جرمنی میں دائیں بازو کے انتہا پسندوں کے جرائم کا نیا ریکارڈ
4 مئی 2021
جرمنی میں سیاسی وجوہات کی بنا پر رونما ہونے والے دائیں بازو کے انتہا پسندوں کے پرتشدد اور نسل پرستانہ جرائم میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ یہ بات جرمن وزیر داخلہ زیہوفر نے تازہ ترین سرکاری اعداد و شمار جاری کرتے ہوئے بتائی۔
اشتہار
وفاقی جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر نے سیاسی وجوہات کی بنا پر جرائم کے ارتکاب سے متعلق تازہ ترین سرکاری اعداد و شمار جاری کرتے ہوئے منگل کے روز بتایا کہ 2020ء میں ملک میں ایسے جرائم کی مجموعی تعداد 2001ء سے لے کر آج تک کی اپنی سب سے اونچی سالانہ سطح پر رہی۔
ہورسٹ زیہوفر نے کہا کہ ملک میں دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی طرف سے جرائم کے ارتکاب میں اضافہ تشویش ناک ہے اور حکومت ایسے جرائم کے سدباب کے لیے قانون نافذ کرنے والے ملکی اداروں کی مدد سے اپنی بھرپور کوششیں کر رہی ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ نے اس حوالے سے گزشتہ برس فروری میں پیش آنے والے اس سانحے کی مثال بھی دی تھی، جس میں ہاناؤ کے شہر میں تارکین وطن کے سماجی پس منظر سے تعلق رکھنے والے گیارہ نوجوان افراد کو قتل کر دیا گیا تھا۔
وزیر داخلہ زیہوفر نے بتایا کہ ملک میں سیاسی عوامل یا وجوہات کے سبب پرتشدد جرائم کے ارتکاب میں واضح اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور 2020ء میں ایسے جرائم کی شرح میں 2019ء کے مقابلے میں 8.5 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
ہورسٹ زیہوفر نے، جن کے ساتھ میڈیا کو ایسے جرائم کے اعداد و شمار سے آگاہ کرتے ہوئے جرائم کی تحقیقات کرنے والے وفاقی جرمن ادارے بی کے اے کے سربراہ ہَیلگر میُونش بھی موجود تھے، کہا کہ جرمنی میں زیادہ تر دائیں بازو کے انتہا پسندوں کے ایسے جرائم کی تعداد مجموعی جرائم کا صرف ایک فیصد بنتی ہے، ''اس کے باوجود یہ ڈیٹا اس وجہ سے بہت تشویش ناک ہے کیونکہ یہ ایک خطرناک رجحان کی نشاندہی کرتا ہے۔‘‘
کیمنِٹس کے انتہائی دائیں بازو اور نازی سیلیوٹ کرتا بھیڑیا
جرمنی میں کئی مقامات پر تانبے سے بنے بھیڑیے کے ایسے مجسمے نصب کیے گئے ہیں جو نازی دور کے سیلیوٹ کے حامل ہیں۔ اب ان مجسموں کو مشرقی شہر کیمنٹس میں بھی نصب کیا گیا ہے، جہاں ان دنوں اجانب دشمنی کی وجہ سے خوف پایا جا رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
’بھیڑیوں کی واپسی‘
جرمنی میں تانبے کے 66 مجسموں کی ایک سیریز تخلیق کی گئی، یہ نازی سیلیوٹ کا انداز بھی اپنائے ہوئے ہیں، یہ جرمنی میں ممنوع ہے۔ مجسمہ ساز رائنر اوپولکا کے بقول یہ تخلیق نسل پرستی کے خطرے کی علامت ہے۔ تاہم انتہائی دائیں بازو کے نظریات کے ہمدرد خود کو بھیڑیے سے تشبیہ دینے لگے ہیں۔ مہاجرت مخالف AFD کے رہنما ہوئکے نے کہا ہے کہ ہٹلر کے پراپیگنڈا وزیر گوئبلز نے 1928ء میں بھیڑیے کی اصطلاح استعمال کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
کیمنٹس میں دس بھیڑیے
فنکار رائنر اوپولکا نے اپنے یہ مجسمے ایسے مقامات پر لگائے ہیں جہاں اجانب دشمنی اور نسل پرستانہ رویے پائے جاتے ہیں۔ ان کو ڈریسڈن میں پیگیڈا تحریک کی ریلیوں کے دوران نصب کیا گیا تھا۔ میونخ کی عدالت کے باہر بھی یہ مجسمے اُس وقت نصب کیے گئے تھے جب انتہائی دائیں بازو کی خاتون بیاٹے شاپے کو قتل کے جرم میں سزا سنائی گئی تھی۔ شاپے نیو نازی گروپ این ایس یو کے دہشت گردانہ سیل کی رکن تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
