جرمنی میں حکومت سازی کی کوششیں: نیوز بلیک آؤٹ پر اتفاق
بینش جاوید، روئٹرز
4 جنوری 2018
جرمن سیاسی جماعتوں سی ڈی یو اور ایس پی ڈی نے آئندہ ہفتے نئی حکومت کے قیام کے لیے ایک ممکنہ ’وسیع اتحاد‘ بنانے کے لیے شروع ہونے والے مذاکرات کے دوران نیوز کا مکمل بلیک آؤٹ کر نے پر اتفاق کیا ہے۔
اشتہار
کرسچین ڈیموکریٹک یونین ، اِس کی اتحادی سیاسی جماعت سی ایس یو اور اِن کے ساتھ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کا اتحاد جرمن چانسلر میرکل کے پاس حکومت بنانے کا واحد راستہ نظر آتا ہے۔
گزشتہ برس انتخابات کے بعد میرکل ان دونوں جماعتوں کے ساتھ اتحاد بنانے میں ناکام رہی تھیں۔ اتحاد نہ بن پانے کا ذمہ دار اُن سیاست دانوں کو ٹھہرایا گیا تھا جنہوں نے مذاکرات کے سلسلے میں ہونے والی ملاقاتوں اور اجلاسوں کے بعد کچھ معلومات صحافیوں کو بتا دی تھیں۔
اب جرمن چانسلر انگیلا میرکل، سی ایس یو کے سربراہ ہورسٹ زیہوفر اور ایس پی ڈی کے سربراہ مارٹن شُلز نے آپس میں طے کیا ہے کہ مذاکرات کرنے والے شرکاء کو ہر گز اس بات کی اجازت نہیں ہوگی کہ وہ مذاکرات کے دوران میڈیا سے بات چیت کریں۔
جرمن جریدے اشپیگل آن لائن کی رپورٹ کے مطابق تینوں رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ مذاکرات میں شامل افراد ایک دوسرے کا اعتماد قائم رکھیں گے اور میڈیا کے ساتھ معلومات کا تبادلہ نہیں کریں گے۔
میرکل کے مرکزی حریف مارٹن شُلس کا سیاسی کیریئر
سوشل ڈیموکریٹک رہنما مارٹن شلس نے میرکل کے خلاف انتخابات میں حصہ لینے کے لیے یورپی پارلیمان کی سربراہی چھوڑی تھی۔ تاہم وہ میرکل سے شکست کھا گئے۔ میرکل کے خلاف انتخابات لڑنے والے مارٹن شلس ہیں کون؟
تصویر: Reuters/W. Rattay
یورپی پارلیمان کے سابق اسپیکر
رواں برس کے آغاز تک شلس ایک یورپی سیاستدان تھے۔ وہ یورپی سوشلسٹ بلاک کے سربراہ اور 2012ء سے 2017ء تک یورپی پارلیمان کے اسپیکر بھی رہ چکے ہیں۔ تاہم اب شلس میرکل کے مقابلے میں چانسلر شپ کے امیدوار ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ان سے پہلے سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے تین امیدوار میرکل کو شکست دینے میں ناکام رہے ہیں۔
تصویر: picture alliance/Dpa/dpa
ایک متحرک شخصیت
مارٹن شلس کا تعلق ویورزیلین نامی علاقے سے ہے۔ آخن کے قریب واقع اس شہر کی آبادی محض اڑتیس ہزار ہے۔ شلس اب بھی اسی چھوٹے سے شہر میں ہی رہتے ہیں۔ وہ 1987ء سے 1998ء یعنی گیارہ برسوں تک اس شہر کے میئر بھی رہے۔ ان کی کتابوں کی ایک دکان بھی ہے، جو وہ اپنی بہن کے ساتھ مل کر چلاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Zinken
مارٹن شلس اور ملالہ یوسفزئی
پاکستان میں طالبان کے حملے میں شدید زخمی ہونے والی ملالہ یوسف زئی نے سن دو ہزار تیرہ میں انسانی حقوق کے لیے یورپی پارلیمنٹ کا اعلیٰ ایوارڈ سخاروف پرائز جیتا تھا۔ تب شلس یورپی پارلیمان کے اسپیکر تھے اور انہوں نے ہی یہ ایوارڈ ملالہ کے حوالے کیا تھا۔
تصویر: Reuters
فٹ بالر بننے کا خواب
شلس 1955ء میں ایک پولیس افسر کے گھر پیدا ہوئے۔ وہ اپنے پانچ بہن بھائیوں میں سے سب سے چھوٹے ہیں۔ وہ فٹ بالر بننا چاہتے تھے لیکن گھٹنے کی چوٹ نے ان کا خواب چکنا چور کر دیا۔ 1970ء کی دہائی کے وسط میں یعنی بیس سال کی عمر میں وہ ایک برس تک بے روز گار بھی رہے۔ شلس اپنے ماضی پر کھل کر بات کرتے ہیں، ’’میں ایک لاابالی اور بے پرواہ لڑکا تھا اور اچھا طالب علم بھی نہیں تھا۔‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Becker
