جرمنی میں خود کشی کے واقعات اور تارکین وطن خواتین
17 اکتوبر 2006DGS کے نائب سربراہ Armin Schmidtke نے جرمن شہر Tübingen میں تنظیم برائے انسدادخود کشی کے ایک حالیہ اجلاس کے شرکاءکو بتایا کہ جرمنی میں ہر سال جتنے شہری خود کشی کر لیتے ہیں یا خود کشی کی کوشش کرتے ہیں، ان کی مجموعی تعداد میں ترک نسل کی خواتین کاتناسب واضح حد تک زیادہ ہے۔
اس کے برعکس، اپنی زندگی کے خاتمے کا فیصلہ کرلینے والے غیر ملکیوں یا جرمن شہریت اختیارکرچکنے والے تارکین وطن مردوں کی تعداد زیادہ نہیں ہے۔
Armin Schmidtke کہتے ہیں کہ تارکین وطن خواتین میں خود کشی کے غیر معمولی رحجان کا سبب ان کے خاندانی حالات بنتے ہیں، نہ کہ ان کو درپیش سماجی یا جرمن زبان سے ناکافی واقفیت کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ غیر ملکی نسل کی خواتین کے ایسے اقدامات میںمغربی طرززندگی اور ان کے آبائی ملکوں کی ثقافت میں فرق کی وجہ سے پیدا ہونے والاتضاد بھی اہم کردارادا کرتا ہے۔
اس کے علاوہ جرمنی میں جس سماجی گروپ کے افراد گذشتہ کئی برسوں سے بہت زیادہ تعداد میں خود کشی کرنے لگے ہیں وہ بزرگ نسل کے وہ مقامی شہری ہیں جو اگر مسلسل بیمار رہنے لگیں تو بالآخر اپنی زندگی سے تنگ آکر خود کشی کر لیتے ہیں۔
جرمنی میں اگر گذشتہ 50 برسوں کے دوران خود کشی کے واقعات کی مجموعی تعداد کو مد نظر رکھا جائے تواس میں ذہنی یا جسمانی طور پر بیمار ایسے بزرگ شہریوں کا تناسب بہت زیادہ ہو چکا ہے۔
Tübingen میں DGS کے اس ششماہی اجلاس میں ، جو کئی روز تک جاری رہا، 250 کے قریب طبی اور نفسیاتی ماہرین نے شرکت کی ۔ اس اجلاس میں جرمن ذرائع ابلاغ سے یہ اپیل بھی کی گئی کہ وہ خود کشی یا اقدام خود کشی کے واقعات کی رپورٹنگ کرتے ہوئے، زیادہ محتاط رویئے کا مظاہرہ کریں کیونکہ زیادہ ذمے دارانہ رپورٹنگ کے ذریعے خود کشی کے خطرے سے دوچار افراد کی سوچ پر تعمیری انداز میں اثرانداز ہوا جاسکتا ہے۔
یوں جرمنی میں خود کشی کے ان واقعات کی تعداد کم کی جاسکتی ہے جن میں ہر سال اوسطاً قریب بارہ ہزار افراد ہلاک ہوجاتے ہیں۔