انتہائی دائیں بازو کے بھیڑیے
کیمنٹس شہر میں گزشتہ جمعے کو انتہائی دائیں بازو کی ایک نئی ریلی کا انتظام کارل مارکس کے مجسمے اور تانبے کے بھیڑیے کے سامنے کیا گیا۔ اس ریلی میں انتہائی دائیں بازو کے کارکنوں نے بھیڑیے کے پہناوے میں جارح رویہ اپنا رکھا تھا اور بعض نے آنکھوں کو چھپا رکھا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
’کیمنٹس میں جرأت ہے‘
رواں برس ماہِ ستمبر کے اوائل میں انتہائی دائیں بازو کی ریلیوں کی وجہ سے کیمنٹس کے تشخص پر انگلیاں بھی اٹھیں۔ اس دوران مرکزِ شہر میں نسل پرستی اور قوم پرستی کی مذمت کے جہاں بینر لگائے گئے وہاں ایک بڑے میوزیکل کنسرٹ کا اہتمام بھی کیا گیا۔ اس کنسرٹ میں 65 ہزار افراد نے شرکت کر کے واضح کیا کہ اُن کی تعداد دائیں بازو کے قوم پرستوں سے زیادہ ہے۔
تصویر: Reuters/T. Schle
شہر کے تشخص پر نشان
کیمنِٹس کی شہری انتظامیہ نے انتہائی دائیں بازو کی ریلیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان سے فاصلہ اختیار کر رکھا ہے۔ سٹی ایڈمنسٹریشن کے کئی اہلکاروں کے مطابق انتہائی دائیں بازو کی ریلیوں سے کیمنِٹس کا تشخص مستقلاً مسخ ہو سکتا ہے۔ شہری انتظامیہ نے مطالبہ کیا ہے کہ ایسے انتہا پسندوں کے خلاف عدالتی عمل کو سرعت کے ساتھ مکمل کیا جائے جنہوں نے نفرت کو فروغ دے کر تشدد اور مظاہروں کو ہوا دی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
5 تصاویر1 | 5
گزشتہ دو عشروں کے دوران سب سے زیادہ سالانہ شرح
جرمن وزیر داخلہ کے مطابق گزشتہ برس ملک میں دائیں باز وکی انتہا پسندانہ سوچ کی وجہ سے جتنے بھی جرائم کا ارتکاب کیا گیا، وہ 2001ء سے اب تک ایسے جرائم کی سب سے زیادہ سالانہ تعداد کی نشاندہی کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جرمن پولیس نے سیاسی وجوہات کی وجہ سے جرائم کے ارتکاب کا علیحدہ ریکارڈ رکھنا 20 سال قبل 2001ء میں شروع کیا تھا اور یہ شرح تب سے آج تک کی سب سے اونچی سالانہ شرح ہے۔
تازہ ترین سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس ملک میں معمولی نوعیت سے لے کر مہلک نوعیت کے مجموعی طور پر تیئیس ہزار چونسٹھ جرائم ایسے تھے، جن کا ارتکاب دائیں بازو کے انتہا پسندوں نے کیا۔ یہ شرح 2019ء کے مقابلے میں 5.7 فیصد زیادہ ہے۔
مہاجرین کے مبینہ جرائم پر دائیں بازو کا رد عمل شدید تر
جرمنی میں حالیہ کچھ عرصے میں ایک طرف جہاں مہاجرین کی طرف سے مبینہ جرائم کی خبریں سامنے آ رہی ہیں وہیں ملک میں انتہائی دائیں بازو کی جانب سے ان کے خلاف جذبات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ملاحظہ کیجیے یہ پکچر گیلری۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
جرمن شہری کی ہلاکت اور مظاہروں کا آغاز
کیمنٹس میں چھبیس اگست سے انتہائی دائیں بازو کی سوچ کے حامل افراد نے مظاہروں کا سلسلہ اُس وقت شروع کیا تھا جب ایک جرمن شہری کو سیاسی پناہ کے دو متلاشیوں نے ہلاک کر دیا تھا۔
تصویر: Jan Woitas/dpa/picture alliance
مظاہروں کے خلاف مظاہرے