سایست میں قدم
شلس 1974 سے ہی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) میں کافی متحرک ہو چکے تھے۔ بتیس سال کی عمر میں جب وہ اپنے شہر کے میئر بنے تو اس وقت وہ جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں اپنی پارٹی کے سب سے کم عمر ترین رہنما تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Sevenich
چانسلرشپ کے لیے امیدوار
جنوری 2017ء میں شلس کو سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے چانسلرشپ کا امیدوار منتخب کیا گیا۔ اس کے فوری بعد اپنے ایک انٹرویو میں شلس نے کہا، ’’مایوسی جمہوریت کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔‘‘ ان کے بقول شہریوں کو اگر یہ احساس ہو کہ وہ تو سماج کے لیے کچھ کر رہے ہیں لیکن سماج ان کے لیے کچھ بھی نہیں کر رہا اور نہ ہی انہیں عزت دے رہا ہے، تو ان کا مزاج جارحانہ ہو جاتا ہے۔‘‘
تصویر: picture-alliance/HMB Media/H. Becker
امریکی صدر ٹرمپ پر تنقید
سن 2016 میں شلس نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پوری دنیا کے لیے ایک مسئلہ ہیں اور انتخابات میں ٹرمپ کی کامیابی کو انہوں نے یورپ میں عوامیت پسندوں سے نتھی کیا۔ انہوں نے ٹرمپ کو ایک غیر ذمہ دار شخص بھی کہا تھا۔ شلس نے برسلز اور اسٹراس برگ میں بارہا یہ ثابت کیا کہ وہ ایسے موضوعات پر بھی کھل کر اپنا موقف بیان کر سکتے ہیں، جن کی وجہ سے شاید انہیں جرمنی کی داخلہ سیاست میں تنقید کا سامنا کرنا پڑے۔
تصویر: Reuters/W. Rattay
انتخابی مہم میں خارجہ پالیسی
روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے بارے میں سوشل ڈیموکریٹ سیاستدان شلس کا کہنا ہے، ’’روس جو کر رہا ہے، وہ بالکل نا قابل قبول ہے۔ روس کے جارحانہ اقدامات کا باہمی احترام کے یورپی فلسفے سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘ انہوں نے اپنی انتخابی مہم میں بھی اپنے انہی خیالات کا برملا اظہار کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Gambarini
جیت کے امکانات کم ہیں
تمام جوش و خروش اور ولولے کے باوجود ایسا امکان دکھائی نہیں دیتا کہ شلس چانسلر میرکل کو شکست دے پائیں گے۔ پارٹی کی جانب سے چانسلر کے عہدے کا امیدوار بننے کے بعد جنوری اور فروری میں مختصر مدت کے لیے سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی مقبولیت تیزی سے بڑھی تھی۔ فروری میں میرکل کے چونتیس فیصد کے مقابلے میں شلُس کی عوامی مقبولیت پچاس فیصد تک پہنچ گئی تھی۔ تاہم اب الیکشن سے قبل یہ اعداد و شمار بالکل ہی بدل چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Nietfeld
’میں ہی چانسلر بنوں گا‘
عوامی جائزوں میں اپنی پارٹی کی مقبولیت میں کمی کے باوجود شلس بہت پرامید ہیں اور وہ ان ووٹروں کو قائل کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں، جو ابھی تک اپنا فیصلہ نہیں کر سکے کہ 24 ستمبر کو وہ کس پارٹی کو ووٹ دیں گے۔ اگست میں انہوں نے نشریاتی ادارے ’زیڈ ڈی ایف‘ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا، ’چانسلر میں ہی بنوں گا۔‘‘
تصویر: Getty Images/M. Hitij
’جمہوریت ہی واحد راستہ‘
