جرمنی میں حکومت سازی کی کوشش: ’سب کچھ یا کچھ بھی نہیں‘
شمشیر حیدر نیوز ایجنسیاں
21 جنوری 2018
جرمنی کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی انگیلا میرکل کی سی ڈی یو کے ساتھ نئی مخلوط حکومت میں شمولیت کے معاملے پر منقسم ہے۔ آج جرمن شہر بون میں ایس پی ڈی نئی وفاقی مخلوط حکومت میں اپنی شمولیت سے متعلق حتمی فیصلہ کرے گی۔
اشتہار
ایس پی ڈی کا اجلاس - جرمنی کے سیاسی مستقبل کا سوال
جرمنی کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی انگیلا میرکل کی سی ڈی یو کے ساتھ نئی مخلوط حکومت میں شمولیت کے معاملے پر منقسم ہے۔ آج جرمن شہر بون میں ایس پی ڈی نئی وفاقی مخلوط حکومت میں اپنی شمولیت سے متعلق حتمی فیصلہ کرے گی۔
تصویر: DW/B. Ünveren
سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے اجلاس میں ارکان مخلوط حکومت میں شامل ہونے کے بارے میں حتمی فیصلے کے لیے رائے شماری میں حصہ لے رہے ہیں
تصویر: DW/B. Ünveren
پارٹی سربراہ مارٹن شلس چانسلر میرکل کے ساتھ مخلوط حکومت بنانے کے خواہش مند ہیں
تصویر: picture alliance/dpa/F. Gambarini
لیکن ایس پی ڈی کے نوجوان ارکان اس کی مخالفت کر رہے ہیں
تصویر: Reuters/T. Schmuelgen
ایس پی ڈی نے حال ہی میں میرکل کے قدامت پسند اتحاد کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے
تصویر: picture alliance/dpa/abaca/M. Gambarini
اس معاہدے کے نکات پر پارٹی کے چند سرکردہ رہنما بھی نالاں ہیں
تصویر: picture alliance/dpa/O. Berg
تاہم ایس پی ڈی کے زیادہ تر نوجوان مخلوط حکومت بنانے کے بجائے نئے انتخابات کے حق میں ہیں
تصویر: DW/B. Ünveren
چانسلر میرکل کو امید ہے کہ آج کے اجلاس میں ایس پی ڈی مخلوط حکومت میں شرکت کا فیصلہ کرے گی
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler
7 تصاویر1 | 7
جرمنی کے سابق دارالحکومت بون میں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کا 45 رکنی وفاقی بورڈ اور چھ سو نمائندے چانسلر میرکل کے قدامت پسند اتحاد کے ساتھ مخلوط حکومت میں شامل ہونے کے بارے میں حتمی فیصلے کے لیے رائے شماری میں حصہ لے رہے ہیں۔ آج کے اس اجلاس کے بعد یہ طے ہو جائے گا کہ جرمنی میں بڑی سیاسی جماعتوں کے ’وسیع تر اتحاد‘ سے ایک مستحکم وفاقی حکومت کا قیام عمل میں آئے گا یا پھر ملک سیاسی بحران کا شکار ہونے جا رہا ہے۔
اگر ایس پی ڈی نے آج مخلوط حکومت میں نہ شامل ہونے کے حق میں ووٹ دے دیا تو جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے لیے دو ہی راستے رہ جائیں گے، یا تو انہیں تھوڑی سی اکثریت کے ساتھ ایک غیر مستحکم حکومت چلانا پڑے گی، یا ملک میں نئے عام انتخابات کرائے جائیں گے۔
جنوبی صوبے باویریا میں چانسلر میرکل کی اتحادی جماعت سی ایس یو کے سربراہ ہورسٹ زیہوفر نے کثیر الاشاعتی جرمن اخبار بلڈ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر آج کے اجلاس میں ایس پی ڈی کے ارکان نے مخلوط حکومت میں شامل نہ ہونے کا فیصلہ کیا تو یہ فیصلہ جرمنی کی ’سیاسی تباہی‘ کا باعث بن جائے گا۔ ان کا کہنا تھا، ’’میں سب سے صرف یہی اپیل کر سکتا ہوں کہ ملک میں مستحکم حکومت کے قیام میں مدد کریں۔‘‘
سیاسی اہمیت اور پس منظر
گزشتہ برس ستمبر کے ملکی انتخابات کے نتائج جرمنی کی دونوں روایتی بڑی جماعتوں، میرکل کی سی ڈی یو اور شُلس کی ایس پی ڈی، کے لیے انتہائی مایوس کن ثابت ہوئے تھے۔ ملک میں دائیں بازو کی عوامیت پسند سیاسی جماعت اے ایف ڈی تیسری بڑی سیاسی طاقت بن کر سامنے آئی تھی۔ چانسلر میرکل کے قدامت پسند اتحاد کی وفاقی پارلیمان میں نشستیں پھر بھی سب سے زیادہ رہیں، لیکن ایس پی ڈی کو اپنی سیاسی تاریخ میں سب سے کم ووٹ ملے تھے۔