اگرچہ رواں ماہ کی سات تاریخ کو کیمنٹس میں رائٹ ونگ گروپوں کے ارکان نے بھرپور مہاجرین مخالف مظاہرے کیے تاہم اگلے ہی روز کیمنٹس کے شہریوں نے بھی بڑی تعداد میں مہاجرین مخالف مظاہروں کے خلاف مظاہرے کیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
مسائل کی ماں مہاجرت
انہی مظاہروں کے درمیان جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر کی جانب سے بھی پناہ گزینوں کی مخالفت میں ایک تنقیدی بیان سامنے آیا جس میں انہوں نے کہا کہ مہاجرت ہی تمام مسائل کی ماں ہے۔ زیہوفر نے کیمنٹس میں رائٹ وِنگ کی جانب سے کیے گئے مظاہروں پر تنقید بھی نہیں کی۔
تصویر: Imago/Sven Simon/F. Hoermann
میا وی کے قاتل کو سزائے قید
ستمبر کی تین تاریخ کو جنوب مغربی جرمن شہر لنڈاؤ میں ایک جرمن عدالت نے عبدل ڈی نامی ایک افغان تارک وطن کو پندرہ سالہ جرمن لڑکی میا وی کو قتل کرنے کے جرم میں ساڑھے آٹھ سال قید کی سزا سنائی تھی۔ میا وی کی ہلاکت پر بھی اُس کے شہر کانڈل میں تارکین وطن کے خلاف مظاہرے کیے گئے تھے۔
تصویر: DW/A. Prange
ایک اور افغان مہاجر جیل میں
رواں ہفتے کے اختتام پر جرمن شہر ڈارم شٹڈ کی ایک عدالت نے ایک اور افغان مہاجر کو اپنی سترہ سالہ سابقہ گرل فرینڈ کو چاقو سے شدید زخمی کرنے کے جرم میں سات سال جیل کی سزا سنائی تھی۔ نو عمر افغان پناہ گزین پر الزام تھا کہ اس نے سن 2017 میں کرسمس سے قبل اپنی سابقہ گرل فرینڈ پر چاقو سے حملہ کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Stein
کوئتھن، جرمن نوجوان کی ہلاکت
ابھی کیمنٹس شہر میں تناؤ پوری طرح کم نہ ہوا تھا کہ جرمن ریاست سیکسنی اَن ہالٹ کے شہر کوئتھن میں ایک بائیس سالہ جرمن نوجوان کی دو افغان مہاجرین کے ہاتھوں مبینہ قتل نے ہلچل مچا دی۔ ریاست کے وزیر داخلہ ہولگر شٹالک نیخت نے شہریوں سے پر امن رہنے کی اپیل کی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Hein
کوئتھن میں مظاہرے
مقامی پولیس کے مطابق ’کیمنٹس پرو‘ گروہ کی طرف سے سوشل میڈیا پر کوئتھن میں مظاہرے کی کال دی گئی جس پر لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے مثبت ردعمل ظاہر کیا۔ ایک اندازے کے مطابق اس مظاہرے میں پچیس ہزار افراد شریک ہوئے۔ جس میں چار سو سے پانچ سو افراد کا تعلق انتہائی دائیں بازو کے نظریات کے حامل افراد سے تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Willnow
7 تصاویر1 | 7
دائیں بازو کی انتہا پسندی 'سب سے بڑا خطرہ‘
وفاقی وزیر داخلہ کے مطابق تازہ ترین ا عداد و شمار بھی اسی حقیقت کی عکاسی کرتے ہیں، جو وہ وزیر داخلہ کے طور پر پہلے دن سے ہی کہتے آئے ہی، ''دائیں بازو کی انتہا پسندی ملکی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ پچھلے سال ملک میں جتنے بھی پرتشدد اور نسل پرستانہ حملے رپورٹ ہوئے، ان کی اکثریت کا ارتکاب ایسے افراد نے کیا، جن کا تعلق دائیں بازو کے انتہا پسندانہ عناصر سے تھا۔
اس رپورٹ کے مطابق ملک میں سامیت دشمنی کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے، جو دیگر جرائم کی طرح ایک قابل مذمت پیش رفت ہے۔
دائیں بازو کے انتہا پسندوں کے جرائم میں صرف کسی پر جسمانی حملہ کرنا ہی شامل نہیں ہوتا، بلکہ کسی کے بھی خلاف زبانی دھمکی، نسل پرستانہ پروپیگنڈا یا نفرت انگیز بات کہنا بھی جرائم کے طور پر ریکارڈ کیا جاتا ہے۔
م م / ک م (آلیکس بیری)