مارٹن شلس کا کہنا ہے کہ ’اگر جمہوریت لوگوں کو تحفظ کا احساس نہیں دے گی تو وہ متبادل تلاش کریں گے‘۔ ناقدین کے مطابق شلس اپنی پارٹی کی مقبولیت میں بہتری کا باعث بنے ہیں لیکن میرکل کو شکست دینا ان کے لیے ایک مشکل کام ہو گا۔
تصویر: picture alliance/dpa/M. Kappeler
اپنی اہلیہ کے ساتھ
مارٹن شلس اور ان کی اہلیہ اِنگے شلس کی گزشتہ برس جرمن شہر آخن میں لی گئی ایک تصویر۔ شلس اپنی خوشگوار ازدواجی زندگی کو اپنی کامیابی کے لیے انتہائی اہم قرار دیتے ہیں۔ مارٹن اور اِنگے شلس دو بچوں کے والدین ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Kaiser
12 تصاویر1 | 12
جرمنی کی اِن بڑی سیاسی جماعتوں نے آج بروز بدھ اس امید کا اظہار کیا ہے کہ ملک میں بالآخر نئی حکومت کا قیام ممکن ہو سکے گا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ عام انتخابات کے لگ بھگ چار ماہ بعد بھی وفاقی حکومت نہیں بن پائی۔
سی ایس یو، سی ڈی یو اور ایس پی ڈی کے رہنماؤں نے آج ہونے والی ملاقات میں ایک دوسرے پر اعتماد بڑھانے کی بات کی ہے جو کہ میرکل کے لیے ایک اچھی خبر ہے کیوں کہ اس مذاکراتی عمل کی کامیابی کا مطلب ہے کہ وہ ایک مرتبہ پھر جرمن عوام کی چانسلر بن سکتی ہیں۔ اس دور کے ابتدائی مذاکرات کا آغاز آئندہ اتوار سے ہو گا اور توقع ہے کہ چند ہفتوں میں کوئی اہم فیصلہ سامنے آسکتا ہے۔
نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق ایس پی ڈی کی قیادت کا کہنا ہے کہ اس جماعت کے اراکین 21 جنوری کو ووٹ کے ذریعے یہ فیصلہ کریں گے کہ ایس پی ڈی کو وسیع اتحاد کا حصہ بننا چاہیے یا نہیں۔ دوسری جانب میرکل کی قدامت پسند اتحادی جماعت سی ایس یو نے ایس پی ڈی کو خبردار کیا ہے کہ وہ اتحاد قائم کرنے کے لیے بہت زیادہ مطالبات نہ کریں۔ ساتھ ہی یہ جماعت اپنے ووٹرز کو یہ بھی بتانا چاہتی ہے کہ وہ مہاجرت جیسے حساس موضوعات پر سمجھوتہ نہیں کرے گی۔
انگیلا میرکل کے دور اقتدار کے کچھ انتہائی اہم لمحات
انگیلا میرکل کے قدامت پسند سیاسی اتحاد نے چوبیس ستمبر کے وفاقی انتخابات میں کامیابی حاصل کی تو میرکل کے چوتھی مرتبہ بھی جرمن چانسلر کے عہدے پر فائز ہونے کی راہ ہموار ہو گئی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M.Schreiber
ہیلموٹ کوہل کی جانشین
انگیلا میرکل ہیلموٹ کوہل کے بعد پہلی مرتبہ کرسچن ڈیموکریٹک یونین کی نگران سربراہ بنی تھیں۔ انہیں اس سیاسی پارٹی کی قیادت کو اب تقریبا سترہ برس ہو چکے ہیں جبکہ انہوں نے سن دو ہزار پانچ میں پہلی مرتبہ جرمن چانسلر کا عہدہ سنبھالا تھا۔
تصویر: imago/Kolvenbach
پہلا حلف
’میں جرمنی کی خدمت کرنا چاہتی ہوں‘، بائیس نومبر 2005 کو انگیلا میرکل نے یہ کہتے ہوئے پہلی مرتبہ چانسلر شپ کی ذمہ داریاں سنبھالی تھیں۔ انہیں جرمنی کی پہلی خاتون چانسلر بننے کا اعزاز تو حاصل ہوا ہی تھا لیکن ساتھ ہی وہ اس عہدے پر فائز ہونے والی ایسی پہلی شخصیت بھی بنیں، جس کا تعلق سابقہ مشرقی جرمنی سے تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Bergmann
میرکل اور دلائی لامہ کی ملاقات
میرکل نے بطور چانسلر اپنے دور کا آغاز انتہائی عجزوانکساری سے کیا تاہم جلد ہی انہوں نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو لوہا منوا لیا۔ 2007ء میں میرکل نے دلائی لامہ سے ملاقات کی، جس سے بیجنگ حکومت ناخوش ہوئی اور ساتھ ہی جرمن اور چینی تعلقات میں بھی سرد مہری پیدا ہوئی۔ تاہم میرکل انسانی حقوق کو مقدم رکھتے ہوئے دیگر تمام تحفظات کو نظر انداز کرنا چاہتی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Schreiber