ایس پی ڈی گزشتہ انتخابات کے بعد سے اب تک برسراقتدار مخلوط حکومت میں بھی چانسلر میرکل کے قدامت پسند اتحاد کے ساتھ وفاقی جرمن حکومت کا حصہ ہے۔ بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی اس جرمن سیاسی جماعت کے ارکان انتخابات کے مایوس کن نتائج کا الزام مخلوط حکومت کا حصہ بننے پر بھی عائد کر رہے تھے۔ اسی وجہ سے ایس پی ڈی کے رہنما مارٹن شُلس نے انتخابات کے فوراﹰ بعد اعلان کر دیا تھا کہ ایس پی ڈی دوبارہ مخلوط حکومت کا حصہ نہیں بنے گی۔
نئی جرمن مخلوط حکومت، چہرہ بہ چہرہ
جرمنی میں عام انتخابات کے بعد نئی مخلوط حکومت کے خد و خال واضح ہونے میں کچھ وقت تو لگا ہے تاہم اب اس نئی حکومت کی تشکیل کا کام اپنے آخری مرحلے میں داخل ہو گیا ہے۔ اتوار پندرہ دسمبر نئے وُزراء کے ناموں کے اعلان کا دن تھا۔
تصویر: AFP/Getty Images
تیسری آئینی مدت کی تیاریاں
اب یہ بات یقینی ہے کہ انگیلا میرکل تیسری بار جرمن چانسلر بنیں گی اور سی ڈی یُو، سی ایس یُو اور ایس پی ڈی پر مشتمل ایک بڑی مخلوط حکومت کی قیادت کریں گی۔ اس کابینہ میں کرسچین ڈیموکریٹک یونین کے پانچ، سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے چھ جبکہ کرسچین سوشل یونین کے تین وُزراء شامل ہوں گے۔
تصویر: Getty Images
اُرسلا فان ڈیئر لایَن جرمنی کی پہلی خاتون وزیر دفاع
وزیر محنت اور سات بچوں کے ماں اُرسلا فان ڈیئر لایَن کو وزارت دفاع کا قلمدان سونپنے کا اعلان ایک غیر متوقع پیشرفت قرار دی جا رہی ہے۔ جرمنی میں کئی حلقے فان ڈیئر لایَن کو جرمنی کی آئندہ چانسلر کے روپ میں بھی دیکھتے ہیں۔
تصویر: JOHANNES EISELE/AFP/Getty Images
تھوماس ڈے میزئر کے ذمے وزارت داخلہ کا قلمدان
وزیر دفاع کے طور پر تھوماس ڈے میزئر کو کافی تنقید کا سامنا رہا۔ اب انہیں ایک مرتبہ پھر وزیر داخلہ بنانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ وہ اس عہدے پر 2009ء تا 2011ء بھی تعینات رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
زیگمار گابریل ’سُپر منسٹر‘
جرمن پریس نے ایس پی ڈی کے چیئرمین زیگمار گابریل کو ’سُپر منسٹر‘ کا خطاب دیا ہے۔ ’سپر منسٹری‘ میں اقتصادیات کے ساتھ ساتھ اُس جرمن پروگرام کی نگرانی بھی شامل ہو گی، جس کے تحت جرمنی بتدریج جوہری توانائی ترک کرتے ہوئے آئندہ اپنی ضرورت کی تمام تر توانائی قابل تجدید ذرائع سے حاصل کرنا چاہتا ہے۔ گابریل نائب چانسلر بھی ہوں گے۔
تصویر: Imago
شٹائن مائر پھر ایک بار وزیر خارجہ
سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے فرانک والٹر شٹائن مائر گزشتہ پارلیمان میں اپنی پارٹی کے حزب کے قائد تھے۔ وہ دو ہزار پانچ تا دو ہزار نو بھی میرکل کے وزیر خارجہ کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور نئی مخلوط حکومت میں بھی اُنہیں یہی قلمدان سونپنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ 2009ء میں چانسلر شپ کے امیدوار شٹائن مائر کو میرکل کے ہاتھوں شکست اٹھانا پڑی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
محنت اور سماجی امور کی وزیر
آندریا ناہلیس سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی سیکرٹری جنرل ہیں۔ اُنہیں محنت اور سماجی امور کی وزارت سونپی جا رہی ہے۔ وہ اپنی جماعت کے اندر بائیں بازو کے دھڑے کی نمائندہ سمجھی جاتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
