جرمنی میں داعش کا پہلا حملہ کرنے والی لڑکی کو سزائے قید
26 جنوری 2017شمالی جرمن صوبے لوئر سیکسنی کے شہر سَیلے (Celle) سے جمعرات چھبیس جنوری کو ملنے والی نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق اس نابالغ لڑکی نے، جو ایک اسکول کی طالبہ تھی، صرف 15 برس کی عمر میں لوئر سیکسنی کے صوبائی دارالحکومت ہینوور میں ایک 34 سالہ پولیس اہلکار کو چھری سے وار کر کے شدید زخمی کر دیا تھا۔
صفیہ، جس کا اس کے ذاتی کوائف کے تحفظ کے پیش نظر اور کم عمری کی وجہ سے خاندانی نام ظاہر نہیں کیا گیا، شام اور عراق میں وسیع تر علاقوں پر قابض شدت پسند گروہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کی حامی ایسی پہلی جرمن خاتون شہری ہے، جسے ملک میں کسی دہشت گردانہ حملے کے جرم میں سزا سنائی گئی ہے۔
اسی حملے کے بارے میں جرمن سکیورٹی اداروں کے ریکارڈ کے مطابق یہ حملہ داعش کے کہنے پر یا اس عسکریت پسند گروہ کے ساتھ ہمدردی کی وجہ سے جرمنی میں اب تک کیے جانے والے متعدد خونریز دہشت گردانہ حملوں میں سے پہلا حملہ تھا۔ گزشتہ برس جنوری میں اس لڑکی کی طرف سے کیے جانے والے حملے سے پہلے جرمنی میں داعش کے حامی کسی شدت پسند کی طرف سے کبھی کوئی حملہ نہیں کیا گیا تھا۔
صفیہ کو چھ سال قید کی سزا سَیلے میں ایک اعلیٰ صوبائی عدالت نے سنائی۔ عدالت کی ایک ترجمان نے جمعرات کے روز بتایا کہ سزا یافتہ مجرمہ کو اس کی کم عمری کی وجہ سے نوجوانوں کی جیل میں رکھا جائے گا۔
اس لڑکی نے مقدمے کی سماعت کے دوران نہ صرف اپنے جرم کا اعتراف کر لیا تھا بلکہ دوران حراست جیل سے لکھے گئے اپنے ایک خط میں شدید زخمی ہونے والے پولیس افسر سے معافی بھی مانگ لی تھی۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ملزمہ کی طرف سے یہ حملہ اس کی طرف سے داعش کی عملی مدد کا مظہر ہے، جس پر اسے سزا ملنا چاہیے۔
اس مقدمے میں استغاثہ نے مطالبہ کیا تھا کہ ملزمہ کو اقدام قتل اور غیر ملکی دہشت گردوں کی مدد کے جرم میں چھ سال قید کی سزا سنائی جانا چاہیے۔ وکلاء صفائی نے کہا تھا کہ صفیہ کو اس کی کم عمری کے پیش نظر دہشت گردی کے الزام میں نہیں بلکہ صرف کسی کو جسمانی طور پر زخمی کرنے کے جرم میں سزا سنائی جائے۔ عدالت نے تاہم اپنے فیصلے میں صفیہ کو وہ زیادہ سے زیادہ سزائے قید سنائی، جس کا استغاثہ نے مطالبہ کیا تھا۔
صفیہ ایک مراکشی نژاد جرمن شہری ہے، جو اسکول میں حصول تعلیم کے دوران شدت پسندانہ مذہبی نظریات کی حامل ہو گئی تھی اور گزشتہ برس جنوری میں اس نے ترکی کے شہر استنبول جا کر وہاں سے داعش کی صفوں میں شامل ہونے کے لیے شام جانے کی کوشش بھی کی تھی۔
اس مقدمے میں صفیہ کے ہمراز اور اس حملے سے پہلے اس کی تیاری سے آگاہ ایک بیس سالہ شامی نژاد جرمن شہری محمد حسن کو، جو صفیہ کے ساتھ شریک ملزم تھا، اس وجہ سے ڈھائی سال قید کی سزا سنائی گئی کہ اس نے علم ہونے کے باوجود پولیس کو اس دہشت گردی کی منصوبہ بندی سے آگاہ نہیں کیا تھا۔