پوٹن کے کتے سے خوفزدہ کون؟
میرکل نہ صرف مضبوط اعصاب کی مالک ہیں بلکہ وہ منطق کا دامن بھی کبھی نہیں چھوڑتیں۔ تاہم روسی صدر پوٹن جرمن چانسلر کا امتحان لینا چاہتے تھے۔ میرکل کتوں سے خوفزدہ ہوتی ہیں، یہ بات پوٹن کو معلوم ہو گئی۔ سن 2007 میں جب میرکل روس کے دورے پر سوچی پہنچیں تو پوٹن نے اپنے کتے کونی کو بلاروک ٹوک میرکل کے قریب جانے دیا۔ تاہم میرکل نے میڈیا کے موجودگی میں مضبوط اعصاب دکھائے اور خوف کا کوئی ردعمل ظاہر نہ کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Astakhov
پرسکون میرکل
جرمن چانسلر انگیلا میرکل مسائل کے باوجود بھی پرسکون دکھائی دیتی ہیں۔ سن 2008 میں جب عالمی مالیاتی بحران پیدا ہوا تو میرکل نے یورو کو مضبوط بنانے کی خاطر بہت زیادہ محنت کی۔ اس بحران میں ان کی حکمت عملی نے میرکل کو’بحرانوں کو حل کرنے والی شخصیت‘ بنا ڈالا۔ میرکل کی کوششوں کی وجہ سے ہی اس بحران میں جرمنی کی معیشت زیادہ متاثر نہیں ہوئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/epa/H. Villalobos
دوسری مرتبہ چانسلر شپ
ستائیس ستمبر 2009ء کے انتخابات میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی سیاسی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین نے ایک مرتبہ پھر کامیابی حاصل کر لی۔ اس مرتبہ میرکل نے فری ڈیموکریٹک پارٹی (ایف ڈی پی) کے ساتھ اتحاد بنایا اور دوسری مرتبہ چانسلر کے عہدے پر منتخب کی گئیں۔
تصویر: Getty Images/A. Rentz
جوہری توانائی کا پروگرام اور مخالفت
انگیلا میرکل کوالیفائڈ ماہر طبیعیات ہیں، غالبا اسی لیے وہ حتمی نتائج کے بارے میں زیادہ سوچتی ہیں۔ تاہم انہوں نے فوکو شیما کے جوہری حادثے کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔ جاپان میں ہوئے اس خطرناک حادثے کے بعد جرمنی میں جوہری توانائی کے حامی فوری طور پر ایٹمی توانائی کے مخالف بن گئے۔ یوں میرکل کو بھی جرمن جوہری ری ایکٹرز کو بند کرنے کا منصوبہ پیش کرنا پڑا۔
تصویر: Getty Images/G. Bergmann
میرکل کی ازدواجی زندگی
ان کو کون پہچان سکتا ہے؟ یہ انگیلا میرکل کے شوہر یوآخم زاؤر ہیں، جو برلن کی ہیمبولٹ یونیورسٹی میں طبیعیات اور تھیوریٹیکل کیمسٹری کے پروفیسر ہیں۔ ان دونوں کی شادی 1998ء میں ہوئی تھی۔ عوامی سطح پر کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ یوآخم زاؤر دراصل جرمن چانسلر کے شوہر ہیں۔
تصویر: picture alliance/Infophoto
این ایس اے: میرکل کے فون کی بھی نگرانی
امریکی خفیہ ایجسنی این ایس اے کی طرف سے جرمن سیاستدانون کے ٹیلی فونز کی نگرانی کا اسکینڈل سامنا آیا تھا۔ یہ بھی کہا گیا کہ امریکا نے جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے فون بھی ریکارڈ کیے۔ اس اسکینڈل پر جرمنی اور امریکا کے دوستانہ تعلقات میں بھی اتار چڑھاؤ دیکھا گیا۔ لیکن میرکل نے اس نازک وقت میں بھی انتہائی سمجھداری سے اپنے تحفظات واشنگٹن تک پہنچائے۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
تیسری مرتبہ چانسلر کا عہدہ
