جرمنی میں خیرات دینے والوں میں نمایاں کمی۔ لیکن کیوں؟
4 مارچ 2020
پچھلے سال جرمنی میں خیراتی اداروں کو امداد دینے والے لوگوں میں 10 لاکھ کی کمی دیکھی گئی۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران یہ سب سے بڑی کمی ہے۔ لیکن اس کی وجہ کیا ہے؟
اشتہار
جرمن ڈونیشن کونسل کے ایک سروے کے مطابق سال 2019ء کے دوران خیراتی کاموں کے لیے امداد دینے والے جرمنوں کی تعداد میں اس سے ایک برس قبل کے مقابلے میں ایک ملین یا 10 لاکھ کی کمی واقع ہوئی۔
جرمن شہریوں نے 2019ء کے دوران 5.1 بلین یورو کی رقم خیراتی اداوں کو دی۔ یہ رقم 5.7 بلین امریکی ڈالرز کے برابر بنتی ہے۔ اس سے ایک برس قبل یہ خیرات 5.3 بلین یورو تھی۔ عام طور پر سب سے زیادہ خیراتی رقوم دسمبر میں دی جاتی ہیں مگر دسمبر 2019ء میں دی جانے والی خیراتی رقوم میں بھی پندرہ فیصد کمی دیکھی گئی۔
سروے کے مطابق سب سے زیادہ خیرات عمر رسیدہ لوگوں نے دی۔ خیراتی رقوم کا 41 فیصد حصہ ستر برس سے زائد عمر کے لوگوں کی طرف سے موصول ہوا۔ انہوں نے اوسطاﹰ 344 یورو فی کس کے حساب سے خیراتی رقوم امدادی کاموں کے لیے دیں۔
امدادی کام کرنے والے اداروں کو سب سے زیادہ خیراتی رقوم مہیا کی گئیں، جو کُل عطیات کا 75 فیصد بنتا ہے۔ تاہم انہیں پچھلے سال کے مقابلے میں 58 ملین یورو کم ملے۔
تحفظ ماحول کے اداروں کو ملنے والی خیراتی رقوم میں تاہم اضافہ ہوا اور انہیں گزشتہ برس کے مقابلے میں چار ملین یورو زائد امداد ملی۔
بدلتے رویے، بدلتے سماجی حالات
جرمن ڈونیشن کونسل کے صدر ماکس میزلر کے مطابق کم ہوتی ہوئی یہ تعداد دراصل ایک عرصے سے جاری رجحان کا حصہ ہے جو اب بڑھتا جا رہا ہے۔
سال 2019ء کے دوران 19.5 ملین افراد نے عطیات یا خیراتی رقوم دیں جس کا اگر سال 2006ء سے موازنہ کیا جائے تو اس میں 10 ملین یا ایک کروڑ افراد کی کمی واقع ہو چکی ہے۔ اس سروے کا آغاز سال 2006ء میں ہی ہوا تھا۔
پاکستان کا شمار سب سے زیادہ خیرات کرنے والے ممالک میں
ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستانی شہری مجموعی قومی پیداوار کا ایک فیصد فلاح و بہبود میں صرف کر دیتے ہیں جس کے باعث پاکستان کا شمار سب سے زیادہ خیرات دینے والے ممالک میں ہوتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
مجموعی قومی پیداوار کا ایک فیصد
’سٹینفورڈ سوشل اِنووویشن ریویو‘ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق پاکستان خیرات کرنے والے ان ممالک کی فہرست میں شامل ہے جو دنیا کے امیر ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔ جیسے کہ برطانیہ، جہاں شہری مجموعی قومی پیداوار کا 1.3 فیصد خیرات کرتے ہیں، کینیڈا میں شہری 1.2 فیصد خیرات کرتے ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
سالانہ دو ارب ڈالر مالیت کے برابر عطیات
’پاکستان سینٹر فار پھلنتھروپی‘ کی جانب سے مرتب کی گئی رپورٹ کے مطابق پاکستانی شہری سالانہ دو ارب ڈالر مالیت کے برابر عطیات دیتے ہیں۔ لیکن زیادہ تر اشیاء یا رقم اداروں کے بجائے مستحق افراد کو براہ راست دی جاتی ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
زیادہ تر دی جانی والی رقم کی مالیت کم
اس ریسرچ کے مطابق زیادہ تر دی جانی والی رقم کی مالیت کم ہوتی ہے مگر وہ باقاعدگی سے دی جاتی ہے۔ یہ امداد زیادہ تر مستحق افرادکو دی جاتی ہے۔ ان افراد تک اداروں کی نسبت پہنچنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔
تصویر: DW/Beenish Ahmed
الی امداد زیادہ تر مساجد اور مدرسوں کو
اداروں کو دی جانے والی مالی امداد زیادہ تر مساجد اور مدرسوں کو دی جاتی ہے۔ لوگوں کے گھروں میں جا کر پیسہ جمع کرنے اور محلوں چندے کے لیے ڈبوں کے رکھے جانے سے یہ ادارے زیادہ رقم جمع کر لیتے ہیں۔
تصویر: Imago
کم بھروسہ
پاکستانی عوام کا ایک طبقہ اس خوف سے کہ کہیں ان کی دی ہوئی رقم ضائع نہ ہو جائے، عام فلاحی تنظیموں کو کم دیتے ہیں اور زیادہ مستحق غریب افراد کو رقم یا اشیاء عطیہ کرتے ہیں۔
تصویر: Imago
دولت کا ہونا
پاکستان میں صاحب حیثیت افراد نہ صرف اپنے قریبی مستحق افراد کی مدد کرتے ہیں بلکہ ان کی دولت سے خیراتی اداروں کی بھی مالی مدد کی جاتی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مالی طور پر خوش حال افراد کے پاس خیراتی اداروں کے بارے میں معلومات بھی زیادہ ہوتی ہیں اور وہ بعض اوقات ان خیراتی اداروں سے منسلک بھی ہوتے ہیں۔
تصویر: AP
نوے فیصد خیرات براہ راست مستحق افراد
بلوچستان میں جہاں مالی اعتبار سے درمیانے اور نچلے درجے کے افراد کی تعداد زیادہ ہے وہاں نوے فیصد خیرات اداروں اور تنظمیوں کے بجائے براہ راست مستحق افراد کو دی جاتی ہے۔
تصویر: AP
7 تصاویر1 | 7
میزلر کے بقول اس صورتحال میں بہتری کے کم امکانات ہیں۔
اس سروے میں مدد کرنے والی مارکیٹ ریسرچ کمپنی گروتھ فرام نالج سے وابستہ بیانکا کورکوران کے مطابق اس کی ایک وجہ عطیات یا خیرات دینے کے ممکنہ طریقوں میں اضافہ ہو سکتی ہے اور ممکن ہے لوگ نقد رقوم کی بجائے اب اپنا وقت یا اپنی چیزیں عطیہ کرتے ہوں یا وہ فیئر ٹریڈ مصنوعات خرید لیتے ہوں۔