انصاف کا قلمدان، ہائیکو ماس کے پاس
ایس پی ڈی کے ہائیکو ماس نئی کابینہ کے غیر متوقع ناموں میں سے ایک ہیں اور اُنہیں امورِ انصاف کی وزارت کا قلمدان دیا گیا ہے۔ وہ ماہرِ قانون ہیں اور صوبائی سطح پر تو بہت سرگرم رہے ہیں لیکن وفاقی سطح پر سیاست کرنے کا یہ اُن کا پہلا تجربہ ہو گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ایس پی ڈی کی کم عمر ترین وزیر
اُنتالیس سالہ مانوئیلا شویزِک جرمن میڈیا کی فیورٹ سیاستدان ہیں۔ اُنہیں نئی کابینہ میں خاندان، بزرگوں، خواتین اور نوجوانوں کے امور کا وزیر بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ وہ اس سے پہلے جرمن صوبے میکلن برگ فور پومرن میں محنت، صنفی مساوات اور سماجی امور کی وزیر رہ چکی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
باربرا ہینڈرکس، پچھلی سے اگلی صف میں
باربرا ہینڈرکس ایس پی ڈی کے مالیاتی امور کی نگران کے طور پر اب تک زیادہ تر پس منظر میں رہی ہیں لیکن اب وزیر ماحول کے طور پر اُنہیں وفاقی سطح پر پہلی صف میں کارکردگی دکھانے کا موقع مل رہا ہے۔ ساتھ ساتھ وہ تعمیرات اور شہری ترقی کے امور کو بھی دیکھیں گی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
میرکل کے دستِ راست
اب تک کے وزیر ماحول پیٹر آلٹمائر کو چانسلر آفس کے نئے وزیر کا عہدہ سونپا گیا ہے۔ اُنہیں چانسلر میرکل کا سب سے قریبی ساتھی تصور کیا جاتا ہے۔ چانسلر آفس کے نئے وزیر کے طور پر جرمن خفیہ اداروں کے درمیان رابطہ کاری کی ذمے داریاں بھی اُنہی کے ہاتھوں میں ہوں گی۔
تصویر: dapd
خزانہ آئندہ بھی شوئبلے کے پاس
گزشتہ حکومت کی طرح نئی حکومت میں بھی سی ڈی یُو کے وولف گانگ شوئبلے ہی وزیر خزانہ ہوں گے۔ 71 سالہ شوئبلے کابینہ کے عمر رسیدہ ترین رکن ہوں گے۔ 1990ء میں ایک حملے کا نشانہ بننے کے بعد سے وہ اپنے فرائض ایک وہیل چیئر پر بیٹھ کر انجام دیتے ہیں۔
تصویر: Reuters
وزارت تعلیم یوہانا وانکا کے ہی پاس رہے گی
پروفیسر یوہانا وانکا وزیر تعلیم کے ہی عہدے پر برقرار رہیں گی۔ سرقہ بازی کے الزامات پر وزیر تعلیم آنیٹے شاوان کے مستعفی ہونے کے بعد یوہانا وانکا نے یہ منصب فروری 2013ء میں سنبھالا تھا۔
تصویر: Getty Images
سی ڈی یو کا وفادار کارکن بطور وزیر صحت
جرمنی کے نئے وزیر صحت ہیرمان گروہے ہوں گے۔ چانسلر میرکل کی سیاسی جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین کے سیکرٹری جنرل گروہے یہ عہدہ فری ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے ڈانیل باہَر کی جگہ سنبھالیں گے۔ گروہے حالیہ انتخابات میں چانسلر میرکل کی انتخابی مہم کے منیجر تھے۔ انہوں نے یہ مہم انتہائی کامیابی سے چلائی تھی۔
کرسچن سوشل یونین سے تعلق رکھنے والے الیگذانڈر ڈوبرنٹ کو وزیر برائے ڈیجیٹل انفراسٹرکچر بنایا جائے گا۔ وہ اب اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ مستقبل میں شہری ترقی کے حوالے سے ترتیب دیے جانے والے منصوبہ جات مطلوبہ ثمرات لائیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
وزیر داخلہ سے وزیر زراعت تک
ہانس پیٹر فریڈرش اب وزارت داخلہ کے بجائے زراعت کی وزارت سنبھالیں گے۔ بطور وزیر داخلہ این ایس اے اسکینڈل کے دوران کرسچن سوشل یونین سے تعلق رکھنے والے اس سیاستدان کے ردعمل کو انتہائی تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images