جرمنی: انتہائی دائیں بازو کی ’رائشس بُرگر تحریک‘
یہ تحریک نہ صرف کورونا وائرس کے حوالے سے عائد پابندیوں کو نہیں مانتی بلکہ جرمن حکومت کے آئینی جواز کو بھی مسترد کرتی ہے۔ یہ تحریک کیا ہے اور جرمن حکومت اس کے خلاف کیا اقدامات کر رہی ہے؟
تصویر: picture-alliance/chromorange/C. Ohde
یہ تحریک کرتی کیا ہے؟
یہ تحریک ٹیکس اور جرمانے ادا کرنے سے انکار کرتی ہے۔ اس میں شامل افرد اپنی ذاتی املاک کو جرمن حکومت کے عمل دخل سے باہر تصور کرتے ہیں۔ نہ تو جرمن آئین کو مانتے ہیں اور نہ ہی ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ یہ اپنے پاسپورٹ اور ڈرائیونگ لائسنس تک خود بناتے ہیں۔ عدالتوں میں مسلسل کیس دائر کرتے رہتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/SULUPRESS/MV
یہ کتنا بڑا خطرہ ہیں؟
اس تحریک کا آغاز اسی کی دہائی میں ہوا تھا اور اس کا کوئی رہنما نہیں۔ جرمن خفیہ ادارے کے مطابق اس تحریک کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے اور تقریباً انیس ہزار تک پہنچ چکی ہے۔ ان میں سے 950 انتہائی دائیں بازو کے انتہاپسندوں کی لسٹ میں شامل ہیں جبکہ ایک ہزار کے پاس اسلحہ رکھنے کا لائسنس ہے۔ ان میں سے بہت سے لوگ یہودی اور مسلمان مخالف نظریات کی پیروی کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Bildagentur-online/Ohde
اس کے اراکین اور مسٹر جرمنی کون ہیں؟
جرمن حکام کے مطابق اس تحریک کے اراکین کی اوسطا عمر پچاس سال ہے جبکہ یہ معاشرتی اور مالی طور پر پسماندہ ہیں۔ زیادہ تر اراکین جرمنی کے مشرقی اور جنوبی علاقوں سے ہیں۔ آدریان اورزاخے سابق مسٹر جرمنی ہیں اور اس تحریک کا ہی حصہ ہیں۔ انہیں سن دو ہزار انیس میں ایک پولیس اہلکار کو فائرنگ سے زخمی کرنے کے جرم میں سات سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Schmidt
فیصلہ کن موڑ
وولفگانگ پی کا کیس جرمن حکام کے لیے فیصلہ کن ثابت ہوا۔ انہیں سن 2017 میں ایک پولیس اہلکار کو قتل کرنے کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ مبینہ طور پر اس تحریک کے اس ہلکار نے اس پولیس اہلکار پر فائرنگ کی، جس نے اسلحہ برآمد کرنے کے لیے اس مجرم کے گھر پر چھاپہ مارا تھا۔ اس واقعے کے بعد جرمن حکام چوکنا ہو گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Karmann
جرمن حکام کیا کر رہے ہیں؟
جرمن حکام پر تنقید کی جاتی ہے کہ انہوں نے طویل عرصے تک اس خطرے کو نظرانداز کیا۔ سن 2017ء میں پہلی مرتبہ خفیہ ایجنسی نے اس تحریک کے خطرناک اراکین کی فہرست تیار کی۔ تب سے متعدد اراکین اور اس تحریک کے ذیلی کالعدم گروپوں کے خلاف چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ پولیس اور جرمن فوج میں بھی اس تحریک کے ممکنہ اراکین کی موجودگی کی چھان بین کی جا چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Zinken
بین الاقوامی سیاست اور سازشی نظریات
اس تحریک کے کئی اراکین روسی پرچم لہراتے نظر آتے ہیں۔ ان کے خلاف سب سے بڑا الزام بھی یہی ہے کہ انہیں روس کی مالی معاونت حاصل ہے اور یہ جرمن حکومت کو کمزور بنانا چاہتے ہیں۔ ان کا موازنہ امریکی گروپ ’فری مین آن دا لینڈ‘ سے بھی کیا جاتا ہے۔ اس تحریک کے اراکین کا موقف بھی یہی ہے کہ وہ صرف ان قوانین کے پابند ہیں، جن پر وہ رضامند ہیں۔