مخالف سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے بارے میں اہم حقائق
مہاجرت اور اسلام مخالف سیاسی پارٹی متبادل برائے جرمنی ملکی سیاست میں ایک نئی قوت قرار دی جا رہی ہے۔ اس پارٹی کے منشور پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Weigel
مہاجرت مخالف
اے ایف ڈی کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں کو بند کر دینا چاہیے تاکہ غیر قانونی مہاجرین اس بلاک میں داخل نہ ہو سکیں۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملکی سرحدوں کی نگرانی بھی سخت کر دی جائے۔ اس پارٹی کا اصرار ہے کہ ایسے سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کو فوری طور پر ملک بدر کر دیا جائے، جن کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Schmuelgen
یورپی یونین مخالف
متبادل برائے جرمنی کا قیام سن دو ہزار تیرہ میں عمل میں لایا گیا تھا۔ اس وقت اس پارٹی کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ یورپی یونین کے ایسے رکن ریاستوں کی مالیاتی مدد نہیں کی جانا چاہیے، جو قرضوں میں دھنسی ہوئی ہیں۔ تب اس پارٹی کے رہنما بیرنڈ لوکے نے اس پارٹی کو ایک نئی طاقت قرار دیا تھا لیکن سن دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں یہ پارٹی جرمن پارلیمان تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
دائیں بازو کی عوامیت پسندی
’جرمنی پہلے‘ کا نعرہ لگانے والی یہ پارٹی نہ صرف دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں ہے بلکہ یہ ایسے افراد کو بھی اپنی طرف راغب کرنے کی خاطر کوشاں ہے، جو موجودہ سیاسی نظام سے مطمئن نہیں ہیں۔ کچھ ماہرین کے مطابق اے ایف ڈی بالخصوص سابق کمیونسٹ مشرقی جرمنی میں زیادہ مقبول ہے۔ تاہم کچھ جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پارٹی جرمنی بھر میں پھیل چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
علاقائی سیاست میں کامیابیاں
اے ایف ڈی جرمنی کی سولہ وفاقی ریاستوں میں سے چودہ صوبوں کے پارلیمانی اداروں میں نمائندگی کی حامل ہے۔ مشرقی جرمنی کے تمام صوبوں میں یہ پارٹی ایوانوں میں موجود ہے۔ ناقدین کے خیال میں اب یہ پارٹی گراس روٹ سطح پر لوگوں میں سرایت کرتی جا رہی ہے اور مستقبل میں اس کی مقبولیت میں مزید اضافہ ممکن ہے۔
تصویر: Reuters
نیو نازیوں کے لیے نیا گھر؟
اے ایف ڈی جمہوریت کی حامی ہے لیکن کئی سیاسی ناقدین الزام عائد کرتے ہیں کہ اس پارٹی کے کچھ ممبران نیو نازی ایجنڈے کو فروغ دے رہے ہیں۔ یہ پارٹی ایک ایسے وقت میں عوامی سطح پر مقبول ہوئی ہے، جب انتہائی دائیں بازو کے نظریات کی حامل پارٹیاں تاریکی میں گم ہوتی جا رہی ہیں۔ ان میں این پی ڈی جیسی نازی خیالات کی حامل پارٹی بھی شامل ہے۔
تصویر: picture alliance/AA/M. Kaman
طاقت کی جنگ
تقریبا پانچ برس قبل وجود میں آنے والی اس پارٹی کے اندر طاقت کی جنگ جاری ہے۔ ابتدائی طور پر اس پارٹی کی قیادت قدرے اعتدال پسندی کی طرف مائل تھی لیکن اب ایسے ارکان کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔ ناقدین کے مطابق اب اس پارٹی کے اہم عہدوں پر کٹر نظریات کے حامل افراد فائز ہوتے جا رہے ہیں۔ ان میں اس پارٹی کی موجودہ رہنما ایلس وائڈل بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler
پيگيڈا کے ساتھ ناخوشگوار تعلقات
اے ایف ڈی اور مہاجرت مخالف تحریک پیگیڈا کے باہمی تعلقات بہتر نہیں ہیں۔ پیگیڈا مشرقی جرمن شہر ڈریسڈن میں باقاعدہ بطور پر احتجاج کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ تاہم اے ایف ڈی نے پیگیڈا کے کئی حامیوں کی حمایت بھی حاصل کی ہے۔ تاہم یہ امر اہم ہے کہ پیگیڈا ایک سیاسی پارٹی نہیں بلکہ شہریوں کی ایک تحریک ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/S. Kahnert
میڈیا سے بے نیاز
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بریگزٹ رہنما نائیجل فاراژ کی طرح جرمن سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے رہنما بھی مرکزی میڈیا سے متنفر ہیں۔ اے ایف ڈی مرکزی میڈیا پلیٹ فارمز کے ساتھ دوستانہ تعلقات بنانے کے لیے کوشش بھی نہیں کرتی بلکہ زیادہ تر میڈیا سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات دینا بھی مناسب نہیں سمجھتی۔