وزیر برائے ترقیاتی امور ہوں گے گیرڈ ملر
گیرڈ ملر کو وزیر برائے ترقیاتی امور بنایا گیا ہے۔ کرسچن سوشل یونین سے تعلق رکھنے والے گیرڈ ملر پہلی مرتبہ برلن کے سیاسی منظر نامے پر جلوہ گر ہوں گے۔
تصویر: AFP/Getty Images
16 تصاویر1 | 16
چانسلر میرکل کی جماعت نے ملک میں نئی مخلوط حکومت کے قیام کے لیے دو چھوٹی جماعتوں ایف ڈی پی اور گرین پارٹی سے مذاکرات شروع کیے تھے۔ تاہم انتہائی مختلف سیاسی نظریات رکھنے والی ان جرمن سیاسی جماعتوں کے مابین مذاکرات ناکام ہو گئے تھے۔
مذاکرات کی ناکامی کے بعد جرمن صدر نے ملک میں دوبارہ انتخابات سے بچنے کے لیے ایس پی ڈی اور سی ڈی یو کو مخلوط حکومت سازی کی دعوت دی تھی۔ حال ہی میں ایس پی ڈی نے سی ڈی یو اور سی ایس یو کے قدامت پسند دھڑے کے ساتھ مخلوط حکومت کے قیام سے متعلق ابتدائی مذاکرات کے لیے بنیادی نکات پر اتفاق کر لیا تھا۔
اپس پی ڈی میں تقسیم
ایس پی ڈی کے سربراہ مارٹن شُلس کو مخلوط حکومت میں شمولیت کے فیصلے پر پارٹی کی نوجوان قیادت کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔ تاہم ممکنہ مخلوط حکومتی مذاکرات کے لیے جن نکات پر سمجھوتہ کیا گیا ہے، ان پر پارٹی کے دیگر سرکردہ رہنما بھی شُلس سے نالاں ہیں۔ ان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ بائیں بازو کے نظریات رکھنے والی اس سیاسی جماعت نے مہاجرت، ٹیکس اور صحت کی سہولیات جیسے اہم موضوعات پر دائیں بازو کے قدامت پسند اتحاد کو بہت زیادہ رعایات دے دی ہیں۔
مارٹن شُلس آج کی پارٹی کانگریس میں مخلوط حکومت میں شمولیت کے حق میں ووٹ ڈالنے کی اپیل کر رہے ہیں۔ جمعے کے روز پارٹی ارکان کے نام لکھے گئے خط میں ان کا کہنا تھا کہ آج اتوار کی رائے شماری ’نہ صرف جرمنی اور یورپ کے سیاسی مستقبل کے لیے بہت اہم ہے بلکہ ایس پی ڈی کے اپنے سیاسی مستقبل کا انحصار بھی مخلوط حکومت میں شمولیت پر ہے‘۔ جرمن جریدے ’ڈئر اشپیگل‘ کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں شُلس کا کہنا تھا کہ اگر ’نہ‘ کے حق میں ووٹ ڈالا گیا تو فوری طور پر نئے انتخابات ہو سکتے ہیں اور خدشہ ہے کہ ان انتخابات میں عوام ایس پی ڈی کو ملک میں سیاسی استحکام نہ لانے پر سزا بھی دے سکتے ہیں۔
دوسری جانب مخلوط حکومت میں شمولیت کے خلاف مہم پارٹی کے یوتھ ونگ کے صدر کیون کیونرٹ نے شروع کر رکھی ہے۔ ایس پی ڈی کے نوجوان ارکان کی رائے میں اگلے چار برس اپوزیشن میں بیٹھنا ایس پی ڈی کے سیاسی مستقبل کے لیے اہم ہے۔ کیونرٹ کے مطابق انہیں امید ہے کہ آج کی پارٹی کانگریس میں پارٹی ارکان مخلوط حکومت میں شامل نہ ہونے کا فیصلہ کریں گے۔
اسلام مخالف سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے بارے میں اہم حقائق
مہاجرت اور اسلام مخالف سیاسی پارٹی متبادل برائے جرمنی ملکی سیاست میں ایک نئی قوت قرار دی جا رہی ہے۔ اس پارٹی کے منشور پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Weigel
مہاجرت مخالف
اے ایف ڈی کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں کو بند کر دینا چاہیے تاکہ غیر قانونی مہاجرین اس بلاک میں داخل نہ ہو سکیں۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملکی سرحدوں کی نگرانی بھی سخت کر دی جائے۔ اس پارٹی کا اصرار ہے کہ ایسے سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کو فوری طور پر ملک بدر کر دیا جائے، جن کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Schmuelgen