انگیلا میرکل کے قدامت پسند اتحاد نے سن دو ہزار تیرہ کے وفاقی انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کی اور سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت سازی کی۔ ان انتخابات میں ان کی سابقہ اتحادی فری ڈیموکریٹک پارٹی کو شکست ہوئی اور وہ پارلیمان تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler
یونان کا مالیاتی بحران
میرکل دنیا بھر میں انتہائی مقبول ہیں لیکن یونان میں صورتحال کچھ مختلف ہے۔ سن 2014 میں جب یونان کا مالیاتی بحران شدید تر ہو چکا تھا تو جرمنی اور یونان کی ’پرانی دشمنی‘ کی جھلک بھی دیکھی گئی۔ لیکن میرکل اس وقت بھی اپنی ایمانداری اورصاف گوئی سے پیچھے نہ ہٹیں۔ بچتی کٹوتیوں اور مالیاتی اصلاحات کے مطالبات پر ڈٹے رہنے کی وجہ سے یونانی عوام جرمنی سے زیادہ خوش نہیں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/epa/S. Pantzartzi
جذباتی لمحہ
انگیلا میرکل زیادہ تر اپنے جذبات آشکار نہیں ہونے دیتی ہیں۔ تاہم دیگر جرمنوں کی طرح انگیلا میرکل بھی فٹ بال کی دلدادہ ہیں۔ جب جرمن قومی فٹ بال ٹیم نے برازیل منعقدہ عالمی کپ 2014ء کے فائنل میں کامیابی حاصل کی تو میرکل اپنے جذبات کو قابو میں نہ رکھ سکیں۔ جرمن صدر بھی یہ میچ دیکھنے کی خاطر میرکل کے ساتھ ریو ڈی جینرو گئے تھے۔
تصویر: imago/Action Pictures
مہاجرین کا بحران ایک نیا چیلنج
حالیہ عرصے میں مہاجرین کی ایک بڑی تعداد جرمنی پہنچ چکی ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ کو مہاجرین کے سب سے بڑے بحران کا سامنا ہے۔ میرکل کہتی ہیں کہ جرمنی اس بحران سے نمٹ سکتا ہے۔ لیکن جرمن عوام اس مخمصے میں ہیں کہ آیا کیا جرمنی واقعی طور پر اس بحران پر قابو پا سکتا ہے۔ ابھی اس کے نتائج آنا باقی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Hoppe
پیرس حملے اور یورپی سکیورٹی
تیرہ نومر کو پیرس میں ہوئے دہشت گردانہ حملوں کی وجہ سے فرانس بھر میں ہنگامی حالت نافذ کر دی گئی۔ انگیلا میرکل نے اپنے ہمسایہ ملک کو یقین دلایا ہے کہ برلن حکومت ہر ممکن تعاون کرے گی۔ کوئی شک نہیں کہ پیرس حملوں کے بعد کی صورتحال میرکل کے دس سالہ دور اقتدار میں انہیں پیش آنے والے چیلنجوں میں سب سے بڑا چیلنج ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. von Jutrczenka
چوتھی مرتبہ چانسلر
انگیلا میرکل نے بیس نومبر سن دو ہزار سولہ کو اعلان کیا کہ وہ چوتھی مرتبہ بھی چانسلر بننے کے لیے تیار ہیں۔ انہیں اپنی پارٹی کی طرف سے مکمل حمایت حاصل رہی اور ان کا قدامت پسند اتحاد چوبیس ستمبر کے وفاقی انتخابات میں سب سے بڑی سیاسی طاقت بن کر ابھرا۔ یوں میرکل کے چوتھی مرتبہ بھی چانسلر بننے کی راہ ہموار ہو گئی۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
15 تصاویر1 | 15
سی ایس یو کے رہنما ہورسٹ زیہوفر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا،’’ ہمیں یہ ’وسیع اتحاد‘ چاہیے اور اس اتحاد کی تکمیل تب ہی ممکن ہو سکتی ہے اگر ہمارے اتحادی بہت زیادہ مطالبات نہ کریں۔‘‘ زیہوفر نے یہ واضح کیا کہ سی ایس یو کی جانب سے پناہ گزینوں سے متعلق قوانین کو سخت کرنے کی تجویز کا مقصد ایس پی ڈی کو پریشان کرنا نہیں ہے بلکہ یہ بتانا ہے کہ ہم کیا چاہتے ہیں۔
اس وقت میرکل پر ایس پی ڈی کے ساتھ اتحاد بنانے کا دباؤ بہت زیادہ بڑھ گیا ہے لیکن یہ دونوں جماعتیں ٹیکس اور تارکین وطن کی جرمنی آمد جیسے معاملات پر مختلف آراء رکھتی ہیں۔