یورپی یونین مخالف
متبادل برائے جرمنی کا قیام سن دو ہزار تیرہ میں عمل میں لایا گیا تھا۔ اس وقت اس پارٹی کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ یورپی یونین کے ایسے رکن ریاستوں کی مالیاتی مدد نہیں کی جانا چاہیے، جو قرضوں میں دھنسی ہوئی ہیں۔ تب اس پارٹی کے رہنما بیرنڈ لوکے نے اس پارٹی کو ایک نئی طاقت قرار دیا تھا لیکن سن دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں یہ پارٹی جرمن پارلیمان تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
دائیں بازو کی عوامیت پسندی
’جرمنی پہلے‘ کا نعرہ لگانے والی یہ پارٹی نہ صرف دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں ہے بلکہ یہ ایسے افراد کو بھی اپنی طرف راغب کرنے کی خاطر کوشاں ہے، جو موجودہ سیاسی نظام سے مطمئن نہیں ہیں۔ کچھ ماہرین کے مطابق اے ایف ڈی بالخصوص سابق کمیونسٹ مشرقی جرمنی میں زیادہ مقبول ہے۔ تاہم کچھ جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پارٹی جرمنی بھر میں پھیل چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
علاقائی سیاست میں کامیابیاں
اے ایف ڈی جرمنی کی سولہ وفاقی ریاستوں میں سے چودہ صوبوں کے پارلیمانی اداروں میں نمائندگی کی حامل ہے۔ مشرقی جرمنی کے تمام صوبوں میں یہ پارٹی ایوانوں میں موجود ہے۔ ناقدین کے خیال میں اب یہ پارٹی گراس روٹ سطح پر لوگوں میں سرایت کرتی جا رہی ہے اور مستقبل میں اس کی مقبولیت میں مزید اضافہ ممکن ہے۔
تصویر: Reuters
نیو نازیوں کے لیے نیا گھر؟
اے ایف ڈی جمہوریت کی حامی ہے لیکن کئی سیاسی ناقدین الزام عائد کرتے ہیں کہ اس پارٹی کے کچھ ممبران نیو نازی ایجنڈے کو فروغ دے رہے ہیں۔ یہ پارٹی ایک ایسے وقت میں عوامی سطح پر مقبول ہوئی ہے، جب انتہائی دائیں بازو کے نظریات کی حامل پارٹیاں تاریکی میں گم ہوتی جا رہی ہیں۔ ان میں این پی ڈی جیسی نازی خیالات کی حامل پارٹی بھی شامل ہے۔
تصویر: picture alliance/AA/M. Kaman
طاقت کی جنگ
تقریبا پانچ برس قبل وجود میں آنے والی اس پارٹی کے اندر طاقت کی جنگ جاری ہے۔ ابتدائی طور پر اس پارٹی کی قیادت قدرے اعتدال پسندی کی طرف مائل تھی لیکن اب ایسے ارکان کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔ ناقدین کے مطابق اب اس پارٹی کے اہم عہدوں پر کٹر نظریات کے حامل افراد فائز ہوتے جا رہے ہیں۔ ان میں اس پارٹی کی موجودہ رہنما ایلس وائڈل بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler
پيگيڈا کے ساتھ ناخوشگوار تعلقات
اے ایف ڈی اور مہاجرت مخالف تحریک پیگیڈا کے باہمی تعلقات بہتر نہیں ہیں۔ پیگیڈا مشرقی جرمن شہر ڈریسڈن میں باقاعدہ بطور پر احتجاج کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ تاہم اے ایف ڈی نے پیگیڈا کے کئی حامیوں کی حمایت بھی حاصل کی ہے۔ تاہم یہ امر اہم ہے کہ پیگیڈا ایک سیاسی پارٹی نہیں بلکہ شہریوں کی ایک تحریک ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/S. Kahnert
میڈیا سے بے نیاز
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بریگزٹ رہنما نائیجل فاراژ کی طرح جرمن سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے رہنما بھی مرکزی میڈیا سے متنفر ہیں۔ اے ایف ڈی مرکزی میڈیا پلیٹ فارمز کے ساتھ دوستانہ تعلقات بنانے کے لیے کوشش بھی نہیں کرتی بلکہ زیادہ تر میڈیا سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات دینا بھی مناسب نہیں سمجھتی۔